بچوں کی دنیابچوں کے لئے کہانیاں

جوربس کی کہانی

تحریر: دیدار علی خان

ہاجرہ بی بی اور جمعہ خان کی شادی کو دس سال ہوچکے تھے۔ ان کے تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا ۔زیادہ بچیاں پیدا ہونے کی وجہ سے ان کے درمیان لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔ ہاجرہ کو اکثر لعن طعن اور طر ح طرح کی باتیں سننے پڑتے تھے اور زمانے کی تلخ روایت ہے کہ ہمشہ عورت کو ہی اس معاملے میں قصور وار ٹھرایا جا تا ہے ۔ حاجرہ اسلئے شدیدڈراور خوف میں مبتلا تھی کہ اگر ان کے ہاں پھر بچی پیدا ہوئی تو جمعہ خان انکو گھر سے ہی بے دخل کردیگا ۔اس خوف نے تو ہاجرہ کے چین و سکون حرام کر رکھا تھا ۔لیکن اللہ کے کام میں انسان کیا بس چلتا ۔کھبی کبار دعاوں سے بھی کام نہیں نکلتا ۔ اس بار ہاجرہ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔تین بچیوں کے ماں کے کوک سے پھر ایک بچی نے جنم لیا ۔

جمعہ خان گاؤں سے دور ایک چھوٹے سے قصبے میں سبزی اور پھلوں کی منڈی میں ایک چھوٹا بیوپاری تھا۔ وہ اب کے بار انتہائی پور امید تھا کہ ان کے ہا ں بچہ ہی ہوگا۔ اسلئے اس نے اپنے ساتھی بیوپاریوں کو پیشگی میٹھائی بھی کھیلا چکا تھا ۔ جمعہ خان اس روز شام ہونے سے پہلے ہی گھر کی طرف روانہ ہوا۔ ادھر گھر میں ہر کوئی چپ سادھ کے بیٹھا تھا۔ گھر کے تمام افراد کا برتاو بہتر نہیں تھا۔ سب کو ایسا ہی لگتا تھا کہ جیسے ہاجرہ ہی قصور وار ہو۔ جمعہ خان کے گھر آتے ہی حالات کچھ زیادہ ہی خراب ہوگئے۔ وہ انتہائی افسردہ ہو کے گھر سے چل پڑے ۔ جمعہ خان نے یہ ارادہ کر لیا کہ وہ دوسری شادی کر کے ہی رہے گا۔لیکن اس سے پہلے انہوں نے گاؤں کے ایک عالم سے رابطہ کیا ۔ عالم نے جمعہ خان کو مشورہ دیا کہ اگر بچی کا نام جور بس رکھا جائے تو ان کے ہاںآئندہ بچی کی والادت نہیں ہوگئی۔جو ر بس کے معنی’’ بیٹی نہیں‘‘کے ہیں جو کہ مقامی زباں کا لفظ ہے ۔ ہاجرہ اس پر راضی نہ تھی لیکن ہاجرہ جس معاشرے میں رہتی تھی وہاں عورتوں کی بات سننا تو دور، ان سے کسی مسئلے پہ مشورہ تک گوارہ نہ تھا۔ اور یہی وجہ تھی کہ ہاجرہ کی تینوں بچیوں کی کم عمر ی میں ہی شادیاں کر دی گئی تھیں اور کسی کو بھی سکول جانا نصیب نہ ہوسکا تھا ۔

حاجرہ کے کوک سے چا ر بچیاں اور ایک بچہ حامد بھی تھا ۔حامد اور جور بس کے درمیان صرف ڈیڑھ سال کا فرق تھا لیکن گھر میں ہر کام حامد کے مرضی سے ہوتا تھا۔ اچھا کھانا انھیں ملتا ۔ وہ اچھا پہنتا تھا اور ہمیشہ دوستوں کے سا تھ آوارہ گردی کرتا رہتا تھا۔ اور جور بس کا کام گھر کا خیال رکھنا اور برتن دھونا ہی تھا۔

گاؤں میں بہار کے موسم میں بچوں کو سکول میں داخل کرایاجاتا تھا۔حاجرہ کی یہ خواہش تھی حامد کے ساتھ جو ر بس بھی سکول میں داخل ہو۔ جمعہ خان جب رات کوگھر لوٹ آئیں تو ان کے ہاتھ میں ایک بستہ اور کچھ کاپیا ں تھی۔ انہوں نے آتے ہی ہاجرہ کو حکم صادر کر دیا کہ حامد کے کپڑے دھو کے تیا ر کریں اگلے دن انکو سکول لے کے جانا ہے ۔ جور بس اب چھ سال کی ہوچکی تھی ۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں ۔باپ چونکہ اتنا روپ دار تھا کہ بچی کی تو آواز ہی نہیں نکل سکتی تھی ۔ اور اپنی سارے فرمایشے بس آمی سے کرنا ہوتا تھا ۔ جور بس نے بھی ہاجرہ سے یہ التجا ء کہ انکو بھی سکول بیجھا جا ئے۔ جمعہ خان سے جب اس بارئے بات کی گئی تو گویا قیامت ٹوٹ پڑ ی۔ وہ بچیوں کے تعلیم کے حق میں نہیں تھا ۔ لیکن اس بار ہاجرہ کے ضد نہ آخر کا ر جمعہ خان کو مجبور کر ہی دیا ۔ اور آخرکا ر یہ بات طے ہوئی کہ جور بس کو گاؤں کے سرکاری سکول میں داخل کرایا جائیگا ۔

کچھ سالوں بعد دونوں بچوں نے دسویں جماعتیں پاس کرلیں۔ حامد کے دوست کراچی میں پڑھنے جا رہے تھے۔ جمعہ خان نے حامد کو بھی کراچی پڑھنے بھیج دیا۔ ادھر جور بس میٹرک کے بعد اسی سرکاری سکول میں بطور استانی پرائمر ی کلاس کے بچوں کے پڑھانے لگی ۔ جور بس معاشرے کے حالات پہ کڑی نظررکھتی تھی ۔ اور اپنی محنت اورلگن سے یہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ لڑکی بھی معاشرے کا ایک اہم رکن بن سکتی ہے ۔ پرائیوٹ تعلیمی نظام ان کیلئے بہت کار آمد رہی ۔اور اسی تعلیمی نظام کے توسط سے جور بس نے سوشیالوجی میں ایم اے کا امتحان پاس کیا ۔اور اپنے گاؤں کے ہائی سکول میں بطور ہیڈ مسٹریس مقرر ہوئی ۔

دوسری طرف حامد کراچی جانے کے بعد، پڑھائی سے زیادہ غیر نصابی سرگرمیوں میں مصروف رہا اور کئی سال گزارنے کے بعد بھی بی اے کا امتحان پاس نہیں کر سکا۔اور وہ ناکامی کا بوجھ کاندھے پہ اٹھائے واپس گاؤںآ یا۔کہتے ہیں وقت انسان کا سب بڑا استا د ہوتا ہے ۔ اور انسان ہر چیز کا عملی مظاہر ہ وقت کے آنے پر ہی کر سکتا ہے ۔ جمعہ خان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا تھا ۔ وہ جس کو اپنے بڑھاپے کا سہارہ سمجھ کر سب کچھ لوٹا چکا تھا ۔ وہ اس کے بڑھاپے کا سہارہ تو نہیں بن سکا ۔ ہاں وہ ایک مصیبت ضرور بن چکا تھا ۔ کیونکہ جب سے وہ واپس ایا تھا وہ دوستوں کے ساتھ اوارہ گردی میں ہی مشغول تھا ۔ اب تو شراب نوشی بھی کرنے لگا تھا۔ ان بدلتے حالات نے جمعہ خان کو بہت حد تک بدل دیا تھا ۔ اب گھر میں جور بس ہی تھی جو پورے گھر کی کفالت کر رہی تھی اور بوڑھے باپ کا واحد سہارا تھی۔

جور بس نے اپنی لگن اور محنت سے نہ صرف اپنے والد کے سوچ کو شکت دیا تھا بلکہ معاشرے میں رایج اس روایت کو بھی۔ اسکے ساتھ ساتھ جور بس نے اپنے نام کے معنی میں جوڑے تمام نفرتوں اور حقارتوں کو ہمشہ کے لئے ختم کر کے،شفقت اور محبت کو ہمیشہ کے لئے اس نام کے معنی میں جھوڑ دیا تھا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button