کالمز

بندہ کمائے گا نہیں تو کھائے گا کہاں سے؟؟؟

آج فجر کی نماز سے واپسی پر ناشتے کے انتظار میں بیٹھا ایک عبرت ناک کہانی بینائی کی نذر ہوئی۔ اس کے مطالعے کے بعد اللہ پاک کی ذات پر یقین مزید پختہ ہوگیا اور یہ حقیقت بھی کہ جہاں کچھ لوگ فجر کے وقت تکیے پر سر رکھ کر سوتے ہیں تو وہاں کچھ لوگ مصلے پر سر رکھ کر روتے بھی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سونے والے خوبصورت خواب دیکھتے ہیں اور رونے والے خوبصورت تعبیر پاتے ہیں۔

اللہ پاک کی ذات پر جس کو یقین ہو وہ کبھی محتاج نہیں ہوتا۔ وہ رب دوجہاں تو غاروں کے اندر پڑے ہوئے کیڑوں کو بھی رزق دیتا ہے تو اشرف المخلوقات حضرتِ انسان کو کیسے بھول پاتے ہیں۔ یہ جو ہم کہتے ہیں نا کہ بندہ کمائے گا نہیں تو کھائے گا کہاں سے؟ خیالِ زرق ہے رازق کا کچھ خیال نہیں۔ ارے بھیا! یہی کچھ تو اس کہانی میں بیاں ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے:

’’ستر کی دہائی تھی، کوئی آج کل والا پاکستان تو تھا نہیں، اُس نے کراچی میں موجود امریکی لائبریری میں قدم رکھا اور پڑھنا شروع کردیا۔ وہ پیاسا تھا اور علم پیتا چلا گیا، کچھ ہی سالوں میں انجینئرنگ میں ٹاپ کیا اور امریکہ چلا آیا۔ کام، کام اور بس کام۔ وہ اپنے خاندان میں واحد گریجویٹ تھا، اکیلا خوش نصیب جسے ملک سے باہر کام ملا اور واحد کفیل۔

کام کے دوران اُس کی ایک وائٹ امریکی مارگریٹ سے شادی ہوگئی۔ ترقی پر ترقی، اپنا گھر، اپنی گاڑی، بینک بیلنس، وہ منزلوں پر منزلیں طے کرتا چلا گیا۔

کافی سالوں بعد وہ آج اپنی بیوی کے ساتھ پاکستان لوٹا۔ سن تیراسی کا زمانہ تھا۔ سب لوگ خوب خوش ہوئے مگر ایک ضروری کام سے کمپنی نے واپس بلا لیا۔ بیوی کو پاکستان چھوڑ کر ایک ہفتے کے بعد واپس آنے کا کہہ کر وہ امریکہ روانہ ہوگیا۔

چھبیس گھنٹوں کے طویل سفر کے بعد اُس نے رات کی تاریکی میں نیویارک میں موجود اپنے گھر کا دروازہ کھولا اور بستر پر آکر اوندھے منہ لیٹ گیا کہ صبح کام پر پہنچنا تھا۔ اُس نے بمشکل تمام چھ بجے کا الارم لگایا۔
صبح اُس کی آنکھ گیارہ بجے کھلی، وہ کافی دیر تک حیران و پریشان گھڑی کو دیکھتا رہا، اُس نے چھلانگ مار کر بستر سے اٹھنے کی کوشش کی مگر یہ کیا، وہ تو اپنے آپ کو ایک انچ بھی نہ ہِلا پایا۔ اُس نے گھبراہٹ میں چیخنا چاہا مگر کوئی آواز نہ نکل سکی۔

رات کے کسی پہر جب وہ خوابوں میں دنیا فتح کررہا تھا تو قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اُسے فالج کا اٹیک ہوا اور صبح تک اُس کا جسم، اُس کا چہرہ اور تمام عضلات کسی بھی قسم کی حرکت سے معذور ہوچکے تھے۔ اُس کا دماغ کچھ کچھ کام کر رہا تھا مگر اُسے بڑی مشکل پیش آرہی تھی۔ یہ سوچتے ہوئے کہ وہ کون ہے؟ اُس کا نام کیا ہے؟ بیوی بچے، ماں باپ کون ہیں؟ وہ سب کچھ بھولتا چلا جارہا تھا۔ یاد داشت کا کھونا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی قسطوں میں خودکشی کرے۔ ہلکے ہلکے، رفتہ رفتہ، مدھم مدھم وہ تمام لوگ جن کے ہونے کو ہم زندگی کہتے ہیں دماغ سے رخصت ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دل میں رہتے ہیں مگر دل تو احساسات کا مجموعہ ہے۔ شکل کو نام اور صفات تو دماغ دیتا ہے۔

مسٹر صدیقی کو بستر پر پڑے پڑے آج تیسرا روز تھا۔ موبائل فون تو اُس دور میں ہوتے نہیں تھے اور اگر ہوتے بھی تو وہ کون سے اِس قابل تھے کہ وہ ہاتھ ہِلا سکتے۔ گھر میں موجود فون بجتا رہا، کبھی آفس والے کال کرتے تو کبھی پاکستان میں گھر والے۔

اتنی بے بسی تو شاید مُردوں کو بھی نہ ہوئی ہوگی کہ انہیں کم از کم اِس بات کا تو سکون ہوتا ہوگا کہ وہ مرچکے ہیں۔ مرنا کتنی بڑی نعمت ہے انہیں آج سمجھ آرہا تھا۔

چوتھا دن، پانچواں دن اور آج چھٹا دن، غلطی سے آج ڈاکیا دروازہ کھلا دیکھ کر مسٹر صدیقی کو ہیلو ہائے کرنے آگیا کہ اُن کے اخلاق اچھے تھے اور وہ ہمیشہ ڈاکیے کو دیکھتے تو حال احوال پوچھتے۔

ڈاکیے نے کھلی آنکھوں مگر ساکت جسم کو دیکھا تو نائین ون ون پر ایمرجنسی کال کردی۔ وہ آئے اور اٹھا کر لے گئے۔ اگلے نو ماہ صدیقی صاحب کومے میں رہے۔ وہاں سے ہوش آیا تو کینٹکی کے ایک ہاس پائس ری ہیبیلی ٹیشن سنیٹر میں منتقل کردیا گیا۔ یہاں ایسے لوگوں کو رکھا جاتا تھا جن کا واحد علاج خود موت ہوتی تھی۔ دن، ہفتے، مہینے اور سال گزرتے چلے گئے۔

بیوی نے سمجھا کہ ’کسی اور‘ کے ساتھ گھر بسالیا اور اسے بھول گئے، اُس نے بھی کہیں اور شادی کرلی۔
بہن بھائیوں اور رشتہ داروں نے سمجھا کہ پیسے کی ہوس نے تمام رشتے ناطے توڑنے پر مجبور کردیا۔
باپ نے سمجھا کہ بیٹا امریکی زندگی میں مصروف ہوگیا اور گھر والوں کی خیریت لینے کا وقت نہیں ہے، وہ ناراض ہوگیا اور اُسی ناراضگی میں کچھ سالوں بعد باپ کا انتقال ہوگیا۔

ماں پھر ماں ہوتی ہے، وہ آخری وقت تک انتظار کرتی رہی کہ ایک دن اُس کا بیٹا ضرور واپس آئے گا۔ اُس نے مرتے وقت بھی وصیت کردی کہ جب بیٹا آئے تو اُس کی قبر پر ضرور لے آئیں۔

آج اِس واقعے کو تینتیس سال اور چار ماہ ہونے کو آئے ہیں۔ مسٹر صدیقی (کوئی اُن کا پورا نام نہیں جانتا) آج بھی بولنے کی سکت نہیں رکھتے مگر تھوڑا بہت کھا پی سکتے ہیں۔ پچھلے چند ماہ سے اِس سینٹر میں ایک پاکستانی آتا ہے، اُس کا نام شاہد ہے۔ شاہد انہیں دیکھتا تو اسے شک گزرتا کہ یہ پاکستانی ہیں مگر ایک کلین شیو بوڑھے کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل تھا۔ بول تو وہ سکتے نہیں تھے۔

آج مسٹر شاہد کو ایک ترکیب سوجھی، وہ گھر سے پاکستانی چکن بریانی لے گئے اور مسٹر صدیقی کے سامنے رکھ دی۔

مسٹر صدیقی کے پورے جسم میں صرف آنکھیں بولتی تھیں، آج تو جیسے وہ ابل پڑیں۔ نرس چمچ سے بریانی آہستہ آہستہ منہ میں ڈالتی جاتی مگر اتنے آنسو اس میں مل جاتے کہ اندازہ کرنا مشکل ہوجاتا کہ چمچ میں چاول کی مقدار زیادہ ہے یا آنسوؤں کی۔

یہ آنسو اِس بات کا ثبوت تھا کہ بندہ یا تو پاکستانی ہے یا انڈین۔ شاہد نے مریض کو گلے لگالیا اور دونوں نجانے کتنی دیر تک روتے رہے۔

اگلے چھ ماہ میں شاہد نے سب پتہ لگالیا کہ یہ شخص کون ہے مگر اب تینتیس سالوں بعد فیملی کی تلاش ایک بڑا مسئلہ تھا۔

اُس نے اُن کی تصاویر کھینچ کر فیس بک پر لگادیں۔ دو ہی ہفتوں میں اُن کا مسٹر صدیقی کی گزشتہ بیوی اور ب

اُس نے اُن کی تصاویر کھینچ کر فیس بک پر لگادیں۔ دو ہی ہفتوں میں اُن کا مسٹر صدیقی کی گزشتہ بیوی اور بہن سے رابطہ ہوگیا۔

اِس ہفتے مسٹر صدیقی اپنی بہن سے امریکہ کے ایک اسپتال میں ملے۔ نہ کچھ بول سکے اور نہ ہاتھ ہلا سکے، ہاں مگر آنسو تو کم بخت ہیں فالج میں بھی نکل آتے ہیں۔

آج رات شاہد سوچ رہا تھا کہ آدمی غرور و تکبر کس بات کا کرے؟ چلتے ہوئے نظام میں سے قدرت نے ایک آدمی کو بِنا موت کے تینتیس سال کے لیے نکال کر باہر رکھ دیا۔ وہ جو سمجھتا تھا کہ اگر وہ کام نہ کرے تو کھائے گا کہاں سے؟ اُسے بھی بٹھا کر، بلکہ لٹا کر تینتیس سال کھلاتے رہے۔ صرف بندہ اپنے آپ کو دیکھ لے۔ اُن تمام بیماریوں کا اندازہ کرلے جو اپنے جسم میں ساتھ لے کر چلتا ہے اور اُن میں سے کوئی نکل پڑی تو وہ کہیں کا نہیں رہے گا تو غرور و تکبر آنسو بن کر بہہ جاتے ہیں۔‘‘

آخری بات۔۔۔۔۔۔

اس کا مطلب ہرگز ایسا نہیں کہ انسان محنت نہ کرے لیکن ایسی محنت نہ ہو جو آپ کو اللہ سے دُور کردے اور غرور کی طرف لے جائے اور یہ کہنے پہ مجبور کردے کہ جو کچھ آپ کما رہے ہیں وہ آپ کی محنت اور قابلیت کی وجہ سے ہے۔میں جب بھی کسی دُنیا دار آدمی سے ملتا ہوں جو یہ کہتا ہے کہ بندہ کمائے گا نہیں تو کھائے گا کہاں سے؟ تو یقین جانئیے مجھے مسٹر صدیقی رہ رہ کے یاد آجاتا ہیں۔ بس جاتے جاتے ایک ہی گزارش ہے کہ اللہ پاک کی نوازشات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس ذاتِ اقدس پر یقینِ کامل اور اُمید کے ساتھ زندگی گزار لیجئیے گا۔ کیونکہ بزرگوں کا کہنا ہے کہ اُمید انسان کو سکون دیتی ہے جبکہ نااُمیدی کفر ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button