دیوانی مقدمات کا عذاب ختم ہونے کے قریب ہے۔ خیبر پختونخوا کی حکومت نے دیوانی مقدمات کے فیصلے کے لئے زیادہ سے زیادہ ایک سال کی مدت مقرر کی ہے اور صوبائی کابینہ نے بل کی منظور ی دی ہے۔ کابینہ کی منظوری کے بعد اب سول پروسیجر کوڈ (cpc) میں ترمیم کا بل اسمبلی سے پاس ہوگا اور گور نر کے دستخط کے بعد 1908ء کے قانون کی جگہ نافذ ہوگا۔صوبائی حکومت نے سینئر قانون دانوں ، ججوں اور دیگر ماہرین سے تفصیلی مشاورت کے بعد بل کا مسودہ تیا ر کیا ہے اور 1908ء میں انگریزوں کے بنائے ہوئے قانون میں 110سال بعد ترمیم کا مسودہ تیا ر کیا ہے۔ اس میں قانونی ، فنی اور تکنیکی طور پر تمام آئینی تقاضوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ 110سال بعد قانون میں ترمیم کی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ایک زندہ مثا ل سے اس کی وضاحت ہوگی۔ سید خان کا مرغا محمد طیب کے گندم کی فصل کے اندر گُھسا اور فصل کو نقصان پہنچایا۔ مقدمہ عدالت میں گیا۔ 18سالوں تک کیس چلتا رہا۔ ایک نیک دل منصف آیا۔ اُس نے فائل پڑھ کر نقصان کا تخمینہ دیکھا تو 5سیر گندم کے نقصان ہونے کا دعویٰ تھا۔منصف نے پوچھا مقدمے پر کتنا خرچہ آیا ہے؟ ایک فریق نے کہا کہ دو لاکھ روپے دوسرے فریق نے کہا تین لاکھ روپے ۔ منصف نے 5سیر گندم کی قیمت اپنی جیب سے ادا کرکے مقدمہ نمٹا دیا۔ دوسری مثال بھی اس سے ملتی جلتی ہے۔ فارسی مسل کا اردو ترجمہ کرانے کے لئے ایک بڑھیا پریس کلب آئی اور اپنی کہانی یوں سنائی۔میرا شوہر مر گیا، میرے گھر پر غیروں نے قبضہ کیا، سال مجھے یاد نہیں اُس وقت ایک سیر چائے کی قیمت 50روپے تھی۔ گندم کی 100کے جی والی بوری 28روپے میں آتی تھی۔ وکیل کی فیس 10روپے ہوا کرتی تھی۔ جیب کا کرایہ 5روپے مقرر تھا۔ میں اپنی اکلوتی بیٹی کے ساتھ اُس وقت سے در بدر ہوں۔بیٹی کی اولاد اب شادی شدہ ہیں۔میرے شوہر کا گھر غیروں کے قبضے سے مجھے واپس نہیں ملا۔ صحافیوں نے اندازہ لگایا تو یہ 1974ء کا واقعہ معلوم ہوا۔کیونکہ 1974ء سے پہلے اُس کے گاؤ ں میں جیب ایبل سڑک کی سہولت نہیں تھی۔ یہ دیوانی مقدمات کی دو کہانیاں ہیں۔ایسی لاکھوں کہانیاں کچہریوں میں موجود ہیں۔ایک بزرگ سے ہم نے پوچھا 1908ء میں کس طرح فیصلے ہوتے تھے؟ بزرگ نے کہا 1908ء سے 1970ء تک فیصلے کرنے والوں پر دباؤ ہوتا تھا۔ وہ اوپر رپورٹ بھیجتے تھے کہ اس ماہ کتنے مقدمات کے فیصلے ہوئے؟ ان کی تنخواہ ، تبدیلی اور ترقی کا دارومدار اس بات پر ہوتا تھاکہ یہ منصف ایک ماہ میں کتنے مقدمات کے فیصلے دیتا ہے؟1970ء کے بعد اس کی جگہ سیاست نے لے لی، تبدیلی ، ترقی اور دیگر معاملات سیاستدانوں کے ہاتھوں میں گئے۔ ایک منصف مہینے میں 100مقدمات کے فیصلے سناتا ہے۔ دوسرا منصف سال کے12مہینوں میں 20مقدمات کے فیصلے نہیں سناتا۔ دونوں کے مراعات یکساں ہیں۔ خدا بخشے مرحوم فضل حق جب گورنر تھے انہوں نے ڈسٹرکٹ کونسل چترال کے اقلیتی ممبر بشارا خان سے کہا ’’ کوئی خدمت بتاؤ‘‘۔بشارا خان نے فوراََ کہا کہ مجھے مجسٹریٹ یا جج لگاؤ ‘‘۔ فضل حق نے پوچھا تعلیم کتنی ہے؟ بشارا خان نے کہا ’’ سوکھا ان پڑھ ہوں‘‘۔فضل حق نے پوچھا پھر کس طرح مقدمات سنو گے؟کس طرح فیصلے کروگے؟بشارا خان نے کہا ’’ہر پیشی پر تاریخ دے دوں گا‘‘۔110سال بعد صوبائی حکومت نے سول پروسیجر کوڈ میں ترمیم لانے کا فیصلہ کرکے عوام کو دیوانی مقدمات کے عذاب سے نجات دلانے کی طرف انقلابی قدم اُٹھایا ہے۔ اس کے بعد کریمنل پروسیجر کوڈ) crpc) میں ترمیم کے لئے بھی وفاقی حکومت سے رجوع کیا جائے گا۔ قانون میں ترمیم کے ساتھ ججوں اور مجسٹریٹوں کے لئے پراگرس رپورٹ کی شرط بھی ضروری ہے۔ایک آفیسر کے چارج لینے کے دن اسکی عدالت میں 2800مقدمات تھے۔ ایک سال بعد اگر مقدمات کی تعداد ایک ہزار سے کم رہ گئی تو یہ اچھی کارگردگی ہے۔ اگر اس تعداد میں 2000مقدمات کا اضافہ ہوا تو یہ اُس آفیسر کی ناکامی کے مترادف ہوگی۔ ایک اہم پہلو بنچ کے ساتھ بار کے تعاون کا بھی ہے۔ ترمیمی بل کے مسودے میں یہ بات لائی گئی ہے کہ وکیل اگر دو بارمسلسل غیر حاضر رہا تو اس کی غیر موجودگی میں فیصلہ سنایا جائے گا۔ تاہم یہ نہیں لکھا گیا کہ وکیل اگر سند، گواہ اور ثبوت لانے میں مسلسل حیلے اور بہانے تلاش کرے ، نئے نئے فریق مقدمے کے اندر شامل کرے یا دیوانی مقدمے کو فوجداری مقدمے میں بدلنے کے لئے تشدد کے حربے اختیار کرے تو جج یا مجسٹریٹ کیسا ردّ عمل دے گا؟کہتے ہیں انصاف کے ترازو کے دو پہیے بنچ اور بار ہیں ۔ انصاف کی فراہمی کیلئے دونوں پہیوں کا درست ہونا لازمی ہے۔یہ عوام کے تحفظات ہیں۔ ان تحفظات کے باوجود یہ امر باعث اطمینان ہے کہ صوبائی کابینہ نے دیوابی قوانین میں ترمیمی بل کے مسودے کی منظوری دی ہے۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button