تحریر: حیدر علی بدخشانی
جڑواں شہر میں ماہ اگست کی گرمی کے ساتھ ساتھ سیاسی ماحول کا درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ، ٹی وی چینلز کی بے بنیاد اور سنسنی خیز بریکنگ نیوز، شہر میں ٹریفک کا ہجوم اور شور شرابہ سے تنگ آکر کسی صحت افزا مقام کی طرف نکلنے کا منصوبہ بنایا۔ دوستوں نے ہنزہ جانے کا مشورہ دیا، رینٹ اے کار سے ایک کرولا کار کرائے پر لیا اور گلگت بلتستان کی حسین وادی ہنزہ کی طرف چل پڑا۔ کار ڈرائیور حاجی کریم بھی خوش قسمتی سے ہنزہ ہی کا باشندہ تھا۔ جو ڈرائیور ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارا گائیڈ بھی بنا۔ سفر کے آغاز سے ہی ہمیں گلگت بلتستان اور خاص طور پر ہنزہ کے بارے میں بتاتے رہے۔ ان کی باتوں نے ہنزہ کے بارے میں ہمارے تجسس میں مزید اضافہ کیا۔ بابوسر کے حسین وجمیل وادی سے گزرتے ہوئے گلگت پہنچ گئے۔ یہاں سیاحوں کی معلومات کے لئے عرض ہے کہ اگر آپکا اسلام آباد سے براستہ گلگت جانے کا پلان ہے تو موسم کی صورتحال سے ضرور آگاہ ہوں، موسمی حالات کی خبر ضرور لیں تاکہ پریشانیوں سے بچ سکیں۔ گلگت میں چند گھنٹے قیام کے بعد پاک چائینہ دوستی کے شاہکار شاہراہ قراقرم سے ہوتے ہوئے اس مقام پر پہنچ گئے جو ہمارے خواب وخیال میں تھا، اس جگہ کو ایسا پایا ،جیسے سنا تھا۔ یہ ہنزہ کریم آباد تھا۔ ہنزہ یقیناًجنت سے کم نہیں، ہنزہ کے دیگر خوبصورت جگہوں کے بارے میں دریافت کیا تو لوگوں نے وادی چپورسن جانے کا مشورہ دیا۔ حاجی کریم نے مسکراتے ہوئے وادی چپورسن کی خوبصورتی اور دلکشی کی مزید تعریفیں کی۔ ہم نے کہا یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں۔ حاجی کریم نے گنش سے گوجال کی طرف گاڑی موڑ دی، راستے میں عطاآباد جھیل کا نظارا کیا اور سوست بازار پہنچ گئے۔ پاک چائینہ بارڈرخنجراب پاس سے چند کلومیٹر پہلے بائیں کی جانب وادی چپورسن کی طرف جانے والی کچی سڑک پر معمول سے زیادہ رش تھا۔ چھوٹی بڑی گاڑیاں یکے بعد دیگرگرد وغبار اڑاتے اس وادی کی طرف جارہی تھیں۔ موٹر سائیکل سواروں کی ایک بڑی تعداد چپورسن جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ پاک چائینہ بارڈر سے متصل سوست بازار میں جگہ جگہ دیو قامت بینرز لگے ہوئے تھے ، ہوٹلوں میں معمول سے زیادہجوم تھا۔ کچھ لوگ ڈھول کی تھاپ پر محوِ رقصاں تھے، ہم نے بھی موقع کو غنیمت جان کر رقص کرنے والوں کی صف میں شامل ہوگئے جیسے بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ۔۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ لوگ وادی چپورسن میں نویں باباغندی انٹرنیشنل کلچرل میلہ میں جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں اور میلہ میں شامل ہونے کے لئے ملکی وغیر ملکی سیاح جوق در جوق بطرف وادی چپورسن جارہے ہیں۔کہیں ثقافتی میلہ ہو اور ہم نہ جائیں یہ ہمارے لیے ممکن نہ تھا، حاجی کریم نے گزارش قبول کی اور وادی چپورسن کی طرف چل پڑے ۔ خوبصورت پہاڑوں کے دامن میں سرسبزو شاداب میدانوں او رلہلہاتے کھیتوں کے درمیان سے گرزرتے ہوئے لگ بھگ سو کلومیٹر فاصلہ طے کرنے کے بعد استمن پہنچ گئے جہاں ایک سرسبزوشاداب میدان کے ایک کونے میں برزگ ولی حضرت بابا غندی کا مزار واقع ہے ۔علاقہ مکینوں کے بقول یہ برزگ دین کی تبلیغ کے سلسلے میں بدخشان کے علاقے غند سے ہجرت کر کے براستہ ارشاد پاس استمن پہنچا ہے اور مختصر علالت کے بعدوفات پاگئے اور یہاں مدفون ہے۔ مقامی باشندوں نے بعد میں یہاں پر مزار تعمیر کیا جہاں ملک کے کونے کونے سے عقیدت مند حاضری دینے آتے ہیں او رمنتیں مانگتیں ہیں، عقیدت مندوں کے بقول یہاں مرادیں ضرور پوری ہوتی ہیں۔ مزار کے ساتھ ہی ایک چشمہ رواں ہے جہان سے عقیدت مند پانی پیتے ہیں اور گھر والوں کے لئے بھی بوتلوں میں بھر کر بطور تحفہ لے جاتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس پانی میں شفا ہے۔
یہاں اس بزرگ ہستی کے بام سے منسوب سالانہ میلہ کا انعقاد کیا جاتا ہے، جسے بابا غندی انٹرنیشنل کلچرل فیسٹیول کہتے ہیں، یہ نویں میلہ تھا جس میں ہمیں بذاتِ خود شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ ان ثقافتی میلوں میں گلگت بلتستان کے تمام علاقوں کے علاوہ واخان اور بدخشان سے بھی فنکارشامل ہو تے ہیں ا ور اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ فیسٹیول کے پہلے دن کا آغازحسبِ روایت تلاوتِ کلام پاک سے ہوا، تلاوت کی صدا پہاڑوں میں گونج رہی تھی جیسے پہاڑبھی ثناخواں ہوں۔ اس کے بعد مزار کے سامنے ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند جمع ہوگئے اور انسانیت کی بھلائی، دنیا میں امن وآشتی، لوگوں او رقوموں کے درمیان محبت و بھائی چارگی اور پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کے لئے دعائیں مانگی گئی۔
یہ منظر دید کے قابل تھا، منظم انداز میں قطار در قطار لوگ موسیقی کے پروگرام دیکھنے کے لئے سبززار کی طرف روانہ ہوگئے۔ میلے کے س حصے میں فنکاروں نے روائتی انداز میں خوش آمدید کے کلمات پیش کیے۔ پروگرام میں فنکاروں نے مختلف زبانوں میں گانے گاکرموسیقی کے رنگ بکھیر دیے۔ ڈھول کی تاپ پر عمر رسیدہ افراد کا ثقافتی لباس میں رقص قابل دید تھا۔ رنگ برنگے لباس میں ملبوس ننے منے بچوں نے اسٹیج پر آکر ملی نغمے پیش کیے جسے لوگو ں نے بے حد پسند کیا۔ اس کے علاوہ دیگر ثقافتی شوز او رپرگراموں نے محفل میں بیٹھے افراد کو واہ واہ کہنے پر مجبور کیا۔ اس کے بعدکھیلوں کا بادشاہ اوربادشاہوں کا کھیل پولو کا میچ شروع ہوا، پولو میچ دیکھنے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس فیسٹیول میں شرکت کرتے ہیں۔ تند و تیز گھوڑوں پر سوار پھرتیلے کھلاڑیوں نے بہترین کھیل پیش کی اور شائقین سے داد
وصول کیے۔ اب چونکہ پہلےدن کا پروگرام ختم ہوا لیکن ہوٹلوں او رمختلف اسٹالز میں لوگوں کاہجوم زیادہ تھا، سورج بھی غروب ہوا او رلوگ آشیانے کی تلاش میں نکلے ، مزار کے ایک طرف سینکڑوں کی تعداد میں خیمے بستیاں آباد تھیں اس کے علاوہ مزار کے احاطے میں مہمانوں کیلئے بنائے گئے کمروں میں بھی لوگوں کو بہتر قیام و طعام کی سہولت موجود ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو طعام و قیام کی سہولت فراہم کرنا یقیناًقابل تعریف تھا۔ شام کو صوفیانہ کلام کی محفل ہوتی ہے جس میں فنکار صوفیانہ کلام پڑ ھ کر عقیدت مندوں کے دلوں کا گرماتے ہیں، آج شام کی محفل بھی عقیدت اور صوفیانہ عشق و سرور سے بھرپور تھا، فنکاروں نے مختلف زبانوں میں گلہائے عقیدت پیش کیے۔ دوسرے دن کا آغاز بھی خداوند بزرگ وبرتر کے نام سے ہوا، تلاوت کے بعد دوسرے دن کے پروگرام کا آغاز ہوا، گلگت بلتستان کے فنکاروں نے مختلف علاقائی زبانوں میں پُرلطف موسیقی کے رنگ بکھیر دیے۔ چپورسن ریڈ اور گرین کی ٹیموں نے بہترین پولو اور مشہور کھیل بوز کشی سے شائقین کو لطف اندوز کیا۔ اسی طرح دو دنوں پر مشتمل بابا غندی انٹرنیشنل فیسٹیول اختتام پذیر ہوا۔ سب لوگ خوشی خوشی واپس روانہ ہوگئے، ہم نے بھی حضرت بابا غندی کے مزارپر دوبارہ حاضری دی اور واپس کاسفر شروع کیا۔ اب ہمیں بامِ دنیا سے دارلحکومت اسلام آباد تک کا لمباسفر کرنا تھا۔ حاجی کریم نے نہایت استادی سے واپس گھر پہنچا دیا۔ شکریہ چپورسن،شکریہ حاجی کریم۔ زندگی رہی توانشاء اللہ آئیند ہ سال تمام دوستوں کے ہمراہ بابا غندی فیسٹیول میں ضرور شامل ہونگے۔