میمونہ عباس خان
جنسی ہراسانی سے متعلق گذشتہ دنوں ایک نجی ہسپتال میں رونما ہونے والے واقعے نے ملک بھر میں اس تکلیف دہ تجربے سے متعلق سنسنی کی لہر سی دوڑادی۔ جس کے نتیجے میں ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ بشمول روشن خیال، نیم روشن خیال، روایت پسند و مذہب پرست تک نہ صرف ہڑ بڑا اٹھے بلکہ حسبِ توفیق تعریف و تنقید سے لے کر لعنت و ملامت کی حد تک معاملہ لے کر چلے۔ یہ معاملہ جس بھی نہج پر منتج ہوا ہو، اس سے پرے اس بات کا یہاں ذکر کرنا بہت ضروری ہے کہ جنسی ہراسانی دراصل ہے کیا؟ اور ہمارے معاشرے میں اس کی تفہیم کیسے کی جاتی ہے۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیےہمارے مشرقی دانشوروں کے ایک طبقے نے مغربی افکار کو اہم جانا تو کسی اور نے اپنی نئی اختراع ڈھونڈ نکالی۔ اور اس تمام تر مشق کے نتیجے میں ایک چیز بڑی واضح صورت اختیار کر گئی کہ میرے ملک اور اس کے معصوم باسی اب تک اسی پریشانی سے نکلنے کی تگ و دو کررہے ہیں کہ جنسی ہراسانی کا مغربی فلسفہ یہاں لاگو کریں یا اپنا کوئی نیا بیانیہ تشکیل دیں۔ اور یوں ہم اس کی تعریفی معیارات طے کرنے میں ہی الجھ کر اصل مسئلے سے دور ہوگئے۔
بہر حال اس بات سے پرے مجھے کسی مغربی فلسفہء فکر سے کوئی جملہ اٹھانے کی اس لیے حاجت نہیں کہ ہمارے معاشرے میں عورت کو اپنے ہونٹ سی کر گھر کے اندر سے لے کر باہر تک ہر قسم کی ذیادتی سہنے پر شاباشی ملتی ہے۔ چاہے وہ کسی اپنے کے ہاتھوں ہراسانی کا شکار ہو یا غیر کے مگر ہونٹ کھولنے کی صورت میں عورت کی اپنی عزت خطرے میں پڑ جاتی ہے جبکہ گنہگار نہ صرف پردے میں رہتا ہے بلکہ شہ بھی پاتا ہے کہ وہ اپنی غلیظ حرکتیں جاری رکھے۔ اور اگر عورت کبھی اپنی تذلیل پر کسی بھی طرح کے ردعمل کا اظہار کرے تو سزا کی حقدار بھی وہی ٹھہرائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گلی محلے کے نکڑ سے لے کر کام کرنے کی جگہ تک، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے دروازوں سے لے کر بازاروں اور گلیوں تک عورت ہر قسم کی جنسی ہراسانی کا شکار ہے۔ اور اس سب کے ذمہ دار صرف سڑکوں پر بھٹکتے اوباش لڑکے ہی نہیں بلکہ دفتروں کی چمکدار میزوں کے پیچھے چھپے بظاہر مہذب مگر میلی نگاہوں والے حضرات بھی شامل ہیں جن کی ہوس بھری نگاہوں اور ذومعنی جملوں میں چھپی غلاظت بھری سوچ کے ہاتھوں کوئی عورت محفوظ نہیں۔
یہاں اگر جنسی ہراسانی سے متعلق ملکی قوانین کی بات کریں تو خواتین کی ایک کثیر تعداد اس بارے میں سرے سے ہی لاعلم ہے جبکہ جنہیں معلوم ہے وہ بھی قانون سے رجوع کرنے سے گھبراتی ہیں کہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے اس کی اپنی عزت نیلام کر دی جائے گی۔ اور ان کا یہ خوف بے جا بھی نہیں کہ ہمارے معاشرے کی اکثریت خود ہی عدالت یے اور خود ہی منصف اور عورت ہمیشہ سے ان کی نظر میں گنہگار ٹھہرائی گئی ہستی رہی ہے۔اسی گدلی سوچ کا کا نتیجہ ہے کہ ہراسانی کا شکار کرنے والے مردوں کو تو کھلی چھٹی ہے کہ وہ چاہے تو راہ چلتی عورت کو دیکھ کر سیٹیاں بجائیں یا فحش جملے کسیں، چاہے تو یہ ارادتاً عورت کا جسم چھو کر گذر جائیں اور دانستہ ایسے جملے کسیں جو عورت کو ذہنی آذار اور اذیت سے گذرنے پر مجبور کریں۔ یہ اور اس طرح کی کئی حرکتیں ہیں جو قابلِ گرفت اور قابلِ سزا ہیں مگر چونکہ ان معاملات میں ثبوت پیش کرنا عورت کے لیےممکن نہیں رہتا اس لیے وہ چپ چاپ یہ ظلم سہتی رہتی ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر خود پر لگنے والے الزامات سے ڈر کر خاموشی ہی کو عافیت جانتی ہے جس کے سبب ہوس کو پنپنے کا موقع مل جاتا ہے۔
بہرحال جنسی ہراسانی کی تعریف کوئی بھی ہو اہم بات یہ ہے کہ کسی اور کے نامناسب طرز عمل سے آپ کو بحیثیت مرد یا عورت کسی بھی طرح کی ذہنی، جذباتی، نفسیاتی یا جسمانی اذیت سے گزرنا پڑے تو یہ ہراسانی ہے۔ گذشتہ دنوں ہر طرف سنائی دینے والی جنسی ہراسانی کی بازگشت کے نتیجے میں غلط اور صحیح سے پرے ہوکر جو اہم پیشرفت دیکھنے کو ملی وہ قابلِ ذکر ہے۔ ایک وقت وہ تھا جب جنسی ہراسانی کا لفظ سنتے ہی ہر خاص و عام پاکستانی خود ہراسانی کا شکار ہوا کرتا تھا کیونکہ ایسے موضوعات پر کھلے عام بات کرنا نہ صرف ممنوع گردانا جاتا بلکہ قابلِ شرم ومذمت بھی۔ اور آج سے لگ بھگ کوئی تین عشرہ قبل تک اس لفظ کا استعمال تک گویا شجر ممنوعہ بنا ہوا تھا۔ آج اگر ہم اس حیثیت میں ہیں کہ ایسے معاملات پر کھل کر بات کر سکتے ہیں توہمیں ڈاکٹر فوزیہ سعید اور ان جیسی کئی باہمت خواتین کا شکر گذار ہونا چاہیے جنہوں نے نہ صرف جنسی ہراسانی کے مرتکب مجرموں کی نشاندہی کر کے انہیں کٹہرے میں لا کھڑا کیا بلکہ ایک نئی روایت کی بنیاد بھی ڈالی جس کی وجہ سے آج کم از کم ہم کھل کر اس مسئلے پر بات کرسکتے ہیں۔
آج عورت کو کسی حد تک اپنے حق میں آواز بلند کرنے کا حوصلہ بھی ملا ہے اور ایسے پلیٹ فارم بھی میسر ہیں جو وہ چاہے تو ان کی مدد سے اپنے گنہگاروں کو سزا دلا سکتی ہے۔ مگر مسئلہ اس اجتماعی و معاشرتی سوچ کا ہے جس کی رو سے عورت انسان نہیں بلکہ عزت و غیرت سے جڑی ایک شے ہے جس کی صرف ڈوریاں ہلائی جاسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عورت اپنے حق میں کھڑی ہونے سے پہلے اپنے پیاروں سے چھوٹ جاتی ہے۔ کیونکہ جنہیں اس کا ساتھ دینا چاہیے انہی کو ہی عورت کے لب ہلانے ہر شرمندگی سب سے زیادہ محسوس ہوتی ہے۔اب مسئلے کی سنگینی اگر صرف بات کرنے پر ہی اجاگر ہوسکتی تو کیا ہی بات تھی۔ مگر ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اس عفریت کی جڑیں کہاں اور کس حد تک ہمارے معاشرے کی جڑوں میں سرایت کر چکی ہیں۔ ایک عام اندازے کے مطابق خواتین کو مردوں کی نسبت جنسی ہراسانی کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے چاہے وہ کوئی بھی جگہ ہو جہاں مردوں اور عورتوں کا اکٹھا ہونا ناگزیر ہے۔
بہت سی خواتین اس ڈر اور خوف سے جنسی ہراسانی کے خلاف آواز بلند نہیں کر سکتی ہیں اور چپ چاپ اس ظلم کو سہنے پر مجبور ہیں کیونکہ اگر وہ اپنے لیے کھڑی ہوئیں تو خاندان کی غیرت کا سوال اٹھے گا جس کے نتیجے میں اسے تعلیم یا کام چھوڑ کر گھر کی چاردیواری تک محدود ہونا پڑے گا۔ اور اگر کسی خاتوں نے یہ جرت کی کہ ہراساں کرنے والے کو سبق سکھائے تو بدلے میں کسی انجان موڑ پر سنساتی کوئی گولی یا چہرے پر تیزاب کے نقش و نگار بنیں گے۔ یہ وہ چند بھیانک نتائج ہیں جو عام عورت کو جنسی ہراسانی کے خلاف جانے سے روک لیتی ہے۔
سوشل میڈیا آج کل ہر ایک کی ضرورت بنا ہوا ہے جہاں اس کے بے شمار فوائد ہیں وہیں اس بات کا ذکر کرنا بھی اہم ہے کہ اب ہماری زندگیاں دوسروں سے اس قدر منسلک ہوچکی ہیں کہ ہماری زندگی کا ہر گوشہ عام ہوچکا ہے۔ ایسے میں یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ جنسی ہراسانی کی جو تصویر اصل زندگی میں دیکھنے کو ملتی ہے کم و بیش وہی صورت حال سوشل میڈیا پر بھی ہے۔ بلکہ سوشل میڈیا پر یہ آذادی شدت ہی اختیار کر جاتی ہے جب کوئی بغیر سوچے سمجھے اپنےدل کی بھڑاس نکالنے لگے۔ بعض اوقات احباب تصاویر یا ذاتی معلومات پر نامناسب تجزیے کرکے گذر جاتے ہیں۔ اب ضرورت اس چھوٹے سے کلیے کو سمجھنے کی ہے کہ بطور مرد یا عورت نہیں بلکہ بطور ایک آزاد انسان ہم اخلاقیات کے جو پیمانے اپنے لیے مقدم جانتے ہیں اگر وہی پیمانے دوسروں کے لیے بھی قابلِ عمل جانیں تو بہت ممکن ہے کہ ہمارے نامناسب طرزِ عمل کا لوگوں کی زندگیوں پر کم سے کم منفی اثرات مرتب ہوں۔
اس کا سدباب یوں بھی کیا جاسکتا ہے کہ عورتوں اور مردوں کو بیک وقت جنسی ہراسانی کے بارے میں آگاہ کر دیا جائے۔ عورتیں اس کا ذیادہ شکار ہیں مگر مرد اس کے ذمے دار ہیں تو ان کے لیے اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں کہ انہیں اس معاملے کی نہ صرف سنگینی کا احساس ہو بلکہ انہیں اس بات سے بھی آگاہ کیا جائے کہ کس آسانی سے وہ اس جرم کے مرتکب ہورہے ہیں۔ دوسری طرف خواتین کو خصوصاً یہ سمجھانے اور اعتماد دینے کی ضرورت ہے کہ جنسی طور پر ہراساں کرنا جرم ہے اور اگر وہ ایسی کسی بھی صورتحال کا شکار ہیں تو انہیں اس کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے۔ کیونکہ آپ کی خاموشی ہی اس جرم کو بڑھاوا دیتی ہے اور مجرم کو کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیتی کہ وہ غلطی پر ہے۔
اس کے علاوہ ہمارے تعلیمی اداروں کو بھی اس بات کو اپنی تربیتی اصولوں میں خصوصی طور پر شامل کرنا چاہیے کہ بطور فعال ارکانِ معاشرہ وہ اپنے طلبا و طالبات کو کن روایات اور اخلاقی اقدار سے مانوس کرنا چاہتے ہیں۔ ماضی میں جو ہوتا رہا ہے، ان تجربات سے سبق لے کر حال کو ایک بہتر مسقبل کی تیاری کے لیے وقف کیا جائے تو یہی بچے معاشرے کا بگڑا توازن درست کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
اس کے علاوہ بطور والدین ہمیں اپنے بچوں، بیٹیوں اور بیٹوں دونوں کی تربیت میں ایک اہم پہلو یہ بھی شامل رکھنا چاہیے کہ انہیں مانوس اور نامانوس لمس کا فرق سکھایا جائے۔ بچوں کو یہ بتانا ازحد ضروری ہے کہ ماں، باپ یا بہن بھائی کی محبت کا شفقت بھرا انداز کسی اجنبی کے، یا کسی ہوس ذدہ رشتہ دار کے غلاظت بھرے لمس سے کیسے مختلف ہے۔ اور اگر بچہ ایسی کسی کیفیت سے گزرنے کا معمولی سا بھی اشارہ دے تو اسے بھر پور توجہ کے ساتھ سنیں۔ اس کی غیر معمولی حوصلہ افزائی کریں تاکہ آئندہ بھی وہ اپنے ساتھ ہونے والے کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع آپ کو اس یقین کے ساتھ دے کہ بطور والدین آپ اس کے محافظ ہیں۔
جنسی ہراسانی کوئی ایسی شے نہیں جس کا سد باب ممکن ہی نہ ہو مگر ہمارے غیر سنجیدہ رویوں کی بدولت مردوں کی کثیر تعداد اسے جرم سمجھنے کی بجائے اپنا حق سمجھ بیٹھی ہے جبکہ عورت اس ظلم کے خلاف کھڑی ہونے کی بجائے ڈر اور خوف کے پردوں میں جا چھپی ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے کا یہ ناسور اپنی تمام تر سنگینی کے باوجود غیر اہم گردانا جارہا ہے۔ چنانچہ ہمیں ایک ایسے معاشرے کی تشکیل میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے جو عورت اور مرد دونوں کے لیے یکساں محفوظ ہو۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button