فیچر

(فیچر) باشہ کی رہائشی حاملہ خاتون کو ہسپتال پہنچنے میں دو دن کیوں لگے؟

تحریر: عابدشگری

21ویں صدی میں بھی باشہ کے عوام پتھر کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں اور مناسب مرکزصحت یا آمدورفت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بیماروں کو کندھوں پر لاد کر علاج کے لیے کئی کئی دن پیدل چل کر سکردو اور دیگر شہروں تک جانے پر مجبور ہیں۔

حاملہ رقیہ کو تو دو دن کی طویل مسافت لوگوں کے کندھوں کے سہارے طے کرنے کے بعد نئی زندگی مل گئی، لیکن اس کے پیٹ میں موجود بچہ ضائع ہوگیا۔

وادیِ شگر کا آخری گاؤں شگرارندو زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ اس گاؤں تک پہنچنے کا واحد زمینی راستہ مقامی لوگوں نے خود ہی بنایا ہے۔ یہ ایک کچی سڑک ہے جوسال کے صرف چھ ماہ آمدورفت کے قابل رہتی ہے جبکہ دسمبر میں برف باری کے بعد مکمل بند ہوجاتی ہے، جس کے بعد لوگوں کا دیگر علاقوں سے زمینی رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔

یہاں کے باسی اپنے لیے نومبر کی آمد سے پہلے ہی چھ ماہ کی خوراک ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ بیماری کی صورت میں واحد ذریعہ علاج چیک رپبلک کی جانب سے قائم کردہ ڈسپنسری ہے جہاں ایک نرسنگ اسسٹنٹ بطور معالج تعینات ہے۔

گذشتہ دنوں ارندو میں ایک جواں سال خاتون کی طبیعت اچانک بگڑ جانے کے بعد انہیں مقامی ڈسپنسری لایا گیا تھا۔ ڈسپنسر نجف علی کے مطابق خاتوں چھ ماہ حمل سے تھی اور حمل ساقط ہونے کی وجہ سے ان کا خون خاصی مقدار میں ضائع ہو گیا تھا۔

خاتون کی حالت اس قدر پیچیدہ تھی کہ علاج نجف علی کے بس سے باہر تھا، اس لیے انہیں فوری علاج کے لیے سکردو ریفر کر دیا گیا۔

لیکن گذشتہ کئی دنوں کی شدید برف باری کے باعث راستے مسدود ہو گئے تھے، چنانچہ مقامی لوگوں نے بیمار خاتون کو سکردو پہنچانے کے لئے ایک مشکل طریقے کا انتخاب کیا۔

روقیہ کو اس کے شوہر سکندر، رشتہ داروں اور گاؤں کے20 لوگوں نے باری باری اپنے کاندھوں پر دیسی ساختہ سٹریچر میں لاد کر سکردو کا سفر شروع کردیا۔ راستے میں تین سے چار فٹ تک برف پڑی ہوئی تھی جس کی وجہ سے لوگوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ارندو سے قریبی گاوں تسر تک پہنچنے میں ان لوگوں ایک دن سے زائد کا وقت لگا۔ روقیہ کی حالت زار اور تکلیف دیکھ کر لوگوں نے رات کو بھی اپنا سفر جاری رکھا۔اور صرف کھانا کھانے کے علاوہ کہی سستانا مناسب نہیں سمجھا۔

اس مشکل سفر کی وجہ سے خاتون کی طبیعت مزید بگڑ گئی، تاہم سکردو میں بروقت علاج اورخاتون کو دو لیٹر خون چڑھانے کے بعد ان کی جان بچ گئی۔ اب ان کی زندگی خطرے سے باہر بتائی جا رہی ہے۔

روقیہ کے شوہر علی کے مطابق روقیہ کی طبیعت سنبھل چکی ہے۔ تاہم انہیں بچہ ضائع ہونے پرکافی دکھ ہے۔ اور راستے میں ہونے والی تکالیف کو یاد کرتے ہوئے مزید تکالیف سے بچنے کیلئے سردیاں سکردو میں ہی گزارنا چاہتی ہے۔

رقیہ کو کاندھوں پر اُٹھائے گاوں کے لوگ ہسپتال کی طرف سفر کررہے ہیں

رقیہ کیساتھ آنے والوں میں فدا حسن بھی شامل تھا انہوں نے راستے میں ہونے والی تکالیف کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک خاتون کو کندھے پر اٹھا کر لانا ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں۔ ہم ہر سال تکالیف میں مبتلاء ماوں اور بہنوں کو اپنے کندھوں پر لاد کر تسر لاتے رہے ہیں۔ تاہم راستے میں روقیہ کی تکلیف دیکھ کر ہمیں دکھ ہورہا تھا کہ اس دور میں بھی یہاں بسنے والے لوگوں کا شمار انسانوں میں نہیں ہوتا اور ہم صحت اور دیگر بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ ہم میں ہر ایک تھکن سے چور چور تھا لیکن اس خاتون کی تکلیف دیکھ کر ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے اور انہیں کسی بھی طریقے سے ہسپتال پہنچا کر ان کی مشکل دور کرنا چاہتے تھے۔

گاوں کے سرکردہ چیئرمین علی کا کہنا ہے کہ ارندو سمیت باشہ یونین کونسل کے دیگر دیہات میں کئی کئی فٹ برف پڑ چکی ہے جس کے بعد راستوں کو صاف کرنے کے لیے کسی قسم کی مشینری نہ ہونے کی وجہ سے راستے بند ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قریبی دیہات میں تربیت یافتہ ڈاکٹر یا طبی عملہ موجود نہیں جس کی وجہ سے سخت بیماری کی صورت میں یہاں کے لوگوں کے پاس واحد راستہ یہی ہوتا ہے کہ مریض کو علاج کی خاطر کندھوں پر اٹھا کر تسر سے سکردو اور دیگر شہروں میں منتقل کر دیا جائے۔اگر ارندو کے ڈسپنسری میں تربیت یافتہ ایل ایچ وی اور دائی تعینات ہوجائے تو خواتین کی زچگی کے دوران پیش آنے والی پیچیدگیوں کو حل کیا سکتا ہے۔ مقامی سطح پر گاؤں میں کوئی تربیت یافتہ ماہر دائی موجود نہیں۔جو اس طرھ کی پیچدگی کی صورت میں علاج کریں اور یہ محکمہ صحت شگر کی ذمہ داری ہے کہ وہ گاؤں کے خواتین کی مسائل کے پیش نظر ایک تربیت یافتہ ایل ایچ وی یا مڈوائف کو سردیاں ختم ہونے تک یہاں تعینات کریں۔ گاؤن کے لوگ ان کیساتھ تعاؤن کرینگے اور انہیں فری رہائش اور دیگر سہولیات فراہم کرینگے۔

مقامی ڈسپنسری کے انچارج نجف علی کا کہنا تھا کہ انہیں محکمہ کی جانب سے مکمل تربیت اور ادویات حاصل ہیں لیکن خواتین کے طبی معاملات میں دخل دینا ان کے بس کی بات نہیں۔ "ہمارا علاقہ پسماندہ ہونے کیساتھ مذہبی حوالے سے سخت رسم و رواج کا پابند ہے ایسے میں خواتین کی زچگی کے معاملات جیسے پیچیدہ مسائل کا حل مجھ سمیت کسی بھی مرد کے لئے ممکن نہیں ہے۔ اگر کوئی ماہر دائی علاقے میں تعینات ہوجائے تو انہیں مشورہ دے کر اور ان کی مدد کرکے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہوں۔”

محکمہ تعمیرات عامہ شگر کے پاس باشہ یونین کی سڑکوں سے سردیوں میں برف ہٹانے کیلئے مشینری موجود ہے، لیکن ذمہ داروں کی غفلت کی وجہ سے یہ مشینری ان علاقوں میں لوگوں کو مدد فراہم کرنے کی بجائے مرکزی شگر پڑی زنگ پکڑ رہی ہے۔

اس حوالے سے ایس ڈی او شگر علی سنگ سے رابطہ کیا گیا تو انہں نے کہا کہ محکمہ تعمیرات شگر کے پاس پانچ ٹریکٹر موجود ہیں لیکن انھیں چلانے کے لیے کوئی تربیت یافتہ ڈرائیورز ابھی تک بھرتی نہیں کئے گئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تسر سے آگے دو فٹ سے زائد برف باری ہوئی ہے جبکہ ان ٹریکٹروں کی استعداد چند انچ برف ہٹانے سے زیادہ کی نہیں ہے۔

دوران برف باری ان ٹریکٹروں کو ان علاقوں میں بھیجنا خطرے سے خالی نہیں، لہٰذا یہاں بھاری مشینری کی ضرورت ہے جو کہ محکمہ تعمیرات عامہ شگر کے پاس دستیاب نہیں ہے۔

چیرمین علی۔تقی سرور اور دیگر عمائدین نے شگر انتظامیہ اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ باشہ یونین میں سڑکوں کی صفائی کے لیے مناسب مشینری مہیا کیا جائے تاکہ ایمرجنسی میں سڑکوں سے برف ہٹائی جا سکے، جبکہ باشہ میں مناسب موقعوں پر میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیا جائے۔جبکہ علاقہ باشہ میں خواتین کی زچگی کیلئے ایم سی ایچ سنٹرکا قیام عمل میں لایا جائے۔

ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ضلع شگر ڈاکٹر سید صادق شاہ اس واقعہ پر کافی افسردہ ہے ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس علاقے کی لوگوں کی مسائل اور مشکلات کا علم ہے لیکن ضلع شگر چونکہ حال ہی میں وجود میں آیا ہے اس لئے وسائل کی کمی ہے، جس سے مقامی افراد متاثر ہورہے ہیں۔ ہم انہی محدود وسائل کے ساتھ لوگوں کی صحت اور دیگر مسائل حل کرنے کیلئے کوشش کررہے ہیں ۔اسی سلسلے میں سیسکو گاؤں جوکہ باشہ علاقے کا بالکل سنٹر میں واقع ہے وہاں محکمہ صحت شگر کی جانب سے زچہ بچہ سنٹر کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے۔ اس سنٹر میں چند دنوں کے اندر ایک ماہر ایل ایچ وی،مڈوائف اور دائی کی تعینات عمل میں لایا جائیگا۔ جس کے بعد پورے باشہ کے خواتین کا زچگی کا مسئلہ کافی حد تک حل ہوجائیں گے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر اس خطے سے پڑھی لکھی خواتین محکمہ صحت میں تربیت حاصل کرنا چاہتا ہے تو محکمہ ان کیساتھ مکمل تعاؤن کرکے انہیں مکمل تربیت فراہم کریگا۔ جوکہ مستقبل میں یہاں خدمات سر انجام دینگے۔

یہ صرف رقیہ ہی کی کہانی نہیں ہے بلکہ پچھلے سال بھی اسی طرح کی دو واقعات میں زچگی کے دران مناسب علاج اورتربیت یافتہ دائی یا گائنی کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے دو خواتین کو مقامی لوگوں نے سٹریچر پر اٹھا کرسکردو منتقل کیا تھا۔

اسی کہانی سے متعلق رجب علی قمر کی یہ رپورٹ بھی دیکھی جاسکتی ہے

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button