سیاستکالمز

’’ کہیں فاصلے نے بڑھیں فیصلوں کے بعد ‘‘

تحریر:- فیض اللہ فراق

کہتے ہیں کہ فاصلوں سے فیصلے اچھے ہوتے ہیں،انسانی خمیر بے پناہ توقعات کا ڈھیر ہے یہ سماج کی مجبوری ہے کہ انسان دوسرے انسان سے وابستہ ہوہے او ریہی سے امید نام کی ایک طاقت جنم لیتی ہے امیدوں پر زندگی کی لو روشن ہوتی ہے سیاست کے سینے میں دل کہاں ہوتا ہے یہ تو بے رحم کھیل کانام ہے جہاں انسان توقعات اورامیدوں کے نام پر زندگی کی بازی ہار جاتا ہے مگر اصولوں پرمبنی احساس سے سرشار سیاسی عمل بعض مرتبہ دوسروں کیلئے مشعل راہ بن جاتا ہے۔

سیاسی عمل میں سیاسی کارکن گاڑی میں فیول کا کردار ادا کرتے ہیں،سیاست کی گاڑی اپنی برق رفتاری سے گزر جاتی ہے کارکن فیول کی صورت دھواں بن کر فضا میں اڑجاتا ہے یہی کارکن ہی ہوتے ہیں جو برے وقتوں میں جماعتوں کی بقاء کیلئے اپنے خون سے سرفروشی کی داستان رقم کرتے ہیں، یہی کارکن تو ہوتے ہیں جو انسانوں کے ہجوم میں نعرے لگاتے ہیں ،جھنڈے سجاتے ہیں اورجلسہ گاہوں کی رونق بنتے ہیں ان کی دم قدم سے سیاست میں جان، جماعتوں میں نئی روح اور جمہوری عمل میں پختگی آجاتی ہے یہ کارکن کبھی سلاختوں کی پیچھے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہوتے ہیں تو کبھی اپنی زندگی کی گوشوارے میں بڑھتی اور ضائع ہوتی عمروں کے ساتھ کسی سرکاری محکمے میں نو کری کرنے کے بھی اہل نہیں رہتے بلکہ زندگی بھر دھتکارے جاتے ہیں۔

زندگی میں کئی موڑ ایسے بھی آجاتے ہیں کہ بہت سارے سیاسی کارکنوں کے گھروالے بھی ان سے اپنا ہاتھ کھینچ لیتے ہیں تب یہ لوگ سایہ سے محروم ذہنی مریض بن جاتے ہیں مگر ان کا کوئی پرسان حال نہیں رہتا،ستم ظریفی یہ کہ جمہوری عمل کی اینٹیں یعنی سیاسی کارکن جمہوریت اورسیاست کی بے رحم موجوں کی نذر اپنی شناخت بھی کھو بیٹھتے ہیں اور طعنیں ان کی مقدر بن جاتی ہیں ۔انہی سیاسی کارکنوں کے خون پسینے سے بننے والی حکومتوں کی بیورو کریسی انہیں اپنا دشمن سمجھتی ہے اور حکومت کے دروازے ان پر بند کردیے جاتے ہیں اقتدار کی چھتری تلے چند امراء، وزراء اور بیورو کریٹ حاکم وقت کا کاندھا اپنے مفادات کے حصول کیلئے تو استعمال کرتے ہیں لیکن نعرہ اورجھنڈا لگانے والا کارکن اپنی بے بسی کا رونا روتا ہے یہ بیورو کریٹ چاہتے ہیں کہ حاکم وقت اور عوام کے مابین فاصلے ہو،دوریاں ہوں اورنامانوس رویے کا چلن ہواسلئے اقتدار کا مرحلہ حکمراں جماعت کیلئے اپوزیشن دورے سے زیادہ کٹھن اورآزمائشی ہوتا ہے کیونکہ اقتدار میں بیٹھے سیاسی کارکن کے سامنے بہت ساری چیلنجز در کھولے انتظار میں ہوتیں ہیں اچھا لیڈر وہ کہلایا جاتا ہے جو اقتدارمیں آکر بھی ایسی حکمت عملی اپنائیں جس میں حکومتی معاملات و تعمیر ترقی کے سفر کو متاثر کئے بغیر کارکنوں کو مطمئن رکھئے ان کی عزت کریں انہیں اپنے سینے سے لگائیں اور ان کے درمیان جا کربیٹھیں یا انہیں اپنے پاس بلاکربٹھائیں اور سب سے بڑی بات یہ ہوگی کہ چیف ایگزیکٹو خود اپنے کارکنوں کے ساتھ رابطے میں رہیں رابطوں کا بڑا فائدہ ہے کہ درمیان میں پیدا ہونے والی غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی۔

موجودہ وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کا رویہ کارکنوں کو عزت اور عہدے دینے کے حوالے سے کافی اچھا اور حاتم طائی رہاہے لیکن کارکنوں سے رابطوں اورمشاورت کے حوالے سے متاثر کن نہیں رہا ہے کارکن ہوتے کتنے ہیں چند افراد تو ہوتے ہیں ان سے رابطہ ،مشاورت اورانہیں اعتماد میں لینا کوئی مشکل کام نہیں ہے ،وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کی اپنے کارکنوں کو عہدے دے کر بہترمقام دینے کے حوالے سے کردار بہت بہتر ہے لیکن سابقہ عہدیداروں کی کارکردگی اورڈیلیوری کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے اگر مجھ سمیت بہت سارے اور عہدیدار جو صرف قومی خزانے پر بوجھ ہیں انہیں سب کو فارغ کر کے نئے اور توانا ڈیلیور کرنے والے افراد کو مقام دیا جائے اور جو نئے کارکنوں کو عہدے دئیے گئے ہیں ان کے مراعات کے ساتھ ڈیلیوری و کارکردگی کو مشروط رکھا جائے تاکہ یہ تمام افراد چیف ایگزیکٹو سمیت قوم کی اعتماد پر پورا اتر سکے اس کے علاوہ صوبہ بھر کے تمام سینئر کارکنوں کو وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے دروازے کھول دئیے جائیں یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر کارکن کو عہدہ تو نہیں دیا جاسکتا لیکن ان کو عزت تو دی جاسکتی ہے اورمیرے خیال میں سیاسی کارکن مفادات کی بجائے عزت کے بھوکے ہوتے ہیں۔

اس بات کا برملا اظہار خود وزیراعلیٰ کر چکے ہیں کہ ڈھائی سال کا عرصہ کارکنوں کو وقت دینے کی بجائے خطے کی تعمیر وترقی پر خرچ کیا ہے اور ٹوٹے بکھرے گلگت بلتستان کو جوڑنے سمیٹنے میں یہ وقت صرف ہوا ہے لیکن اب ضرورت اس امر کی ہے کہ آنے والے ڈھائی سال کیلئے وزیراعلیٰ ہاؤس کی بجائے سیکرٹریٹ کو فعال بنا کر کارکنوں اور غریب عوام کو وقت دیا جائے تاکہ عوام اور حکمرانوں کے مابین فاصلے کم ہوں ایسا نہ ہو کہ یہ فاصلے کارکنوں کو فیصلوں پر مجبور نہ کردیں۔موجودہ حکومت میں عہدوں کی تقسیم کے عمل میں ایک بات انتہائی حوصلہ افزا اورقابل تقلید رہی کہ استور کے رکن اسمبلی برکت جمیل نے اپنی وزارت قربان کر کے ضلع استور کے انتہائی متحرک اور دانشور لیگی رہنما محمد سلیم کو ایڈجسٹ کرنے میں جو مخلصانہ کوششیں کی وہ سیاسی تاریخ میں اچھے حروف میں لکھے جائیں گے کیونکہ عموماً سیاست بے رحمی کا شکاررہتی ہے اورسیاسی میدان میں کاندھا دینے والوں کو گڑھ کھودا جاتا ہے اوپر پہنچ کر نیچے والوں کو کچل دیا جاتا ہے میں اس بات کا گواہ ہوں کہ برکت جمیل نے الیکشن میں کاندھا دینے والے محمد سلیم خان کو ایڈجسٹ کرانے میں اپنی بساط سے بڑھ کر جدوجہد کی اور یہ مخلصانہ سیاست کی روشن مثال ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button