بوڑھا رکشہ والا (آخری قسط)
ایک ہی گھر میں تینوں بیٹے رہتے تھے۔اب آئے دن برتنوں سے برتن ٹکرانے لگے۔گھر کے خرچے کو بنیاد بناکر ،بیویوں کی باتوں میں آکر تینوں آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے۔میں بیچ بچاؤ کراتا تو الٹا میرے ساتھ بددماغی سے پیش آتے۔ہم میاں بیوی ،ہماری دو بیٹیاں، ہماری زندگی اجیرن بن گئی تھی۔
’’ایک دن برداشت کی ہر حد ختم ہوگئی۔گھر میں آٹا ختم ہوگیا تھا۔تینوں بہانے بنا رہے تھے۔اسی بنیاد پر تینوں میں لڑائی ہوگئی ۔ان کی زبان دراز بیویوں نے بھی میدان گرم کردیا ۔پورے محلے میں تماشا ہوا۔مجھ سے مزید برداشت نہ ہوا۔میں نے صاف صاف کہہ دیا۔
’’ایک مہینے کے اندر میرے گھر سے نکل جاؤ۔اپنی زندگی خود گزارو۔ہمیں سکون نہیں دے سکتے،اس طرح عذاب بھی نہ دو۔۔۔
’’آہ ! ان کو شاید اسی بات کا انتظار تھا۔ایک مہینے کے اندر وہ گھر چھوڑ کرچلے گئے۔ان کی ماں اب روتی تھی۔پچھتاتی تھی مگر بے سود۔۔۔مجھے بھی ان کے جانے کے چند دن بعد ،غصہ جب ٹھنڈا ہوا تو ان کی کمی محسوس ہوئی ۔مگر کچھ عرصہ بعد میں نے بھی دل کو پتھر بنا لیا ۔انہیں ہماری فکر نہیں تھی تو ہم کیوں انہیں یاد کریں؟
بہت عرصہ گزر گیا ۔ایک دن پولیس میرے گھر آگئی ۔شاید میری آزمائشیں ختم نہیں ہوئی تھیں ۔منجھلا بیٹا کسی شاپنگ مال میں بہ طورِسیلز مین کام کرتا تھا۔دکان کے مالک نے اس پر چوری کا الزام لگاکے گرفتار کروایا۔تفتیش ہوئی تو چوری ثابت ہوگئی۔کم بخت نے تین چار دن پہلے چوری کی تھی ۔مالک کو پتا چلنے تک زیادہ تر رقم، عیاشیوں میں اڑائی تھی۔اب ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔اور پولیس نے باپ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔
’’ماں کی فریادیں اور بہنوں کے آنسو میری زنجیر بن گئے۔اپنی دکان بیچ دی ۔بیٹے کو مصیبت سے نجات دلا دی ۔کچھ پیسے بچ گئے تھے۔ان سے یہ پرانے ماڈل کا رکشا خریدا ۔۔۔اب پنڈی کی سڑکیں ہیں ،میری بوڑھی ہڈیاں ہیں ۔ایک گھر جس میں میری بیوی ہے اور دو بیٹیاں ہیں ،جن کی شادی کی عمر گزر رہی ہے مگر مجھ غریب کے دروازے پر ،کسی رشتے کی دستک کبھی سنائی نہیں دی ۔۔۔‘‘
میں اس بوڑھے کی باتیں سننے میں اتنا محو ہوا تھا کہ جہاں اترنا تھا اس سے دو سٹیشن آگے کمیٹی چوک والے میٹرو سٹیشن پر پہنچ گیا تھا۔وہ بوڑھا رکشا والا بھی جانے کس ترنگ میں تھا،اس نے بھی نہیں روکا تھا۔مگر مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ایک اولاد گزیدہ بوڑھے رکشا والے نے زندگی کے ایک المناک پہلو سے آشنا کروایا تھا۔
میں رکشے سے اترا ۔جتنی رقم بنتی تھی اس سے زیادہ رقم اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا ۔
’’چچا! آپ کی کہانی سننے کے باوجود میں کہتا ہوں، اولاد اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہوتی ہے ۔بڑھاپے کا سہارا ہوتی ہے۔اور جو اولاد ایسی نہیں ہوتی ،وہ بے نصیب ہوتی ہے۔‘‘
اس نے کہا۔’’بیٹا ! ماں باپ بوڑھے ہوں تو اولاد ہی ان کا سکون اور سہاراہوتی ہے۔یہ بات میں بوڑھا رکشا چلانے والا بہتر جانتا ہوں ۔جاؤ ،اپنے بوڑھے ماں باپ کی امید بن جاؤ۔میری اولاد کی طرح آزار نہیں۔۔۔‘‘
میں وہاں سے اسلام آباد آیا۔اسی رات ،ایک جگہ ، گلگت سے آئے ہوئے دو بزرگ قسم کے بندوں سے گفتگو کا موقع ملا ۔دونوں ابھی کچھ عرصہ ہوا، پُر کشش ملازمتوں سے ریٹائرڈ ہوگئے تھے۔بہت پڑھے لکھے اور معقول گھرانوں کے لوگ تھے۔ان کی پنشن ہی سولہ سترہ گریڈ کے کسی ملازم کی ابتدائی تنخواہ سے زیادہ ہوگی۔ان کے بچے اعلا تعلیم یافتہ ہیں۔اچھی ملازمتوں میں بھی ہیں۔دورانِ گفتگو میں نے اس بوڑھے رکشا والے کا قصہ سنایا۔
میری بات مکمل ہوئی توان میں سے ایک صاحب بولا۔’’یہ المیہ ہر جگہ ہے۔ایسا بے رحم دور آیا ہے، اولاد پر سے اعتباراٹھ گیا ہے۔دوسروں کا کیا ذکر ،خود میرے بچے بھی اپنی دنیا میں ،اپنے بیوی بچوں میں اتنے مصروف ہیں کہ ہم اگر بوجھ نہیں تو ،اضافی ضرورلگتے ہیں۔‘‘
دوسرا صاحب بولا۔’’اب اتنی بھی ما یوسی خوب نہیں۔ہم ان کے محتاج نہیں۔گورنمنٹ ہمیں اچھی خاصی پنشن دیتی ہے ۔اپنی زندگی خود گزارسکتے ہیں۔‘‘
پہلا صاحب گہری سانس لے کر بولا۔’’ماں باپ بوڑھے ہوں تو انہیں پیسوں کی کم ،اولاد کی توجہ کی زیادہ تمنا ہوتی ہے۔اس رکشا والے کے پاس پیسہ بھی نہیں تھا ،اولادکی توجہ بھی نہیں تھی۔میرے پا س پنشن تو ہے مگر اولاد کی طرف سے اطمینان نہیں ۔‘‘
ان ریٹائرڈ بزرگوں کی باتیں طول طویل تھیں ۔ بچوں کی بے حسی اور بے توجہی کا دبا دبا احساس،خوف بن کے ان کی گفتگو سے جھلک رہا تھا۔اپنی عمر رسیدگی اور بیماری میں ،بے چارگی کی فکر زیادہ تھی۔انہیں اولاد کی طرف سے خدمت اور ہمدردی سے زیادہ اپنی پنشن پربھروسہ تھا۔۔۔
اور اسی احساس نے اس بوڑھے رکشا والے کی کہانی لکھنے پر مجبور کیا۔وہ عام سا فرد تھا۔اس ملک کے غریب کدوں میں رُلتا ،ایک بے نوا شخص ۔۔۔اس کی زندگی بھی غریب تھی،اس کی سوچ بھی ۔اولاد کی صحیح تربیت اور تعلیم کے لیے وسائل اور ماحول نہیں ملا تھا۔جس کی وجہ سے اس کی اولاد بگڑ گئی تھی۔اس بڑھاپے میں ناآسودگی مل گئی تھی۔۔۔
مگر ا ن دونوں ریٹائرڈ حضرات کی زندگی تو خوش حالی اور خوش فکری میں بسر ہوئی تھی۔بچوں کی تعلیم اور تربیت بھی اعلا کی تھی۔اس سب کے باوجود اولاد کی طرف سے بے یقینی تھی۔
تو صاحبان اسے کیا نام دیں ؟ چلو مان لیا ،اُس بوڑھے رکشا والے نے تربیت صحیح نہیں کی۔اعلا تعلیم نہیں دلائی۔مگر ان ریٹائرڈ بزرگوں نے تو بڑی بڑی ڈگریاں دلا دی تھیں اپنے بیٹوں کو ۔انہیں افسر بنا دیا تھا ۔پھر بھی اس عمر میں انہیں عاقبت کا خوف کم تھا،اپنی زندگی کی مشکلات کا غم زیادہ تھا۔
کہیں ایسا تو نہیں ،اچھی اولاد جو والدین کے بڑھاپے اور بے کسی میں حوصلہ بن جائے ،وہ تعلیم و تربیت سے نہیں ،بس نصیبوں سے ملتی ہے۔؟؟؟