ملک میں عجیب تماشا لگا ہوا ہے۔ سابق نااہل وزیراعظم میگا کرپشن کے کیس میں نااہل ہونے کے بعد معصومیت کی تمام حدیں پار کرکے پوچھتے پھر رہے ہیں کہ مُجھے کیوں نکالا؟۔ وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار صاحب کرپشن کی سہولت کاری اور کرپشن گردی کے بعد ملکی معشیت کو IMF کے آئی ۔سی۔یو میں پہنچا کرخو بھی لندن میں ایک ہسپتال کی بیڈ پر لیٹے ہوئے ہیں۔ نواز شریف صاحب پہلے ہی لندن کے ایک ہسپتال سے دل کا آپریشن کروا کر آچکے ہیں۔ میڈیکل سائنس کی تاریخ میں یہ انوکھی دریافت دیکھنے کو ملی کہ اگر کسی بھی پاکستانی سیاست دان پر کرپشن کا الزام لگے تو اُس کا دل کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور مجبوراََ اُسے علاج معالجے کے لئے لندن یاترا پر جانا پڑتا ہے۔
یہ سارا سلسلہ ایک عرصے سے چل رہا ہے۔ زرداری صاحب پہلے ہی دو سال باہر علاج معالجہ کروا کر آچکے ہیں۔ شرجیل میمن پر بھی کرپشن کا مقدمہ چلاتو دو سال تک کمر کی شدیت تکلیف میں مبتلا ہوئے ، اب ماشاء اللہ رو بہ صحت ہیں اور پاکستان وزٹ پر آچکے ہیں جن کا استقبال عوام نے سونے کا ہار پہنا کر کیا ہے ، شاید موصوف کے بچنے کی اُمید کم تھی اور ملک ایک اعلی صفت سیاست دان سے محروم بھی ہو سکتا تھا۔ ڈاکٹر عاصم صاحب پر اوگرا کیس میں 450 ارب روپے کرپشن کا الزام عائد ہوا اور جیل جانا پڑا تو اُن کی صحت بھی جواب دے گئی تھی، پر اب جیل سے چھُوٹنے کے بعد سارے سکرُو اپنی جگہ پرہیں اور پھر سے سیاست گردی کی آسمان پر اُڑنے لگے ہیں ۔
یہ سارا سلسلہ پاکستان بننے کے بعد سے چلتا آرہا ہے ٹاک شوز میں بیٹھے تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے یا سیاسی جلسوں میں عوام سے مخاطب سیاسی قیادت ایک ہی نکتے کے گرد گھومتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جی ! ہم سے زیادہ کرپشن فلان پارٹی نے کی، ہم سے زیادہ معشیت کا نقصان فلان دورِ حکومت میں کیا گیا، ہمارے دور میں انڈسٹریل سیکٹر کم تباہ ہوا، ہم سے زیادہ کرپٹ اُس پارٹی میں بیٹھے ہیں، ہم سے زیادجرائم پیشہ افراد کا تعلق اُس سیاسی پارٹی سے ہے۔ گویا معشیت کا نقصان سب نے کیا ہے، جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی سب کرتے ہیں، کرپشن اور ٹیکس چوری سب کا وطیرہ ہے، کرپشن کرنے والا غلط نہیں بلکہ اُن سے زیادہ کرپشن کرنے والا غلط ہے، یہ سب کس آسانی سے 22 کروڑ عوام کی کھلی آنکھوں کو ایک ماہر جادو گر کی طرح دھوکہ دے جاتے ہیں۔
ذرا ٹھندے دماغ سے سوچا جائے کہ کیا یہ سارے لوگ اس ملک کی قیادت کے اہل ہیں ؟ کیا یہ سب قومی سیاسی اور قانونی کا فیصلہ کرنے کے اہل ہیں ؟ کب تک بیوروکریسی کے کندھوں پر بیٹھ کر ایسے ہی سیاسی ٹھگ حکمرانی کے تخت پر براجمان ہوتے رہیں گے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ملک میں میرٹ کا نطام ہوتا تو کبھی بھی یہ کرپٹ ٹولا اس ملک کی اسمبلی میں نہیں بیٹھی ہوتی، آپ موجودہ حکمران جماعت میں ہی دیکھ لیں، شاید ہی آپ کو معقول منسٹر نظر آئے، عا بد شیر علی صاحب پنجاب کے ایجوکیشن منسٹر رہ چکے ہیں اور اب پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر ہیں، وزیرِ ریلوے وہ شخص ہیں جس نے یا اُس کی خانداں کے کسی فرد نے کبھی غلطی سے ریلوے کا سفر نہیں کیا ہے ، اسٹیل میل پچھلی دہائی سے خسارے میں ہے اور ملازمین کو چھ ماہ میں اگر دو مہینے کی تنخواہ ملے تو خوشخبری بن کر بریکنگ نیوز میں آجاتا ہے۔ پی۔آئی ۔ اے کا ماہانہ خسارہ اربوں میں ہے جبکہ وزیر اعظم جناب خاقان عباسی کی اپنی نجی ائیر لائن کے چھ جہازاربوں کا منافعہ دے رہے ہیں۔
United Nation کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ہمارا تعلیمی نظام آج کی دُنیا کے اوسط درجے کے تعلیمی نظام سے 60 سال پیچھے ہے۔ IMF کی لسٹ میں معاشی لحاظ سے پاکستان 144 نمبر کا ملک ہے جبکہ بنگلہ دیش اور انڈیا ہم اسے نتہائی بہتر پوزیشن میں ہیں۔ WHO کے مطابق پاکستان کے صحت کے نظام کا بھی کچھ یہی احوال ہے اور پاکستان 190 ملکوں میں 122 ویں نمبر پر ہے ، جبکہ بنگلہ دیش بھی اس لسٹ میں 88 نمبر پر ہے۔ العرض GDP,کے حوالے سے، انسانی حقوق کے حوالے سے، عدالتی انصاف کے نطام کے حوالے سے، زرعی نظام کی ترقی کے حوالے سے، صحت وافزائش کی نظام کے حوالے سے یا کوئی سا بھی نیشنل انڈیکٹر اُٹھا کر دیکھ لیں، پاکستان اسی بدحالی کا شکار نظر آرہا ہے۔ مجموعی قومی لحاظ سے سن2017 ء میں بھی ہم Physiological Needs سے متعلقہ مسائل میں گھرے ہوئے ہیں جو کہ Maslow’s Hierachy of Needs کے مطابق جانوروں اور انسانوں کے سب سے اولین ضروریات ہیں، گویا قدرت نے ہمیں جو پوشیدہ انسانی صلاحتیں عطا کی ہونگی اُن کے بارے میں سوچنے اور اُن کا کھوج لگانے کی فرصت بھی ملے بغیر ہم سب روٹی، کپڑا مکان کے چکر میں اس دُنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی، سارے حقائق جان کر بھی کس آسانی سے ہم پھر سے انہی بنارسی ٹھگوں کو اسمبلی میں پہنچاتے ہیں ۔ کیوں ایک عام آدمی کا بچہ سب کچھ بن سکتا ہے لیکن اس ملک کی سیاست قیادت کا حق نہیں رکھتا، کیوں حبہ رحمانی اور سید مبشر جیسے لوگ مغرب جا کر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے پر مجبور ہیں۔ مسلہ سارا یہ ہے کہ ان سیاسی چال بازوں نے ہماری اصل توجہ Genuineمسائل سے ہٹا کر چھوٹی موٹی سڑکوں، پگڈنڈیوں، نہروں، پُلوں کے مسائل کو اس ملک کے اصل معاشرتی مسائل کے طور پر ہمیں پیش کیا ہے اور ان سیاسی حربوں سے ہم سب کی سوچ کو صوبوں، ضلعوں ، تحصیلوں اور گاؤں کی سطح تک تقسیم کرکے ہمیں لاکھوں حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔اور پھر ہماری اسی سوچ کی منڈی میں اپنے اپنے بیوپاری بیٹھا رکھے ہیں جو ہمار ے ضمیر کا بھاؤ اور ہمارےووٹ کی قیمت جانتے ہیں۔
علاقائی مسائل کی اہمیت اپنی جگہ لیکن جب تک اس ملک میں قومی تعلیمی نظام ٹھیک نہیں ہوگا، جب تک ملک میں پیداواری صلاحیتیں پیدا نہیں کی جائیں گی ،جب تک صحت کے مسائل کے حل کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات نہیں اُٹھائے جائیں گے،اور جب تک عوام کومفت عدل و انصاف میسر نہیں ہو گی ہم اسی سیاسی ، معاشی اور معاشرتی بدحالی کا شکار رہیں گےِ ہمارے نوجوان بیس بیس سال تعلیمی اداروں میں برباد کرنے کے بعد یونہی بے روزگاری کی چکی میں پَستے رہیں گے، یا ماں باپ کی ساری کمائی کے ساتھ آبائی زمین اور جائیداد وغیرہ بھی بیج کر انگلینڈ یا آسٹریلیا بھاگنے میں لگے ہوں گے۔ اور وہاں جا کر دس دس سال کسی کچن میں ، پٹرول پمپ میں یا ٹیکسی چلانے میں اس اُمید پر گزار دیں گے کہ شاید یہاں کی شہریت مل سکے۔ جو یہ استطاعت بھی نہیں رکھتے وہ اسی ملک میں ایک تندُور پر کام کرنے والے یا ایک ٹیکسی ڈرائیور سے بھی معاشی طور پر بد حال زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے رہیں گے۔ تنگدستی سے تنگ آکر خودکُشی کرنے والوں کی کہانی یونہی بریکنگ نیوز کے طورپر دیکھنے کا سلسلہ چلتا رہے گا۔
پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔