کالمز

زمینی جنت کتی شواورعزمِ ناشاد

ایس ایس ناصری

یوں تو گلگت بلتستان کو قدرت نے بے تحاشا حسن اور قدرتی نعمت سے مالا مال کیا ہے لیکن اس خطے کے بعض علاقے ایسےہیں جسے دیکھ کر انسان دھنگ رہ جاتے ہیں اور بےاختیار قدرت کےکرشمے کی تعریف کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ان قدرتی نعمت اور قدرتی حسن کے سبب بے اختیار زبان پر قر آن مجید کی سورہ رحمٰن کی آیت کاوردکرنا شروع کردیتا ہے جس کا ترجمہ ہے کہ تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کوجھٹلاؤگے۔

گلگت بلتستان کے بعض علاقے ایسےہی ہیں جہاں بندہ پہنچے تو واپسی کو دل نہیں کرتا، چاہےوہاں زندگی کی سہولیات موجود ہو یا نہ ہو۔ ان علاقوں میں رہنے اور وقت گزارنے کا ایک الگ مزہ ہے۔ دنیا اس وقت ایک گلوبل ولیج بں چکی ہے اور اس گلوبل ولیج میں بسنے والے اتنے مصروف ہوگئےہیں کہ کسی کو کسی کی خبرتک نہیں ہوتی۔ ایسے حال میں قدرتی حسن سے مالا مال علاقے یا خطے میں ہر وقت مصروف رہنے والا شخص پہنچے تو وہ خدا کا شکر ادا کرنے کے ساتھ سکوں کی زندگی گزار لیتے ہیں۔ کیونکہ اسطرح کے جہگوں پر نہ آپکوہمیشہ اپنے ساتھ رہنے والی ڈیوائس یعنی موبائل فون تنگ کریگا اور نہ ہی بےہنگم ٹریفک کے شور بس سکوت طاری آپ کا مقدر بن جاتے ہیں اور آپ اس پر خوش ہوکر بیتے لمحوں کوشاہانہ انداز سے گزار لیتے ہیں۔

گلگت بلتستان کے انہی جہگوں میں سے ایک خوبصورت اور دلفریب علاقہ سکردو شہر سے تقریبًا 50کلومیٹر سے زائدزمینی مسافت پر مہدی آباد جس کا پرانہ نام پرکوتہ ہے۔ شاید آپ صاحباں نے سنا ہوگا انہی مہدی آباد نالہ میں مہدی آباد سے بل کھاتی ہوئی کچی سڑکوں پر سفرکرتے ہوئے بارہ سے تیرہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع خوبصورت علاقہ کتی شو کہا جاتا ہے۔ کتی شو کھرمنگ کی بڑی یونین کونسل ہے۔ اس یونین کی آبادی تقریباً آٹھ ہزار نفوس ہے اور یہ یونین تقریبًا 25کے لگ بھگ چھوٹے بڑے گاؤں اور 5مواضعات پر مشتمل ہیں۔

اس علاقے کی وجہ تسمیہ کے حوالے سے وہاں کے بزرگ اخوند علی سے گفت شنید ہوئی تو انکا کہنا تھا کہ پرانے زمانے میں کھرمنگ کو کرتخشہ کے نام سےلکھا اور پکارا جاتا تھا۔ اسی کے پیش نظر اس علاقے کا نام کتی شو پڑا ہے۔ اس یونین کے آغاز میں جو محلہ یعنی جس سے یہ یونین شروع ہوتاہے کولطروکہا جاتا ہے یونین کتی شو کے دو الگ الگ راستے ہیں ایک راستہ موضع طولتی بروق کی طرف جاتا ہے جبکہ دوسرا راستہ موضع داپاکی طرف جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کتی شو داپا سطح سمندر سے بارہ ہزار فٹ اونچائی پر ہے اور یہ دنیا کی بلند تریں میدان سطح مرتفع دیوسائی کے برابر میں ہے۔ یہاں سے دیوسائی ٹاپبمرفو لہ تک زمینی راستہ ہے۔

گرمیوں میں یہ علاقہ جنت سے کم نہیں اور سردیوں میں یہاں زندگی گزارنابھی کسی مصیبت سے کم نہیں ہے۔ داپا کے اکثر وبیشتر محلوں کے باسی سردیوں کے موسم میں یہاں سے نقل مکانی کرتے ہیں اورزمانہ قدیم میں کتی شو نہ صرف مال مویشیوں کے لحاظ سے امیر تریں علاقہ ہے بلکہ کھیتی باڑی کے حوالے سے بھی اپنی مثال آپ ہے۔ ماضی میں اس جگہ سے پورےکھرمنگ کیلے اجناس اور غلہ سپلائی کرتے تھے _

کتی شو کو یہ بھی اعزاز حاصل ہےکہ 1947-48کی جنگ آزادی گلگت بلتستان کے وقت معرکہ پرکوتہ کے دوران پرکوتہ کے تمام مرد وزن اور اطفال کو اس علاقے کے لوگوں نے پناہ دی۔ معرکہ پرکوتہ تقریبًا چالیس دن تک جاری رہا اس دوراں اس علاقے کے مردوزن نے نہ صرف مہدی آباد (پرانہ نام پرکتہ)کے باسیوں کو خوش آمدید کہا یہاں تک جنگ آزادی کے مجاھدوں کو نان نفقہ بھی انہی علاقے کے لوگوں نے پہنچادیئے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ1840میں مہتا مینگل نے پرکوتہ سے بارہ نمبرداروں کا انتخاب کرکےبارہ موضوعات میں تعینات کیئے ان میں سے پانچ نمبردار کتی شو یونین کلیے منتخب ہوئے جن میں داپا کے نمبردار حاجی محمد چو، کتی شو کے سلطان احمد، چھٹپہ کے وزیر غلام علی، کولطرو کے وزیر محمد علی اور طولتی بروق کے نمبردار وزیر فیروز تھے لیکن بٹھو دور حکومت میں گلگت بلتستان میں ایف سی آر کے خاتمےکےساتھ نمبرداری نظام کا بھی خاتمہ کیا۔


ماضی میں نمبرداروں اور علمائے کرام کی محفلوں میں بیٹھنے اور ان کے زیر اثر رہنے والے کتی شو کے مردوزن مہمان نوازی اور خودداری کے لحاظ سے دوسروں کیلیے قابل تقلید ہے۔ یہاں کے لوگ اپنے علاقے میں آنے والے مقامی وغیر مقامی مہمانوں کو دل کھول کر اپنے علاقے میں اھلاًو سھلاً مرحباً کہتے ہیں۔اور ان کے تواضع میں لگ جاتے ہیں ۔
کتی شو کے ابتدائی محلہ سے متصل چھوٹی سی گاؤں شمائل جن کا اصل اور قدیم نام شمویول ہے جو یہاں مشروم کی کثرت کی وجہ سے ہے یوں تو بلتستان کے اکثر محلوں اور گاؤں کے نام بلتی زبان میں ملے گا۔ اسی طرح اس گاؤں کا نام بھی زمانہ قدیم میں بلتی زبان کے دو ناموں سے ملکر شمو یول یعنی بلتی زباں میں شمو کا مطلب مشروم اور یول کا مطلب گاؤں یا علاقہ کے ہے مگر موجودہ ترقیافتہ دور میں اختصار پر اکتفاء کرتے ہوئے اس گاؤں کا نام شمائل سے پکار نے لگے۔اس گاؤں میں ایک پن بجلی گھر موجود ہے جس سے نہ صرف علاقہ کتی شو کو بجلی فراہم ہوتی ہےبلکہ مہدی آباد اور ملحقہ ایریاز کیلے بھی بجلی ترسیل کی جاتی ہے۔بجلی کے حوالے سے ایک خاص بات کتی شو کی یہ بھی ہےکہ اس علاقے کے اکژ چھوٹے بڑے محلوں میں ایک این جی او کی تعاون سے مائیکرو ھائیڈل پاور کا نظام متعارف کیا گیا ہے جس سے سردیوں میں اس علاقے کے لوگ مستفید ہوتے ہیں۔

کتی شو کےایک موضع طولتی بروق کے دوگاؤں بلتی کھر اور برق کھر کی خوبصرتی اس علاقے کی حسن کو مزید چار چاند لگا دیتے ہیں ویسے تو ان محلوں کے نام سے ایسا لگتا ہے کہ ماضی میں یا موجدہ دور میں یہاں کھر (قلعہ) مجود ہے در اصل ایسی کوئی کہانی نہیں صرف اور صرف اونچائی پر ہونے کی وجہ سے اسکی ہیت قلعہ جیسی ہے اسی لیے بلتی کھر اور بروق کھر سے تشبیہ دیتے ہیں اس موضع کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہاں ایک خوبصورت ٹیلہ موجود ہے جسے مویو ٹوق کہا جاتا ہے اس ٹیلے پر پہنچنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جس نے سوئزر لینڈ دیکھا ہو وہ اس کی خوبصورت کوبھول بیٹھیگا۔

تر قیاتی کاموں کے حوالے سےاگر اس علاقے کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس علاقے کے تمام محلوں تک چاہے وہ چھوٹے ہو یا بڑے لنک روڈ موجود ہیں ۔اس علاقے میں لڑکے اور لڑکیوں کےلیے تعلیمی ادارے موجود ہیں ،صحت کے حوالے سے مراکز قائم ہیں.مسلکی اعتبار سے اگر بلتستان کے دیگر وادیوں سے موازنہ کریں تو یہاں صرف اہل تشیع کے علاوہ اہلسنت ،نوربخشیہ اور دیگر مسلک کے ایک گھرانہ تک نہیں۔ اسی طرح زبان کے اعتبار سے بھی یہاں خالص بلتی بولی جاتی ہے جبکہ سیاسی اعتبار سے یہاں کسی خاص پارٹی کی اکثریت نہیں البتہ یہاں کے لوگ شخصی اعتبار سے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں موجودہ دور میں اس علاقے سے منتخب نمائندہ گلگت بلتستان کے سپیکر حاجی فدا محمد ناشاد ہیں جن کا یہ عزم ہے کہ اس علاقے کی عوام کو ان کے گھر کے دھلیز پر زندگی کی وہ تمام سہولیات بہم پہنچائیں جو ان کا بنیادی حق ہے۔ سال میں کم از کم دو مرتبہ اپنی تمام تر مصروفیات سے وقت نکال کر اس علاقے کےلوگوں کے مسائل جاننے اور ان کے حل کیلے انہی علاقے کے سرکردگاں سے صلاح و مشورہ کرنے کیلے دورہ کرتے ہیں اور مسائل کی حل کیلے جستجو کرتے ہیں ۔

موجودہ گلگت بلتستان کی حکومت نے کھرمنگ کو ضلع کا درجہ دینے کے بعد اب علاقہ کتی شو سکردو حلقہ نمبر تین کا حصہ نہیں رہے گااور یہ حلقہ بندی کے لحاظ سے ضلع کھرمنگ کا حصہ ہوگا۔لیکن حاجی فدا محمد ناشاد اس عزم کا اظہار کر رہے ہیں کہ کتی شو حلقہ نمبر تین کا حصہ رہے یا نہ رہے یہاں کے عوام کا مسائل حل کرنے میں کبھی بھی لیت ولعل سے کام نہیں لیں گے۔اور ان کے مسائل حل کرنے کیلے دن رات کام کرتے رہیں گے۔کتی شو کے قدرتی حسن وجمال قدرتی نعمات اور دیگر وسائل پر سیرو بحث گفتگو کے بعد یہاں کے خوددار لوگوں کو درپیش مسائل کا بھی ذکر ضروری سمجھتا ہوں تاکہ یہاں سے منتخب شدہ نمائندہ کے علاوہ باقی صاحباں اقتدار اس جنت نذیر علاقے کے باسیوں پر ترس کھاتے ہوئے ان کے مسائل کے حل کیلے کوئی اقدامات کرے۔

گرمیوں کے چھے مہینے جس طرح پہلے ذکرکیا یہ علاقہ جنت ہے تو سردیوں کے سیزن اس علاقے کے لوگوں کیلے جہنم سے بھی کم نہیں۔ شدید برف باری کے باعث یہاں کی سڑک بند ہوجاتی ہے لیکن لوگ اپنے لیے اشیاء خوردنوش سڑکیں بند ہونے سے قبل اسٹاک کرلیتے ہیں لیکن بعض اوقات سڑکیں بند ہونے سے نہ صرف کھانے پینے کی اشیاء ناپید ہوجاتے ہیں یہاں تک علاقے میں کوئی بیمار پڑ جائے تو انہیں مہدی آباد یا ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال سکردو لانے تک دم توڑ جاتے ہیں۔ ماضی میں کئی افراد طبی سہولیات نہ ملنے کے باعث زندگی کی بازی ہارچکی ہے۔

اس علاقے کا دوسرا اہم مسئلہ مواصلات کا ہے آج کی اس ترقیافتہ دور میں مواصلات جیسی نعمت اس علاقے کے عوام کیلے خواب بن چکی ہے۔ اس علاقے کے زیادہ تر لوگ بغرض روزگار ملک کے مختلف شہروں میں مقیم ہونے کے ساتھ بیرون ملک میں بھی ایک کثیرتعداد میں ملازمت کر رہے ہیں۔ کئی سالوں سے دیار غیر میں ہونے سے وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنوں سے بات کرے اپنوں کی خیرو عافیت دریافت کرے لیکن علاقے میں ٹیلی مواصلات کی عدم فراہمی سے مایوسی کے سوا انکے حصّے میں کچھ نہیں آتااور وہ اپنوں کی آواز کو ترستے ہوئے وقت گزاردیتے ہیں لیکن عوامی نمائندہ سپیکر جی بی اسمبلی انہیں مایوسی سے نکالنے کیلے بھی برسر پیکار ہیں اور اس علاقے کی عوام کے دیرینہ مسئلہ کو حل کرنے کیلے ایس سی او سے بات کرکے ٹیلی مواصلات کو یقینی بنارہی ہے اور سال 2018اس علاقے کی عوام کیلے نوید ِلیکر آئیگا اور ان کی خوابوں کو تعمیر ملے گا ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button