شعر و ادبکالمز

بشارت شفیع کی یاد میں

جاوید احمد

پچھلے ہفتے کے روز دفتر نہیں جاسکا اور گھر پر کسی کام کے لئے رکا تھا اور افکار اقبال پڑھ رہا تھا کہ میری پڑھائی میں موبائل نے شور مچاکر مخیل ہوا ، بادل ناخواہستہ اٹھایا تو پتا چلا کہ یسنے محرکہ کا چیرمین شیرولی خان آف سلپے ہیں۔ علیک سلیک کے بعد کہا کہ کل دن دو بجے لوک ورثہ اسلام آباد میں مرحوم بشارت شفیع کی یاد میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے جو کہ یسنے محرکہ اور یاسین آرٹ کونسل کے تعاون سے پیش کیا جائیگا جس میں مرحوم کے خاندان کے افراد کے علاوہ یاسین سے تعلق رکھنے وا لے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے عمائدین، پروفیشنلز، دانشمندان یاسین، ماہرین، اور یاسین کے نوجوان طبقہ شامل ہوں گے ، آپ سے بھی شرکت کی اپیل ہے ، چونکہ پاکستانی وقت اکثر نہیں بلکہ دیر آید کے مصداق ہو تاہے اس لئے ایک دو دفعہ میں اپنی تسلی کے لئے وقت مقررہ کا اسرار کیا اور پھر حامی بھر کر اپنے گھر میں علا کرایا کہ کل لوک ورثہ میں تقریب ہے جس جس نے آنا ہے تو کل بارہ بجے تیا ر ہو جاو لیکن دوسرے دن صرف میرے ساتھ میرا سب سے چھوٹا بیٹا عبدل باقی صاحبقران اور پوتاصائم علی ہی جاسکے۔

گھر سے نکل کر ایک دو ٹیکسی والوں سے پوچھا تو میرے بس کی بات نہ تھی بہر حال مری روڈ پر پہنچے تو فوراََ ایک نمبر ویگن آگئی اور ہم بہت جلد زیرو پوائنٹ جاکر اتر گئے یہ جاوید چوہدری ولا زیرو پوائنٹ نہیں بلکہ جہاں اسلام آباد زیرو ہوتا ہے وہاں ایک بس سٹاپ ہے ، ہم آہستہ آہستہ شکر پڑیاں کی چڑاھائی چڑھ کر دوسری طرف اتر کر لوک ورثہ پہنچ گئے اور جب لوک ورثہ پہنچے تو وہاں ایک دو نوجوان لڑکے اور لڑکیا ں گلگتی لباس میں ملبوس مور کی کلغی اور بگلے کے چل اونی ٹوپی پر لگائے اور لڑکیاں زیور سےآراستہ گلگتی ٹوپی سر پر سجا کر ہمارے اسقبال کو کھڑے تھے۔

ایک با ریش نوجوان نے ہمارا اسقبال کیا اور حال تک پہنچایا وہاں جو جوان تھے انھوں نےسب سے پہلے ہی ہمیں نیت شاہ قلندر کا شعری مجموعہ پیش کیا اور پھر بہت اسرار کر کے سب سے اگلی نشست پر لے جاکر بٹھایا تو میں نے اپنے بچوں کو پچھلی نشست پر بٹھا یا تاکہ معتبریں یاسین کے لئے اگلی نشست پر جگہ دستیاب ہو سکے ، اور پھر ڈاکٹر گلسمبر جو کہ بشارت شفی کے ماموں بھی ہیں اور حال ہی میں سعودی عرب سے واپس پاکستان آئے تھے صرف اس تقریب میں شرکت کے لئے کراچی سے تشریف لائے تھے، اسکے علاوہ بشارت کے بھائی مشہور وکیل وزیر شفیع ، امتیاز شفیع ، اور مبشر شفیع بھی گلگت اور کراچی سے آئے تھے، اس کے علاوہ مشہور ماہر تعلیم جان مدد ، ماہر تعلیم خلیفہ ناصر اور رشید، ڈپٹی ڈائریکٹر اعظم خان ، اور صوبیدار میجر قدم علی (درکوت ) اور بہت سے عمائدین اور نوجوانوں کے علاوہ بشارت شفیع کی بیوہ اور بہت سے خاندانوں نے شرکت کیا ، تقریب کا آغاز ہوا تو اسٹیج سیکریٹری علی احمد جان نے شیرولی خان چیر مین یاسینے محرکہ کو تقریب کے اغراض و مقاصد بیان کرنے اور شرکاء کو خوش آمدید اور شکریہ ادا کر نے کی دعوت دی ، شیر ولی نے اللہ کی بابرکت نام سے آغاز کرتے ہوے کہا کہ آج ہم جس تقریب کا انعقاد کرنے کے لئے جمع ہو ے ہیں وہ جناب بشارت شفیع مر حوم کی خدمات اور کاوشوں کو خراج تحسین پیش کر نے کی ایک معمولی کوشش ہے چیرمین نے کہا کہ بشارت شفیع جو کہ ایک شخصیت تھی لیکن وہ اپنے تییں ایک صدی تھا ایک قرن تھا ، وہ ایک پورا قوم تھا، وہ برشو قوم تھا ، جس نے اپنی شاعری، اپنی محبت اور اپنی محنت سے بروشسکی خاصکر یاسین کے بروشسکی کی ڈوبٹی ناؤ کو ایک مہمیز بخشا، اس نے بروشسکی کو دوام بخشا، وہ نہ صرف برشسکی شاعری کا دلدادہ تھے بلکہ وہ بروشسکی ثقافت، رسوم و رواج، وہاں کے بزرگوں، شاعروں، وھاں کے پہاڑوں ، یسین کی سرزمین سب سے محبت کرتے تھے۔

یاسین کے حوالے سے بشارت شفیع کی شاعری پیش خدمت ہے:

یسین جا بتھن دوا جا اسے ملتن دوا
ہائے دریغا جابتھن جا اچوم متھن دوا

یعنی یاسین میرا وطن ہے میرے دل کا لہو ہے، اے کا ش مجھ سے دور ہے

چو نکہ وہ کراچی میں ہو تے تھے اس لئے اپنے وطن سے دوری کو شدت سے محسوس کرتے تھے ایک اور جگہ اپنے اسلاف کو یاد کرتے ہوے کہتا ہے کہ

سورم جمائل کا گو ٹمبوکی گو مچھی کا گو
ہرچیمی یوریش خاش گیک نیا شفی کا گو

کہتا ہے کہ سورم ، جمائل ٹم بکی اور مچھی جیسے اسلاف بھی تیرے فرزند تھے اور شفیع بھی مرنے تک تمھارا نام لے کر روتا رہے گا

اس کی کلام کی گہرائی کا اندازہ لگائے کہ کیسی بات کیا ہے، شیر ولی نے کہا کہ بشارت نے بروشسکی کو امر کیا اور وہ لو گوں کی دل میں امر ہو گیا۔ میں کہتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ ساتھ موجود ہے لیکن نظر نہیں آتا، وہ جب زندہ تھے ایک دل کی دھڑکن تھا لیکن آج وہ ہر دل کی دھڑکن بن چکا ہے ۔

انھوں نے تمام شرکاء کا ان کے خاندان کے افراد کا، یاسین آرٹ کونسل کے ممبران اور یسنے محرکہ کے ممبران اور تمام نوجوانوں کااور تمام مالی امداد دینے والوں اور عملی طور پر شرکت کرنے والوں سب کو خوش آمدید کہا اور سب کا شکریہ بھی ادا کیا ۔ اور کہا کہ آپ تمام کہ وجہ سے یہ ممکن ہوا کہ آج ہم یہاں بشارت شفیع کو خراج تحسین پیش کر نے کے لئے جمع ہوے ہیں اس میں ہم کس حد تک کامیاب ہو تے ہیں اس کا فیصلہ میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔

اس کے بعد تقریب کا باقائدہ آغاز کیا گیا وزیر شفیع کے کلام کو گلوکاروں نے نہایت خوبصورت آوازوں میں سنایا اور بہت سے جوانوں نے اپنے کلام بھی خوبصورت آواز میں سامعین کی نذر کیا۔

کمپیرنگ علی احمد جان کی قیادت میں مختلف طلباء اور طالبات نے نہایت خوبصورتی سے کیا اور یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کے شعرا خود ہی گلوکار بھی ہیں اور اپنا کلام بھی خو دہی گاتے ہیں ۔ تو بہت سے جوانوں نے شرکت کیا جن میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں۔ ریاض صاقی، محبوب جان یاسینی، وجاحت شاہ عالمی، نیت شاہ قلندر، جو کہ اردوکا بھی ایک بہترین شاعر ہے جن کا کلام داغ ہائے دل جو کہ حال ہی میں شائع ہوا ہے اور مشہور گلوکار و شاعر قیمت شاہ کے فرزند ہیں،گل نیاب قیصر، آصف علی اشرف، اشفاق، ارشاد حسین، مشتاق وغیرہ نے اپنے اپنے کلام

اپنے اپنے کلام سنا کر خوب داد حاصل کیا اور گل نیاب نے بشارت شفیع کی ایک کلام گرین اوسے گاکر محفل کو لوٹ لیا اور خوب داد و تحسین حاصل کیا اس کے علاوہ علاقائی ثقافت کو بھی خوب اجاگر کیا اور ایک بہترین خاکہ بھی پیس کیا گیا جس میں یہ کوشش کیا گیا تھا کہ والدین کو بچوں کی صلاحیت اجاگر کرنے میں بچوں کی پسند و نپسند کا بھی خیال رکھیں تاکہ اس کی سلاحیتیں اجاگر ہونے میں اس کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔

جناب ڈاکٹر گلسمبر کراچی سے آئے تھے اور رات نو بجے ان کی فلائٹ تھی تو ان کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی دعوت دیا گیا اور ڈاکٹر گلسمبر خان صاحب جو کہ مرحوم بشارت کے ما موں بھی ہیں ، اس تقریب کے انتظامیہ اور یسنے محرکہ اور یاسین آرٹ کونسل کے ممبران کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ آپ لو گوں نے جو پروگرام پیش کیا یہ ایک بین الاقوامی قسم کا پروگرام ہے کسی بھی فورم پر اس سے بہتر پرگرام نہیں ہو سکتا ۔

انھوں نے بشارت شفیع کی روح کے لئے اللہ سے دعا کیا ، ڈاکٹر گل سمبر نے کہا کہ بشارت زندگی میں ہی سب کی پسندیدہ شخصیت تھے لیکن ہم سے جدا ہو کر پوری قوم کی دل کی دھڑکن بن گیا ، وہ بچپن سے ہی ایک پیدائشی شاعر تھا ہر محفل کی جان تھے لیکن آج وہ سب کی جان بن گئے ہیں، ڈاکٹر نے سب انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا اور انکے کام کی تعریف کیا اور آخر میں ۲۵۰۰۰ روپے کا علان کیا۔

مشہور ماہر تعلیم جان مدد نے کہا کہ میں تو ججک رہا ہو ں کہ آپ لوگوں کے سامنے شاید اصل بروشسکی نہ بول سکوں کیو ں کہ آ پ لوگوں کے الفاظ اور شاعری دیکھ کر میں حیران ہو گیا کہ میں تو بروشسکی شاید نہیں جانتا ہوں، بہت ہی تعریف کے آپ لوگ مستحق ہیں یہاں جو شاعری ہم نے سنا تو ہمیں آپ لوگوں پر فخر محسوس ہوا، انھوں نے بشارت شفیع کو خراج تحسین پیش کر تے ہوے کہا کہ بشارت نے نہ صرف بروشسکی شاعری کو دوام بخشا بلکہ بہت کم عرصے میں بہت کم عمری میں سب لوگوں کے دلوں کو اپنی شاعری، اپنی محبت اور خلوص سے خریدا کوئی زمین خریدتا ہے کوئی مکان لیکن بشارت نے لوگوں کی دلوں کو خریدا ، اور کہا کہ بشارت کی شاعری ایک اونچے پائے کی شاعری ہے، جان نے یاسین آرٹ کونسل کے ممبران اور یسینے محرکہ کے ممبران کا شکریہ ادا کیا اور ایک بہترین اور کامیاب پروگرام کرنے پر مبارک بادی دیا ،اور کہا کہ میرے لائق کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں کسی بھی وقت کوئی بھی خدمت ہو تو میں حاضر ہوں۔

بشارت کے بڑے بھائی مشہور وکیل وزیر شفیع نے تمام انتظامیہ کو ایک بہترین پروگرام کے انعقاد پر خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ آپ لوگوں نے نہ صرف ایک اچھا پروگرام پیش کیا بلکہ ہمارے غم اور دکھ کو بھی کم کیا ہمیں احساس دلایا کہ بشارت صرف ہمارا نہیں بلکہ سب کا ہے ۔ وزیر شفی نے سب کا شکریہ ادا کیا اور اپنی طرف سے دو لاکھ روپے کا بھی اعلان کیا۔

ڈپٹی سیکریٹری اعظم خان نے اپنی تقریر میں سب کا شکریہ ادا کیا اور ایک بہترین پروگرام کے انعقا د پر خراج تحسین پیش کیا اور آخر میں پروگرام میں پرفارم کر نے والوں میں شیلڈ تقسیم کیا گیا، اور یہ بہترین پروگرام یاسین کی روایتی ناچ گانے کے بعد اختتام کو پہنچا۔

میں اپنی جانب سے اور راوالپنڈی اسلام آباد میں مقیم تمام یاسین والوں کی جانب سے اس بہترین پروگرام کو پیش کرنے والے انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور امید کرتاہوں کہ یہ پہلا قدم تھا اور ٓائندہ اس سے بہتر پروگرام پیش کیا جائیگا اور اس سفر کو جاری رکھا جائے گا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button