تعلیمکالمز

گلگت بلتستان کے سیپ اساتذہ کا مستقبل

تحریر : ایس ایس ناصری

پاکستان میں یہ ریت جڑ پکڑتی جارہی ہے کہ تعلیم کی فروغ کیلےکی جانے والے کوششوں پرپانی پھیر دیا جائے۔قیام پاکستان سے لیکر ابتک کتنے ہی منصوبہ جات ترتیب دیئے گئے ۔دیانتدار اور اہل افراد کا تقرر ہوا لیکن آخر میں ڈھاک کےبوہی تیں پات، کبھی یہ مصلحتوں کی نذر ہوگئے تو کبھی افسر شاہی نے سرخ فیتہ لگا دیااور کبھی منصوبہ تکمیل کے قریب تھا کہ حکومت تبدیل ہوگئی اور متعلقیں ان کے ثمرات سےمستفید نہ ہو سکے۔تعلیم کیلے ہر دور میں رقم رکھی گئی اور حیرت کی بات یہ ہے کہ مالی سال کے اختتام پر اس مجموعی رقم سے کٹوٹی کر کےبھی کچھ رقم کی بچت کر لی گئی۔

ملک کی تاریخ اٹھاکر دیکھے تو قائد عوام ذولفقار علی بٹھوکے دور میں ایسا تھا کہ تعلیم کیلے موثر اورموزوں اقدامات کیئے۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ جب تک ملک میں تعلیمی ادارے فعال نہیں ہوں گے ملک ترقی نہیں کریگا ۔اور ملک جب تک ترقی نہیں کریگا تمام ادارےکام کے اہل نہیں ہوں گے۔انہوں نے اپنی دور حکومت میں تعلیمی اداروں پر توجہ دینے کے ساتھ تعلیمی نظام کو بھی بہتر کرنے کا بھیڑہ اٹھایا اور ملک کے تعلیمی ادارےفعال اور خوشحال بنانے کیلےکردار اداکیا۔

اسی کڑی کو آگے بڑھاتے ہوئے اور قائد عوام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انکے چہیتی دختر فخر پاکستان پہلی اسلامی خاتوں وزیر اعظم بہت سارے القابات خصوصاًپنکی کے نام سے جانے اور پہچانے جانے والی لیڈرمحترمہ بینظیر بٹھو شھید نے بھی تعلیمی اداروں کوفعال بنانے اور علم کی روشنی گھر گھر پہنچانے میں اہم کردار اداکرتے ہوئے 1993 میں اپنی دور حکومت کے دوران ملک بھرمیں بچوں کو تعلیم تک رسائی دینے کیلے وفاقی حکومت کے زیر اہتمام سوشل ایکشن پروگرام کے تحت متعدد اسکولز کھولے گئے۔

اس پروگرام کو عالمی بنک نے فنڈنگ کی اور ان کے تعاون سے ہی تعلیمی آگاہی کیلے شہر سے لیکر دیہاتوں تک تعلیمی ادارے کھولے گئے اور ہر سکول میں ایک استاد تعینات کی گئی۔ جن میں زیادہ تر خواتین اساتذہ کی تھیں اور ان اساتذہ کو ماہا نہ مبلغ بارہ ہزار روپے تنخواہ مقرر کیاگیا اور ساتھ ہی سکولوں کی نگرانی اور امتحانات وغیرہ کا انعقاد اور اساتذہ کو مشاہیرہ کی ادائیگی کی ذمہ داری متعلقہ علاقوں میں محکمہ تعلیم کو سونپی گئی۔

اس طرح 1993 سے 1998تک یہ سلسلہ چلتا رہااور 1998میں ورلڈ بینک، محکمہ تعلیم اور سکول منیجمنٹ کمیئٹی کے مابین ایک معاہدہ پر دستخط ہوا جسکی رو سے سیپSAPسکولوںک و عرصہ چار سال بعد پروگرام تکمیل ہونے پر محکمہ تعلیم نے اپنے تحویل میں لیا ۔اور چند ماہ تک یہ سلسلہ بھی رہا لیکن چند ماہ بعد متعلقہ اے ڈی آئیز نے سکولوں سے وہ معاہدہ واپس لے لیا جسکا تاحال کچھ پتہ نہیں ۔

2002میں تعلیمی پالیسی تبدیل ہوگئی اور فی طالبعلم ماہانہ ساٹھ روپے سبسڈی دی جانے لگی۔جس کے تحت سکول میں دستیاب وسائل کے مطابق اساتذہ تعینات ہوئی تھی۔اور مدرس کو محکمہ تعلیم کے اے ڈی آئیز کی دستخط سےتقرر کیا جاتا تھا اور اس پالیسی کے مطابق زیادہ انرولمنٹ والے سکولوں کو زیادہ اور کم انرولمنٹ والے سکولوں کو کم رقم ملتی تھی ۔ یوں اساتذہ نے قلیل مشاہرہ میں اپنی قوم کے نونہالوں کے مستقبل سنوارنے اور چمن کے پھولوں کی آب یاری کرنے کو اپنا فرض سمجھتے ہوئے خدمات انجام دیتے رہے۔

2003میں سیپ (SAP) اساتذہ تقرری کے ایک سال بعد ہر حلقے سے ایک ایک سریل کے تحت سوشل ایکشن پروگرام کے سکولوں کے عمارات مکمل ہونے کے بعد ان سب کو محکمہ تعلیم نے ریگولر کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے انہیں این ای ایف (نیشنل ایجوکیشن فاؤنڈیشن) کے حوالہ کیا اور اس طرح کام چلاتے رہے۔

سیپ اساتذہ کے ساتھ کھیلے جانے والی بلی چوہے کا کھیل یہاں ختم نہیں ہوا اور یہ کھیل بڑھتا ہوا2005میں داخل ہوا اور اس کھیل کو دوسرے رخ سے کھیلنا شروع کی اور طریقہ کار ایک بار پھر تبدیل کردیا اور اس نئےکھیل کے مطابق ہر سکول کیلے مبلغ ایک لاکھ روپے ڈائریکٹر ایجوکیشن شمالی علاقہ جات(گلگت بلتستان) ٹی ڈی آر بناکربینک میں جمع کیا گیااور اس سے حاصل ہونے والے منافع سے سکولز چلانے کا فیصلہ کیا جس کے تحت ہر 6ماہ بعد 7200روپے بحساب 1200روپے ماہانہ بذریعہ اےآئی ڈیز سکولوں کو ادا ہوتا رہا ۔

اساتذہ اور سیپ ٹیچرز ایسوسی ایشن کے مطابق اس پالیسی سے سکولوں کے نظام کو سخت دھچکا لگا ۔سکولوں میں موجود اساتذہ ماہانہ دو سو سے چار سو روپے ماہانہ تنخواہ پر کام کرتے رہے۔مگر علم کی شمع روشن کرنے میں حوصلہ نہ ہارا۔اور اس قلیل اجرت پر شمع جلاتے رہے۔

2009 کے اواخر میں سیپ سکولوں کا انتظام وانصرام وفاق کے زیر انتظام ادارہ نیشنل ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے حولہ کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس طرح چودہ پندرہ سالوں سے قوم کے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والے اساتذہ کو ایک بار پھر لالی پاپ دیکر این ای ایف کے اعلیٰ حکام اور اس وقت کے وفاقی وزیر تعلیم میر ہزار خان بجارانی کےدرمیاں باقاعدہ معاہدہ کے نام پر SAPسکولوں کو NEFکے حوالے کر دیا۔ اس دوران رقوم اثاثہ جات اور انتظامیہ امور کی منتقلی میں کئی مہینے لگے ۔ادواروں کے درمیانی کھیل سکولوں کے اساتذہ اکتوبر 2009 تا جنوری 2010 یعنی چار ماہ کے تنخواہ سے محروم رہے۔

فروری 2010 سے سیپ سکول باقاعدہ این ای ایف کی تحویل میں آئے اور ادارہ ہٰذا میں اساتذہ کے سروس اسٹرکچر ذرائع کے مطابق یوں تھا کہ گریجویشن 4500روپے ماہانہ ایف اے 4000اور میٹرک 3000روپے جبکہ سکول کیلے دیگر اخراجات کی مد میں مبلغ ایک ہزار روپے دینے کی پالیسی وضع کی لیکن بعد میں یہ پالیسی بھی سرد خانے کی نذر ہوگئی۔ یہاں تک اس وقت کئی ماہ سے دیگر اخراجات اپنی جگہ اساتذہ کو تنخوائٰیں بھی ادانہیں ہوسکی۔ افسوس کا مقام ہے کہ حکومت نے روزانہ اجرت کی بنیاد پر کام کرنے والے مزدورں کی کم از کم تنخواہ بھی پندرہ ہزار مقرر کی ہے لیکن قوم کی نونہالوں کے تعلیم وتربیت کرنے والے سیپ اساتذہ اس ماڈرن دور میں بھی پانچ سے آٹھ ہزار قلیل تنخواہ پر گزارہ کر رہے ہیں ۔

بیس سالوں سے زائد عرصے سے قوم وملت کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت پر مامور سیپ سکولوں کے سینکڑوں اساتذہ اپنے مسائل کے حل کیلے گلگت بلتستان کے مختلف اداروں اور اعلیٰ شخصیات کے دروازے کھٹکھٹارہے ہیں اور ابھی تک انہیں کہیں سے مسائل حل ہونے کی کوئی آس نظر نہیں آرہی ہے جسکی وجہ سے ماضی میں کئی بار سڑکوں پر بھی نکل آئے۔ یہاں تک سابقہ دور حکومت میں بلتستان کی تاریخ میں پہلی بار 2011میں حمید گڑھ چوک پر خواتیں اساتذہ نے اپنے بچوں کے ہمراہ کئی گھنٹے دھرنا دیا ۔

اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئےمختلف سیاسی پارٹیوں نے اس وقت کی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور الفاظ کے خوب نشتر چلائے۔ یہ روایت رہی ہے جب بر سر اقتدار ہوتے ہے تو اس وقت عوامی مسائل یاد نہیں آتے اور جب اقتدار خواب بن جاتے ہیں تو حکومت کو مورد الزام ٹھراتے ہیں ۔اس وقت یہ خیال نہیں آتاکہ ایک زمانے میں ہم بھی بر سر اقتدار تھے۔ان ساری باتوں کو بھلا کر تندو تیز جملوں سے حکومتی نمائندوں کی توضع کرتےہیں ایسےمیں آخرکار پسنا پھر ان متاثریں کا مقدر بن جاتے ہیں۔

سیپ اساتذہ کے ساتھ بھی یہی سب کچھ ہوا۔ مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں نے اظہار ہمدردی جتائی لیکن صرف ہمدردی کی حد تک رہ گئی۔

سابق دور میں پاکستان پیپلز پارٹی کو اکثریت سے گلگت بلتستان میں حکومت کرنےکا موقع ملا اور تاریخ میں پہلی بار وزیراعلیٰ منتخب ہوئے بہت سارے کام کر سکتے تھے خصوصاً سیپ اساتذہ کے حوالے سے پالیسی مرتب کر سکتے تھے کیونکہ اس کی بیل پی پی پی کی چیرپرسن دختر مشرق بینظیر بٹھو نے ڈالی تھی اور اپنے چیرپرسن کی ڈالی ہوئی بیل کی آبیاری کرنے کا بہتریں موقع ملا تھا مگر بدقسمتی سے وہ حکومت کچھ نہ کر سکی۔ سابق وزیر اعلیٰ نے کئی بار سیپ اساتذہ کو سبز باغ دکھائے لیکن اس باغ میں بہا ر سے قبل خزاں آگئی اور سیپ اساتذہ کے مسائل الجھ کے رہ گیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوگئی اور اس وقت گلگت بلتستان میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت آب وتاب کے ساتھ جاری ہے۔ پی پی پی دور حکومت میں سیپ اساتذہ کے احتجاج اور دھرنوں کے دوران ان سے ہمدردی جتانے اور دھواں دار تقاریر کرنے والے نمائندے اس وقت اسمبلی اور کونسل میں بر سر اقتدار ہیں اور تقریباً دو سال سے زائد کا عرصہ انکے اقتدار کو ہوچکے ہیں۔ سیپ اساتذہ کے وفد نےکئی بار وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن سے ملاقاتیں کی ہیں اور گلگت میں دھرنے بھی دیئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے بھی سیپ اساتذہ کو کئی بار طفل تسلی دی ہے اور وعدہ کئےہیں کہ سیپ اساتذہ کے مسائل حل کریں گے لیکن ابھی تک یہ حکومت بھی سابقہ حکومت کی طرح مسئلہ حل کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی ہے صرف اور صرف جھوٹی تسلیاں دینے کے علاوہ کچھ عملی کام ہوتا ہوا دیکھائی نہیں دیتا ۔ اکثراساتذہ اپنی عمرنوکری کے لیے مقررہ حد سے زیادہ ہوتے ہوئے دیکھ کر پریشانی میں مبتلا ء ہیں کیونکہ عمرکی اس حد میں نئی آسامیوں کیلے بطور امیدوار درخوست دینے کے اہل نہیں ہوںگے۔اگر حکومت سنجیدہ گی سے اس مسئلہ پر غورنہ کریں تو یقینًا 540 سکولوں کے سینکڑوں اساتذہ کا مستقبل تاریک اور درد ناک ہوگا ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button