9 دسمبر 2017 کو اسماعیلی برادری کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغا خان خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کا دورہ کر رہے ہیں۔ اس دورے میں بونی اور گرم چشمہ کے مقامات پر اپنے مریدوں سے ملاقات کرینگے۔ اس ملاقات ،کو ’’دیدار‘‘اور مو قع پر کئے گئے وعظ کو ’’فرمان ‘‘کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں اصطلاحات صدیوں سے رائج ہیں۔
پرنس کریم آغاخان 6 مارچ 1975 ء کو پہلی بار سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کی دعوت پر چترال تشریف لائے۔ وزیر اعظم خود بھی اس دورے میں ان کے ہم رکاب تھے۔ اس کے بعد کئی بار ان کی تشریف آوری ہوئی۔ 1984 ء میں چترال میں آغاخان رورل سپورٹ پروگرم کے نام سے دیہی ترقی کا شر اکتی پروگرام شروع کیا گیا۔ آغاخان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کے تحت زچہ بچہ کے مراکز 1964 ء سے قائم تھے ان کو ترقی دیدی گئی۔ آغاخان ایجوکیشن سروس ،آغان خان سوشل ویلفیر بورڈ ،آغاخان ٹرسٹ فار کلچر کے ادارے قائم ہوئے ،فوکس ہیومینیٹرین ،واسپ اور باسیپ کے ادارے آئے۔ آغاخان پلاننگ بورڈ کے نام سے ادارہ آیا۔ چترال میں پن بجلی کے چھوٹے منصوبوں کی کامیابی کیلئے آغاخان رورل سپورٹ پروگرام کو انگلینڈ کا سب سے بڑا انعام ایشڈن ایوارڈ ملا۔ آغا خان ایجوکیشن سروس نے چترال میں طالبات کیلئے سکولوں کے قیام کی مہم چلا کر دور دراز دیہات میں بچیوں کیلئے سکول قائم کئے۔ اس طرح معیاری تعلیم کیلئے آغا خان ہایئر سکینڈری سکول اور آغاخان یونیورسٹی ایجوکیشن بورڈ قائم کیا۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے وظائف جاری کئے۔ ان وظائف سے استفادہ کرنے والے طلبہ آج بھی یورپ ،امریکہ، کنیڈا ،افریقی ممالک اور اقوام متحدہ میں اعلیٰ عہدوں پر فائزہیں۔
دنیا میں پرنس کریم آغا خان کو کئی حوالوں سے شہرت اور عزت حاصل ہے۔ ان کے دادا سرسلطان محمد شاہ آغاخان سوم نے پہلی جنگ عظیم کے بعد بننے والی تنظیم لیگ آف نیشنر کے صدر کی حیثیت سے عالمی شہریت پائی۔ ان کو سرکا خطاب ملا،ہزہائی نس کا موروثی ٹائٹل دیا گیا۔ زرو جواہر کی تجارت کے حوالے سے آغاخان فیملی کا پوری دنیا میں کاروباری نام تھا اس کاروبار کو فروغ دیکر ٹورزم انڈسٹری ،رئیل اسٹیٹ اور اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کی تجارت تک وسیع کر دیا گیا۔ آج دنیا کے بڑے بڑے ہوٹل ،بڑی بڑی جائیدادیں ،ریس کے گھوڑوں کے بڑے فارم اس خاندان کی ملکیت ہیں۔ اس دولت کی زکوۃ کو انہوں نے فلاح انسانیت کے لئے خرچ کرنے کیلئے آغاخان فاونڈیشن قائم کیا ہے۔ ان کا دوسرا ادارہ امامت فنڈ ہے جس میں مریدوں کی طرف سے ملنے والے مال نذارت ،تحائف اور مہمانی وغیرہ جمع ہوتے ہیں۔ اس فنڈ کا الگ انتظام ہے۔ یہ فنڈ صر ف مریدوں کی فلاح و بہبود کیلئے خرچ ہوتا ہے۔ مریدوں میں سے مستحق مریضوں کا مفت علاج ،قابل طلبہ کی مفت تعلیم کیلئے وظائف وغیرہ اس فنڈ سے ادا کئے جاتے ہیں نیز عبادت گاہوں کا انتظام و انصرام ،مذہبی تعلیم اور کمیونیٹی کے اندر تنازعات کے حل کیلئے ثالثی کے ادارے اس فنڈ سے چلتے ہیں۔ یہ بھی ایک بڑا فنڈ ہے جو مریدوں کی طرف سے ملنے والے تحائف و نذرات کے بہترین استعمال کی ایک زندہ مثال ہے۔ اگر دوسرے پیر اور مشائخ بھی اس طرح کے ادارے قائم کرتے تو مریدوں کا کتنا بھلا ہوتا !
چترال میں اسماعیلی رضاکاروں نے دیدار گاہوں کو جانے والوں کےساتھ ساتھ دوسرے لوگوں کی سہولت کیلئے 380 کلومیٹر عام شاہراہوں کے ساتھ 600 کلومیٹر رابطے کی دیہی سڑکوں کی مرمت کا کام 6 ہفتوں میں مکمل کیا ہے یہ سڑکین اب موٹر وے کامنظر پیش کر تی ہیں۔ گزشتہ 22 سالوں سے انکی مرمت نہیں ہوئی تھی۔ اس کام کے جذبے کو دیکھ کر مقامی صحافی نے مہمان کو بتایا کہ یہ کام اپنی مدد آپ کے تحت ہو رہا ہے۔ مہما ن دانشور تھا اُس نے جواب دیا ’’یہ اپنی مدد آپ سے آگے کی بات ہے ‘‘، یہ دوسروں کی بھی مدد ہے اور یہ وہ سبق ہے جو اسلام نے انسانیت کی فلاح کیلئے مسلمانوں کو سکھایاہے۔ یہ وہ عمل ہے جس کے ذریعے دنیا میں اسلام پھیلا ہے‘‘
اپریل 1987 میں اپنے دورہ پاکستان کے دوران چنار باغ گلگت میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے مرکزی دفتر میں مہمانوں کی کتاب میں ایک ورق پرا پنے تا ثرات لکھتے ہوئے پرنس کریم آغا خان نے اپنی مدد آپ کو دوسروں کی مدد تک بڑھانے کا پیغام دیتے ہوئے لکھا ہے ’’الفاظ میر ا ساتھ نہیں دیتے کہ میں نے یہاں آکر دیہی ترقی کے شراکتی پروگرام میں عوام کا جو جذبہ اور اس جذبے کی جو کامیابی دیکھی ہے اس کو بیان کروں ،ہاں الفاط میرا ساتھ نہیں دیتے ‘‘مریدوں کے نام اپنے وعظ، فرامین اور پیغامات میں پرنس کریم آغاخان نے ہمیشہ سادگی ،کفایت شعاری ،امن اور انسانیت کی بھلائی کے ساتھ منشیات سے پر ہیز اور بدامنی سے گریز کا درس دیا ہے۔
توقع ہے کہ اپنے دورہ پاکستان کے دوران اعلیٰ حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں علاقے کی ترقی کیلئے جامع منصوبوں پر تبادلہ خیال کرینگے ۔