کیا خوب لکھا تھا حبیب جالبؔ نے کہ ۔۔۔۔
چند لوگوں کی خوشیوں کو لیکر چلے، ایسے دستور کو میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا۔۔۔
بھیڑ اور بھیڑ یا کا قصہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں۔ ہمارے لئے بھیڑ یا کی کہانی بہت پرانی ہے اسلئے ہم ان بھیڑیوں کی ذکر کرتے ہیں جن سے آئے روز ہمارا پلڑا پڑتا ہے ۔
جہاں تک میرا خیال ہے کہ بھیڑیا بے چارہ بد نام بہت ہے، کیونکہ اسے اپنا صفائی دینا نہیں آتا ، بے زبان جو ہے! اور یہ بھی نہیں پتہ کہ بھیڑئیے نے بھیڑ کے ساتھ کب یہ ناانصافی کی تھی کتنا عرصہ ہوا ہوگا کوئی نہیں جانتا مگر ہم آج بھی اسی کہانی کو مثال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ جو کہ بھیڑئیے کے ساتھ ناانصافی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو انسانی رُوپ میں ایسے ہزاروں بھیڑئیے موجود ہیں جو ظلم، سفاکیت، زیادتی کے پیروکار ہیں مگر پنہان اسلئے ہیں کہ انہیں اپنا صفائی دینا آتا ہے، اپنے کئے کا ذمہ دار کسی اور کو ٹہرانا جانتے ہیں، حصول ہمدردی کے ایک سو ایک گرُوں سے واقف ہیں ، جب ہی تو بدنامی بے چارہ بھیڑیئے کے نام رہتی ہے۔
ہم اکثر مختلف اداروں پر تنقید کرتے رہتے ہیں اور بدلے میں ہمیں بھی ان بھیڑیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو بولچال رکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے یعنی چترال میں موجود ادارے خصوصاً اے۔کے۔ڈی۔این ، کے ادارے، بھی مقدس مانے جاتے ہیں اور ایسے اداروں کو مقدس ماننا چائیے جن کی بنیاد انسانی فلاح کے لئے رکھا گیا ہو، جن کا میشن انسانی خدمت پر مبنی ہو، توایسے ادارے معاشرے کے تمام افراد کے لئے مقدس ہوتے ہیں اور ہم ایسے اداروں کی دل و جان سے قدر کرتے ہیں۔ اے۔کے۔ڈی۔این کے اداروں کو دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، کیونکہ یہ ادارے دنیا بھر میں آغاخان کے ویژن کے مطابق کام کرتے ہیں جوکہ انسانی خدمت پر منبی ہے ۔ مگر چترال میں صورت حال بلکل مختلف ہے اور ادارے تقریباً بدنام ہیں۔ وہ اسلئے نہیں کہ یہاں یہ ادارے کسی غلط مقصد کے تحت بنائے گئے تھے، بلکل بھی نہیں ، بلکہ اسلئے کیونکہ یہاں یہ ادارے چند زبان داراز بھڑیوں کے ہاتھ چڑھ گئے ہیں جنہیں بولنا ، بدنام کرنا، گمنام دفاع کرنا اور ہمدردی حاصل کرنے کا گر آتے ہیں ۔ تب ہی تو بے چارہ بھیڑیا بد نام رہتا ہے ، ورنہ یہاں (ان اداروں میں) ایسے ایسے ظلم، سفاکیت، زیادتی ہوتے ہیں جن کے سامنے بھیڑیاکا ظلم کچھ بھی نہیں۔
اداروں پر تنقید سے مراد یہ نہیں کہ ادارے کی ویژن پر کوئی تنقید کر رہا ہے ۔ تنقید اُن لوگوں پر ہے جو ان اداروں میں براجمان ہیں اور ادارے کی ویژن کو چھوڑ کر اپنے ذاتی مفاد اور مقاصد کے لئے کام کرتے ہیں اور اگر کوئی ہمت کرکے ان کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانا چاہے تو اسے یہ کہہ کر بد نام کیا جاتا ہے کہ اداروں پر ، وہ بھی مقدس اداروں پر تنقید گمراہ کن ہے۔ نہیں جناب ! یہ بات عیاں ہے کہ ادارے کوئی بھی ہو، اگر وہ اپنے مقصد سے ہٹ کر چند لوگوں کی خوشیوں کے مطابق چلنے لگیں تو ہم ایسے اداروں پر صرف تنقید نہیں بلکہ ہزار مرتبہ لعنت بھیجتے ہیں۔ اور رہی بات پارلیمنٹ کی، تو خان صاحب بلکل درست ہی فرمایا ، کہ جس ادارے میں انسانی جذبات کا مذاق ہو رہی ہو، بدمعاشوں کا قبضہ ہو، جو ادارے سزا یافتہ چوروں، لٹیروں اور ڈاکو ؤں کو جیل کے بجائے اقتدار میں پہنچانے کے لئے راہ ہمور کر رہا ہو، جو ادارے ملک کی تذلیل کا باعث بن رہا ہو، تو ایسے ادارے پر خان صاجب کی ایک ہزار مرتبہ لعنت پھر بھی کم ہے ، خان صاحب ! آپ کو بدنام کیا جائے گا، آپ کے خلاف ہمدردی حاصل کرنے کا ناٹک کیا جائے گا، کیونکہ بول چال والے بھیڑئیے جو بیٹھے ہیں۔ مگر ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو آپ کے ساتھ یک زبان ہو کر لعنت بے شمار کا ورد کرتے ہیں اور یہ کہتے رہیں گے کہ ادارے کتنا ہی مقدس کیون نہ ہو! اگر وہ اپنے مقاصد سے ہٹ کر چند لوگوں کی خواہشات لئے چلیں گے تو ایسے اداروں پر ایک نہیں بلکہ ہزار ، لاکھ بار بھی لعنت بھیجا جائے کم ہے ۔ چاہے وہ ادارے پارلیمنٹ ہی کیون ہو۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button