جوتے – قسط اوّل
(ایک ایرانی فلم ’ بچہ ہائے آسمان ‘سے ماخوذ)
تحریر: سبط حسن
سعید، دس گیارہ برس کا ٹھنگنے قد کا لڑکا تھا۔ اس کے چہرے میں سب سے نمایاں اس کی کوّے جیسی تیز اور بے قرار آنکھیں تھیں۔ ماتھا، چوڑا مگر سر کی طرف زیادہ لمبا نہ تھا۔ بال، نہ تراشنے کی وجہ سے لمبے اور نہ نہانے کی وجہ سے گندے اور الجھے ہوئے تھے۔ اس کی ٹانگیں، گھٹنوں سے نیچے ٹیڑھی اور باہر کی طرف نکلی ہوئی تھیں۔ وہ دن رات خاکی رنگ کی ایک لمبی نیکر پہنے رہتا تھا۔ یہ نیکر، اس کی ماں نے پرانے کپڑوں کی دکان سے خریدی تھی۔ اسے کاٹ کر سعید کے سائز کے مطابق دوبارہ سی دیا تھا مگر یہ بدستور ڈھیلی ڈھالی ہی رہی۔ نیکر ہمیشہ کمر سے نیچے ڈھلکی رہتی۔ سعید کو اس کے نیچے ڈھلکنے اور پھر کھینچ کر کمر تک لانے کی عادت سی ہوگئی تھی۔ کھیلتے ہوئے یا مستیاں کرتے وقت وہ نیکر کی صورتحال سے بے فکر ہو جاتا۔ نیکر کا خیال کرتا تو اس کی کھیلنے میں توجہ متأثر ہو جاتی تھی۔ کھیل کے دوران، اس کے ساتھی اس کے ننگے حصے پر چٹکی لینے یا چپت لگانے سے ہرگز گریز نہ کرتے۔ سعید ان حرکتوں کا عادی سا ہو گیا تھا اور انھیں کھیل کا حصہ ہی سمجھتا تھا۔ اس لیے کسی قسم کی ناراضگی بھی ظاہر نہ کرتا۔
سعید اکثر قمیص کے بغیر صرف اپنی نیکر میں ہی نظر آتا تھا۔ اس سے اس کے بدن کا رنگ کچھ زیادہ ہی کالا ہو گیاتھا۔ اس کے جسم پر ہاتھ لگائیں تو ہاتھ چپک ساجاتا تھا۔ اکثر جب اس کے پاس کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تھا تو اپنے پیٹ پر انگلیاں پھیر کر، جمی میل کی سوّیاں اتارتا رہتا تھا۔ یا پھر ناک میں انگلی ڈال کر، ناک سے ججے نکال نکال کر، انھیں دیکھتا اور پھردیوار یاجوتے کے ساتھ چپکاتا رہتا تھا۔ اس کے جسم سے گلی سڑی سبزیوں جیسی بدبو آتی تھی۔ ایسی بدبو، اکثر غریب گھروں میں پلنے والے بچوں سے آنا ناگزیر ہوتی ہے۔
سعید، اپنے ماں باپ اور چھوٹی دوبہنوں کے ساتھ، دوکمروں والے اندھیرے سے ایک گھر میں رہتا تھا۔ گھر، کرایے پر لیا گیا تھا اور یہ شہر کے ایک قدیم محلے میں تھا۔ یہ محلہ چھوٹی چھوٹی گلیوں کی لاتعداد بھول بھلیوں پر مشتمل تھا۔ گلیاں تین چار فٹ سے زیادہ چوڑی نہ تھیں اور ان میں سے عام جسم کے دو آدمی ایک ساتھ نہیں گزر سکتے تھے۔ ان گلیوں کے ساتھ بنے گھروں میں اگرکوئی فوت ہو جاتا تو اس کی میت کو مردہ نہانے والے تختے پر باندھ کر گھر سے نکالا جاتا تھا۔ گلی میں چھوٹے چھوٹے گھر تھے۔ ان کی کھڑکیاں گلی کی طرف کھلتی تھیں اور ان پر لکڑی کے بڑے بڑے چھجے لگے ہوئے تھے۔ گلی کے اوپر، دونوں طرف بنے ان چھجوں کی وجہ سے گلی میں روشنی بہت کم رہتی تھی۔ سورج، صرف بارہ بجے کے ارد گرد گلی میں ہلکا سا جھانکتا تھا مگر چھجوں کی رکاوٹ کے باعث گلی کی اینٹوں والے فرش تک نہ پہنچ پاتا۔ گلیوں کے دونوں طرف ، گھروں کے ساتھ ساتھ گندے پانی کی چھوٹی چھوٹی نالیاں تھیں۔ ہر گھر کے دروازے کے آگے ایک چبوترہ تھا، جو ان نالیوں کو ڈھانپ لیتا تھا۔ نالیوں پر اکثر اوقات ننگ دھڑنگ بچے پاخانہ کرنے میں مصروف نظر آتے تھے۔ نالیوں میں انسانی فضلے، ہڈیوں اور ضائع شدہ سبزیوں کے ٹکڑے بہت آہستگی سے حرکت کرتے نظر آتے تھے۔ گلیوں میں ہوا کا گزر نہ ہونے کے برابر تھا۔ اگر تیز آندھی بھی آجاتی تو اس کا گلی میں کوئی اثر محسوس نہ ہوتا۔ صرف مٹی گرنے، پلاسٹک کے لفافوں کے اڑنے یا اوپر کی منزلوں پر کواڑ بجنے سے اندازہ ہوتا کہ آندھی کا زور شور چل رہا ہے۔ گلی میں سارا سال سیلن رہتی تھی اور نالیوں کے اوپر کئی فٹ تک گھروں کی دیواریں شورزدہ ہوگئی تھیں۔ لوہے کو زنگ لگ جانے سے جو بدبو آتی ہے، ویسی بدبو ہمیشہ گلیوں سے بسی رہتی تھی۔ بارش کے دنوں میں نالیوں میں موجود گندگی اچھل کر گلیوں کے فرش پر آجاتی اور ایک چپ چپا سا کیچڑ پورے فرش پر پھیل جاتا۔ کھلی جوتی، خاص طور پر ہوائی چپل پہن کر اس کیچڑ پر چلنا خاصا مشکل کام تھا۔ ہوائی چپل کیچڑ میں دھنس جاتی۔ اسے باہر کھینچنے کے لیے زور لگاتے ہی، ہوائی چپل کاسٹریپ، تلے سے باہر نکل آتا یا سرے سے ہی ٹوٹ جاتا۔ ایسے میں ہوائی چپل کوہاتھ میں پکڑے ، ننگے پاؤں چلنا ہی آرام دہ محسوس ہوتا۔ کیچڑ میں ننگے پاؤں چلنے سے ، پاؤں کے نیچے سے ’’چرر‘‘، چرر کی آوازیں نکلتیں۔ اس دوران مناسب یہی ہوتا کہ فرش کیطرف نہ دیکھا جائے۔۔۔ ممکن ہے آپ کا پاؤں انسانی فضلے کے اوپر ہو یا نالی میں تیرتی اشیاء کے باہم مل جانے سے بنے مرکب پر ہو۔ آپ جتنا بھی جی مضبوط کر لیں، اُبکائی روکنا مشکل ہوتا۔
سعید کو اس کیچڑ پر چلنے میں کوئی قباحت محسوس نہ ہوتی، وہ اپنے کینوس کے جوتے گھر پہ ہی چھوڑ دیتا اور بلاجھجک ، بارش میں نہاتا پھرتا۔سعید کے پاس صرف کینوس کے جوتے ہی تھے۔ انہیں دو برس پہلے خریدا گیا تھا۔ اُس وقت ان کا رنگ سفید تھا۔ اس وقت ان پر جب بھی گرد پڑتی یا سکول کی گراؤنڈ میں بھاگتے دوڑتے، گھاس کے نشان پڑ جاتے تو سعید فوراً انھیں گیلے کپڑے سے صاف کرتا۔ دھوپ میں سکھاتا اور پھر کمرۂ جماعت میں بلیک بورڈ کے نیچے چاک کے ٹکڑوں اور پاؤڈر کو جوتوں پر ملتا۔ نئے جوتوں کو سفید رکھنے کے لیے ہر قسم کی کوشش میں لگا رہتا۔ اس کو کسی نے بتایا تھا کہ جوتوں کو سفید رکھنے کے لیے، پانی جیسی ایک پالش ملتی ہے اور اس کے لگانے سے جوتے ایک دم نئے لگنے لگتے ہیں۔ اس نے اپنے ابو سے یہ پالش لانے کے لیے پیسے مانگے تو اس کے ابو نے اسے خوب ڈانٹا۔ آہستہ آہستہ، ان دو سالوں میں جوتوں کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ سفید رنگ تو دور کی بات، ان کا حلیہ بھی پہچاننا مشکل تھا۔ جوتوں کے اگلے ربڑ والے حصے کے ساتھ، کینوس میں سوراخ ہوگئے ہیں۔ سوراخ اس قدر بڑے تھے کہ پاؤں کی انگلیاں بخوبی دیکھی جا سکتی تھیں۔ جب یہ جوتے خریدے گئے تھے تو سعید کے پاؤں سے ایک نمبر بڑے تھے۔ سعید کے ابو نے ایک نمبر بڑا جوتا اس لیے خریدا تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ سعید بڑھتا ہوا بچہ ہے اور جوتے کافی دیر تک چلتے رہیں گے۔ مگر غربت میں بچے کہاں بڑھتے ہیں۔ جوتا پہلے ہی کھلا تھا۔ پھٹنے کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ اور بھی کھل گیا۔ وہ کبھی بھی جوتے کے تسمے باندھنے کا تکلف نہ کرتا تھا۔ استعمال کے لحاظ سے یہ بوٹ کم اور سلیپر زیادہ تھا۔ اس لیے ایڑھی کے ارد گرد جوتے کی دیوار دب گئی۔ سعید، پاؤں گھسیٹ کر چلتا تھا اور اس وجہ سے ایڑھی کے نیچے تلے کا ربڑ گھس گیا۔ اس جگہ پر تلے کی شکل آدھے چاند سی بن گئی تھی۔چلتے وقت پاؤں کی ایڑھی زمین پر رہتی تھی۔ کچھ عرصے کے بعد جب پاؤں کے پنجے کے نیچے، جوتے کا تلہ بھی گھس گیا تو پاؤں، چند حصوں کو چھوڑ کر زمین کو چھوتے رہتے تھے۔ سعید، جب گرمی کی تپتی دوپہروں میں سکول سے گھر لوٹتا، تو سڑکوں پر پڑا تار کول پگھلا ہوا ہوتا تھا۔ اس سے اس کے پاؤں جل جاتے اور وہ جلن دور کرنے کے لیے فوراً اپنے پاؤں، جوتوں سمیت سڑک کے ساتھ بہتے گندے نالے میں ڈبو دیتا۔ اس سے اسے بڑا سکون ملتا۔ ایک دن سعید اپنے جوتوں کی صورتحال کا جائزہ لے رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ تارکول سے اس کے جوتوں کے تلے پر موجود چھوٹے چھوٹے سوراخ بند ہوگئے ہیں۔ اس نے پھٹے پرانے کپڑوں پر تارکول لگا کر، انھیں تلے پر چپکانے کی کوشش کی۔ بظاہر لگا کہ کپڑے تلے کے ساتھ چپک گئے ہیں مگر چند قدم چلتے ہی یہ سب اتر گیا اور سعید کو پھر سے تپتی سڑک پر چلنا پڑا۔
سعید کی امی ، بہت دبلی پتلی تھیں۔ ان کی رنگت ہلدی کی طرح زرد رہتی تھی۔ وہ بہت کم بولتی تھیں اور اکثر لگتا تھا کہ جیسے وہ کسی الجھن کو سلجھانے میں مصروف ہیں۔ جب کبھی بھی سعید کے ابو، سعید کو ڈانٹتے یا مارپیٹ کرتے، وہ فوراً بیچ میں آکھڑی ہوتیں۔ سعید کے ابو کا خیال تھا کہ بچوں، خاص طور پر لڑکوں کو مارنے اور بہت شدت سے مارنے سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔ انھیں اپنے رعب میں رکھنا چاہیے اور یہی ایک طریقہ ہے ، جس سے وہ اچھے انسان بن سکتے ہیں۔ اس اصول کے تحت سعید کو اکثر مار پڑتی رہتی اور وہ اپنے ابو سے بہت ڈرتا رہتا تھا۔ سعید کو مار پڑنا ایک معمول تھا اور اس مار پیٹ میں اس کے ابو کے ہاتھ بہت بے قابو ہو جاتے تھے۔ وہ سعید کو اس کی غلطی کے مقابلے میں، سزا ہمیشہ زیادہ دیتے تھے۔ سزا دیتے وقت ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا اور ان کی شکل کسی درندے کی طرح خونخوار ہو جاتی۔ سعید کو ان کی بگڑی ہوئی شکل سے بہت خوف آتا تھا۔ اسی خونحوار صورتحال میں ، سعید کی امی، سعید کو بچانے کے لیے دوڑتیں اور اسے اپنے پیچھے چھپا لیتیں۔ ایسے میں وہ گالیوں کے ساتھ ساتھ کئی ایک تھپڑ بھی کھا لیتیں۔ اسی مار پیٹ کے دوران، ایک دن سعید کی امی کو بہت زور کی کھانسی آئی۔ ان کا سانس الجھ رہا تھا۔ وہ ادھ موئی سی، اپنے پاؤں پر بیٹھ گئیں۔ ان کا سانس ٹھیک نہیں ہو رہا تھا۔ وہ کھانس رہی تھیں اور تھوک اگل رہی تھیں۔ اچانک انھیں قے آگئی۔ قے میں خون تھا۔ سعید کے ابو سخت گھبرا گئے۔ ان کا خیال تھا کہ شاید مار پیٹ کے دوران، انھیں چوٹ لگ گئی ہو۔ انھوں نے فوراً، انھیں پانی کا گلاس دیا۔ ماں نے ایک گھونٹ لیا اور وہیں زمین پر لیٹ گئیں۔ سعید اور اس کی بہنیں ماں کی اس حالت کو دیکھ کر پہلے تو حیران ہوئے اور پھر اونچی اونچی آواز میں رونے لگے۔ کوئی ماں کے پہلو سے جا چپکا، تو کوئی ماں کی ٹانگیں پکڑ کر بیٹھ گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ سعید کی ماں کو پھیپڑوں کی بیماری لگ گئی۔ سعید کو اس بیماری کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا۔ اسے بس یہ اندازہ ہو گیا کہ اس بیماری سے اس کی ماں مر جائے گی۔ یہ معلوم ہونے کے بعد سعید جیسا شرارتی اور بے فکرا بچہ ایک دم بجھ سا گیا۔ اب کوئی لمحہ ایسا نہ تھا، جب وہ اس غم سے لاتعلق رہا ہو۔ اس نے اپنے خیالات میں ماں کے مرنے کے بعد کی دنیا کو محسوس کرنا شروع کر دیا۔ اس کا دل لرز جاتا۔ وہ جہاں بھی ہوتا، سب کو چھوڑ چھاڑ ، اپنے خیالات میں گم ہو جاتا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ وہ فوراً گھر کی طرف بھاگتا تاکہ یقین کر لے کہ اس کی ماں ابھی زندہ ہے۔ وہ گھر پہنچتا، ماں کو دیکھتا، اس کے دل میں خوشی کا چھوٹا سا دیا ٹمٹما اٹھتا۔ ماں کو زندہ دیکھنا ہی، اب اس کی سب سے بڑی خوشی تھی۔
سعید کے محلے میں ایک کنواں تھا۔ اس کنویں کے ساتھ ایک اونچا چبوترہ تھا، جس پر مشک رکھ کر ماشکی پانی بھرتا تھا۔ ماشکی چھوٹے قد کا ادھیڑ عمر شخص تھا۔ اس کے جسم پر گوشت نہ ہونے کے برابر تھا۔ ہڈیوں پر صرف چمڑا تھا اور رنگت کالی تھی۔ وہ پنڈلیوں سے اوپر دھوتی باندھتا تھا اور اوپر جسم پر سلوکا ہوتا، جو مشک کے ساتھ رگڑ کھا کھا کر کپڑے سے زیادہ چمڑے کا محسوس ہوتا تھا۔ ماشکی کے ہاتھ اور پنڈلیاں پانی میں زیادہ دیر رہنے کے باعث انسانی جلد کے بجائے رندی ہوئی کالی شیشم کی لکڑی کی طرح معلوم ہوتی تھیں۔ سعید اکثر کنویں کے پاس سے گزرتے ہوئے ماشکی کو مشک میں پانی بھرتے دیکھتا رہتا۔ ماشکی کنویں سے پانی نکالتے وقت کوئی گیت گنگناتا رہتا تھا۔ سعید کو ماشکی کا یہ گیت اچھا لگتا تھا۔ اسے ماشکی بھی اچھا لگتا تھا۔ ماشکی ہر وقت اپنے کام میں مگن رہتا اور بہت کم بولتا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ ہر وقت کھلی رہتی تھی۔ سعید کا ہمیشہ دل چاہتا کہ وہ ماشکی سے بات کرے۔ وہ اس سے مشک کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ خود بھی مشک اٹھائے اور ماشکی کی طرح بازار میں چھڑکاؤ کرے۔ مگر سعید کو ماشکی کی خاموشی کی وجہ سے جرأت نہ ہوتی کہ وہ اس سے کوئی بات کرے۔ ماشکی انھی گلیوں میں ایک گھر کی بیٹھک میں رہتا تھا۔ اس کی نہ کوئی بیوی تھی اور نہ بچے۔
ایک شام ماشکی کی بیٹھک کے سامنے، سعید نے چند لوگ جمع ہوئے دیکھے۔ وہ دوڑتا ہوا، وہاں پہنچا۔ سعید نے دیکھا کہ ماشکی سفید پکڑے میں لیٹا ہوا تھا۔ اس کے ناک میں روئی ٹھسی ہوئی تھی۔ سفید کپڑے کا ایک ٹکڑا اس کے منہ پر سر کے اوپر سے لے کر ٹھوڑی تک بندھا ہوا تھا۔ منہ کے ارد گرد گلاب کے سرخ پھول بکھرے ہوئے تھے۔۔۔ سعید کو ماشکی کا اس طرح لیٹنا عجیب سا لگا۔ وہ تو ہمیشہ، اسے پانی بھرتے یا مشک اٹھائے، تھوڑا سا ایک طرف جھکا، چلتا ہوا دیکھا کرتا تھا۔ چند لوگ جو اس جگہ پر موجود تھے، خاموش تھے اور ان کے منہ لٹکے ہوئے تھے۔ سعید چارپائی کے قریب چلا آیا۔ اسے گلاب کے پھولوں کی خوشبو آئی۔ اس کے علاوہ کوئی اور بدبونما مہک تھی جو پورے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔ سعید نے بڑے قریب سے ماشکی کا چہرہ دیکھا۔ اس پر اب بھی ہلکی سی مسکراہٹ تھی مگر ناک میں ٹھسی روئی اور چہرے پر بندھی سفید کپڑے کی پٹی اسے عجیب سے زیادہ مزاحیہ سی لگ رہی تھی۔ وہ حیران تھا کہ ماشکی اس طرح کیوں لیٹا ہوا ہے۔ کچھ دیر کے بعد لوگوں نے ماشکی کو چارپائی سے اٹھایا اور ایک تختے کے ساتھ باندھ دیا۔ تختے کے ساتھ دونوں طرف بانس بندھے ہوئے تھے اور انھی بانسوں کے سہارے چار لوگوں نے تختے کو کاندھوں پر اٹھا لیا۔ سعید سوچ رہا تھا کہ ماشکی کو مزا آرہا ہو گا۔۔۔ کیونکہ لوگ اسے جھولے دے رہے ہیں۔ اسے ماشکی پر بڑا رشک آیا۔ خاص طور پر اتنے زیادہ لوگوں کا ماشکی کے ساتھ چلنا اور جھولے دینا، اسے اچھا لگا۔ ماشکی کو تختے پر بازار میں لایا گیا۔ وہاں کھٹولے جیسی چارپائی پہلے سے موجود تھی۔ ماشکی کو تختے سے اتار کر کھٹولے میں ڈال دیا گیا اور اس کے اوپر ہرے رنگ کی نقش و نگار سے بھرپور ریشمی چادر ڈال دی گئی۔ لوگوں نے ماشکی کے کھٹولے کو اٹھایا اور بازار میں چلنے لگے۔
سعید بھی ان لوگوں کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ آہستہ آہستہ لوگوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ وہ ایک کھلی جگہ پر آگئے۔ وہاں کھٹولے کے پیچھے لوگوں نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور پھر کھٹولے کو اٹھا کر چل پڑے۔ سعید کو لگ رہا تھا کہ اس دن ماشکی یقیناًسب سے اہم شخص ہو گیا تھا۔ کھٹولے کو، زمین میں نکالے گئے کھڈے کے پاس رکھ دیا گیا۔ جب لوگوں نے ماشکی کو اس کھڈے میں ڈال کر اس پر مٹی ڈالنا شروع کر دی تو سعید کو بہت بُرا لگا۔ اس کو محسوس ہوا جیسے ماشکی کے ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ تھوڑی دیر میں ماشکی کے اوپر پڑا سفید لباس غائب ہو گیا اور اس جگہ پر مٹی کا ڈھیر بن گیا۔ سعید کے حلق میں جیسے کوئی سخت شئے پھنس گئی۔ اس کی ٹانگوں میں جیسے طاقت ختم ہو گئی ہو۔ اسے محسوس ہوا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔۔۔ اس نے ایسا واقعہ پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ کسی کے مرنے اور دفن ہونے کا مشاہدہ کیا تھا۔ وہ سخت خوفزدہ تھا۔ اسے ماں کا خیال آیا۔ وہ اپنے خیالوں میں ماں کو مرا ہوا دیکھ رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کی ماں سفید کفن میں ملبوس ہے، اس کے نتھنوں میں روئی ٹھسی ہوئی ہے اور سر سے ٹھوڑی تک ایک پٹی بندھی ہوئی ہے۔ لوگوں نے اسے قبر میں ڈال کر اوپر مٹی کی ڈھیری بنا دی۔ اچانک سعید کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ندیاں بہنے لگیں۔ آہستہ آہستہ اس کے حلق سے ایک درد ناک آواز بھی نکل رہی تھی۔ اس نے بھاگنا شروع کر دیا۔ اس کو دیکھ کر ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ بازار میں اپنی ماں سے بچھڑ گیا ہو اور اسے راستہ سجھائی نہ دے رہا ہو۔ وہ بھاگتا ہوا گھر پہنچا۔ وہ گھر میں د اخل ہوا۔ اس نے چوری چوری کھانے کے چوکے کی طرف دیکھا۔ ماں وہاں نہ تھی۔ اتنے میں اسے ماں کے لباس کا ایک حصہ کمرے کے دروازے میں نظر آیا۔ وہ ایک دم خوش ہو گیا۔ وہ نل کے پاس آیا اور منہ دھونے لگا تاکہ اس کے آنسوؤں کی چوری پکڑی نہ جائے۔
ماں کے مر جانے کے اندیشے کے باعث سعید کی زندگی کی رفتار ایک دم کم ہوگئی تھی۔ ایسے ہی جیسے بیٹری سے چلنے والا کھلونا، بیٹری کی طاقت کم ہو جانے کے بعد اچھل کود تو کجا، صرف بازو کو بھی مشکل سے حرکت میں لا سکے۔ وہ ہر شام بڑے بازار کے باہر بنے ایک بڑے دروازے کے پاس روٹیاں بیچنے والے سے روٹیاں لایا کرتا تھا۔ پہلے وہ اپنے آپ کو گاڑی بنائے، بُھوں بُھوں کرتا، ہر مو ڑ پر ’’پی پی‘‘ کرتا، چند منٹوں میں بڑے بازار تک پہنچ جاتا تھا۔ اب گاڑی بننا اس کو اچھا نہ لگتا تھا۔ وہ پاؤں گھسیٹتا وہاں پہنچتا اور دروازے کے پاس ایک پھل کی دکان کے پاس فروٹ کے خالی کھوکھوں پر بیٹھ جاتا۔ اس وقت اندھیرا پھیل چکا ہوتا تھا اور بازار میں لوگوں کی آمدورفت بہت کم ہو چکی ہوتی تھی۔ دروازے کے باہر ایک شخص ایک چنگیر میں سخت گندے کپڑے میں باریک باریک روٹیاں رکھے، آواز لگاتا رہتا تھا:
’’روٹیاں لے لو، ایک روپے کی دس ۔۔۔ روٹیاں۔۔۔‘‘
جوں جوں وقت گزرتا رہتا، روٹیوں کے گاہک کم ہو جاتے۔ آہستہ آہستہ سڑک سنسان ہو جاتی۔ اس دوران سعید پھل کی دکان کے پاس بیٹھا، دکان میں سجے طرح طرح کے پھل دیکھتا رہتا۔ ان پھلوں میں سے صرف کیلا ہی اس نے کھایا تھا۔ باقی پھلوں کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے، اسے بالکل معلوم نہ تھا۔ اس نے دکان میں پڑے انار دیکھے، ان کے ساتھ گرمے پڑے ہوئے تھے۔ انگور تھے۔۔۔ سعید نے کئی دفعہ سوچا کہ وہ روٹیوں کے پیسوں سے انار لے لے مگر باپ کے خوف بلکہ اس خیال سے اس کی ماں اور بہنیں بھوکی رہ جائیں گی، وہ اپنے تصور میں انار کا کوئی فرضی ذائقہ محسوس کرکے انار کھانے کے معاملے کو بند کر دیتا۔ ایک دن اس نے پھل کے کھوکھوں کے پاس ایک انار پڑا دیکھا۔ اس نے سوچا شاید انار غلطی سے نیچے گر گیا ہے۔ اس نے نظریں بچا کر اسے اٹھایا اور روٹیوں کے کپڑے میں چھپا لیا۔ گھر جاتے ہوئے، اس نے کھمبے کی روشنی کے نیچے کھڑا ہو کر اسے نکالا۔ یہ ایک طرف سے بالکل گلا سڑا تھا۔ اس نے صاف حصے کو آہستہ آہستہ چھیلا اور اس میں موجود ایک ایک دانہ کھا لیا۔ وہ دانوں سے رس چوستا اور بیجوں کو نگلنے یا تھوکنے کی بجائے، انھیں خوب چباتا اور ملیدہ سا بنا کر پھر نگل لیتا۔ اس نے کچھ دانے بہن کرن کے لیے بھی رکھ لیے۔
عشاء کی اذان کے وقت روٹیاں بیچنے والا آواز لگاتا، ’’ایک روپے کی سولہ روٹیاں لے لو۔۔۔ روٹیاں۔۔۔ سولہ۔۔۔‘‘
سعید شام ہونے سے لے کر عشاء تک اس آواز کا انتظار کرتا تھا۔ جونہی یہ آواز اس کے کانوں میں پڑتی، وہ بھاگ کر بیچنے والے کے سامنے آکھڑا ہوتا۔ اسے ایک روپیہ تھما دیتا اور سولہ روٹیاں لے کر گھر کی طرف چل پڑتا۔ ان روٹیوں میں سے ایک آدھ وہ راستے میں ہی کھا لیتا۔ دو چار روٹیاں رات کے کھانے سے بچ جاتیں اور انھیں صبح ناشتے میں کھا لیا جاتا۔
سعید کے ابو، مذہبی تعلیم دینے والے مدرسے میں پڑھاتے تھے۔ وہ درمیانے قد کے دبلے پتلے انسان تھے۔ سر پر سفید صافہ باندھتے اور ہمیشہ شلوار قمیص ہی پہنتے تھے۔ ان کی داڑھی اگرچہ لمبی تھی مگر تراشی ہوئی ہوتی تھی۔ وہ شہر سے دور، آٹھ دس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک گاؤں میں پلے بڑھے تھے۔ وہ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور ان کے والد گاؤں میں دیہاڑی دار مزدور تھے۔ ان کے پانچ بیٹے اور چھ بیٹیاں تھیں۔ بہن بھائیوں میں سعید کے والد سب سے چھوٹے تھے۔ جیسے جیسے بہن بھائی بڑے ہوتے گئے، وہ باپ کے ساتھ مزدوری پر جانے لگے۔ اس میں لڑکے یا لڑکی میں کوئی تفریق نہ تھی۔ اس سے غربت میں کسی قدر کمی ہوگئی۔ بڑھاپے میں سعید کے دادا نے مزدوری کرنا چھوڑ دیا اور وہ زیادہ وقت نماز پڑھنے اور لوگوں کے ساتھ میل جول میں گزارنے لگے۔ نماز پڑھنے کے لیے، مسجد میں جاتے اور مولوی صاحب اور دیگر ہم عمر نمازیوں کے ساتھ مذہبی معاملات پر گفتگو کرتے رہتے۔ اس سے ان میں مذہبی تعلیم میں خاص لگاؤ پیدا ہو گیا۔ وہ مولوی صاحب کے خطبے سے سنی باتوں کی اپنی تشریح کرتے اور اس کے مطابق لوگوں کے اچھا یا بُرا ہونے کا فیصلہ کرتے۔ اکثر لوگ ان سے بحث مباحثہ کرنے سے کتراتے تھے اور چپ چاپ ان کی باتیں سن کر الگ ہو جاتے ۔ سعید کے دادا کا خیال تھا کہ لوگوں کو خواہ انھیں ضرورت ہو یا نہ ہو، اچھی باتوں کی تلقین کرتے رہنا چاہیے۔ اسے وہ ثواب کا کام سمجھتے تھے۔ اگر غربت کا مسئلہ نہ ہوتا تو وہ اپنی جوانی میں مولوی بننا ضرور پسند کرتے مگر ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ آخر انھوں نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو مولوی بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ سعید کے ابو کو گاؤں کو شہر سے ملانے والی سڑک پر بنے ایک مدرسے میں داخل کروا دیا گیا۔ اس مدرسے میں وہ دن رات رہتے اور ہفتے میں صرف اتوار کی صبح کو انھیں گھر والوں سے ملنے کی اجازت تھی۔ سعید کے ابو نے بڑے سخت ماحول میں، اسی مدرسے سے تعلیم حاصل کر کے، یہیں ایک استاد کے طور پر کام شروع کر دیا۔ سنا ہے کہ بچپن میں وہ بڑے شرارتی تھے اور گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے سب کے لاڈلے تھے۔ وہ مدرسے میں داخل نہیں ہونا چاہتے تھے۔ مگر باپ کی مار پیٹ کے سامنے انھیں جھکنا پڑا۔ بعد میں انھوں نے مزدوری کی بجائے پڑھانے کے پیشے کو ایک بہتر معاملہ سمجھا اور پھر پڑھائی میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ مدرسے میں داخلے کے بعد ان میں ایک خاص تبدیلی یہ آئی کہ وہ خاموش رہنے لگے اور بات بے بات غصے میں آجاتے تھے۔ اس کی وجہ مدرسے میں ملنے والی سزائیں تھیں۔ان سزاؤں سے وہ بڑی بے عزتی محسو س کرتے۔ اگروہ کوئی آیت یا حدیث صحیح طور پر نہ سناتے تو استاد، انھیں کئی گھنٹے ایک ٹانگ پر کھڑا رہنے کی سزاد یتے۔ ان کے پاؤں سوج جاتے۔ انھوں نے کئی دفعہ اس مدرسے سے بھاگنے کا بھی سوچا مگر وہ یہاں سے بھاگ کر کہاں جاتے۔ یہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایسا سوچنا ترک کر دیتے۔ انھیں صبح تین بجے اٹھا دیا جاتا۔ دوڑنے کے بعد ٹھنڈے پانی سے غسل کیا جاتا اور پھر نماز کی تیاری۔۔۔ اور پھر عشاء کی نماز کی ادائیگی تک کام چلتا رہا۔
سعید کے ابو نے کچھ سال اپنے گاؤں کے مدرسے میں پڑھایا۔ مگر بہتر روزگار کے لیے شہر چلے آئے۔ یہاں انھیں صرف اتنی تنخواہ ملتی کہ جس سے بمشکل گھر کا کرایہ اور روکھی سوکھی روٹی میسر آ سکتی تھی۔ سعید کی امی کی بیماری کے بعد، وہ جب بھی چارپائی پر لیٹتے، ان کا ایک پاؤں ہلتا رہتا۔ ایسا پہلے نہ ہوتا تھا۔ اب انھوں نے سعید کی امی کے ساتھ جھگڑنا بھی بند کر دیا تھا۔ سعید کی امی انھیں دلاسہ دیتی تو وہ کہتے:
’’اﷲ تو ہمیں پیدا کر کے ہی بھول گیا ہے۔۔۔ پہلے غربت اور اب ایسا مرض۔۔۔‘‘
2
سعید کی امی نے سعید کو چند آنے دئیے۔ اسے چھوٹی بہن کرن کے جوتے مرمت کروانے اور ڈیڑھ پاؤ آلو لانے کا کہا۔ سعید کو بازار جانا اچھا لگتا تھا۔ اس نے ملیشئے کے ایک میلے کچیلے تھیلے میں کرن کے جوتے ڈالے اور گلیوں میں بھاگنا شروع کر دیا۔ پھر ایک ٹانگ پر اٹھکیلیاں کرنے لگا۔ اسے راستے میں پڑی ایک چھڑی نظر آئی۔ اسے اٹھایا اور اسے گھروں کی کھڑکیوں پر لگی سلاخوں کے اوپر سے گزارتا ہوا بھاگنے لگا۔ کھڑکیوں کی سیدھی سلاخوں پر جب چھڑی گزرتی تو ’’ٹک ٹک‘‘ کی ایک مسلسل آواز نکلتی۔ سعیدتیز بھاگتا تو ’’ٹک ٹک‘‘ کی آواز تیز ہو جاتی۔ اس سے سعید کو بڑا مزا آرہا تھا۔ سعید گلیوں میں سے بھاگتا ہوا، ایک چوک میں آگیا۔ یہاں سے بازار شروع ہوتا تھا۔ اس چوک میں وہ اپنے آپ کو ایک گاڑی میں تبدیل کر لیتا۔ ’’بھوں ، بھوں‘‘ ۔۔۔ منہ سے انجن کی آواز نکالتا۔ ہاتھوں کو سٹیئرنگ کی طرح اِدھر اُدھر گھماتا اور گردن اور اُوپر والے دھڑ کو ایک طر ف جھکا کر مڑ جاتا۔ وقفے وقفے سے ’’پی پی‘‘ کی آواز نکال کر ہارن بجاتا ہوا، سعید اپنی گاڑی سمیت موچی کی دکان پر آپہنچا۔
سعید نے تھیلے سے جوتے نکالے اور موچی کے سپرد کردئیے۔
’’ان جوتوں کی مرمت کر دو۔۔۔‘‘ سعید نے کہا۔
موچی نے جوتوں کو اِدھر اُدھر پلٹ کر دیکھا اور کہنے لگا:
’’کس حصے کی مرمت کروں۔۔۔؟ یہ تو سارے کا سارا پھٹ گیا ہے۔۔۔‘‘
’’آپ اس کا تلہ سی دو۔۔۔‘‘
’’آٹھ آنے لوں گا۔۔۔!‘‘
’’امی نے صرف چونی دی ہے۔۔۔ باقی پیسوں کے آلو لینے ہیں۔۔۔‘‘
موچی نے چونی میں کام کرنے سے انکار کر دیا اور جوتا سعید کے حوالے کر دیا۔ سعید گھر جانے کے لیے مڑا ہی تھا کہ موچی نے کچھ سوچ کر اسے رکنے کے لیے کہا۔ جوتا سعید سے لیا، پاؤں میں دابا اور اس کی سلائی کرنے لگا۔ سعید، موچی کے سامنے اپنے پاؤں پر بیٹھ گیا۔ اس کی پشت بازار میں گزرتے لوگوں کی طرف تھی۔ بار بار کوئی شخص اس کی کمر سے چھو جاتا اور وہ گرتے گرتے سنبھل جاتا۔ ایک دفعہ تو وہ موچی کے اوپر گر ہی گیا۔ موچی نے اسے نالی کی طرف بیٹھنے کا کہا۔ نالی کے ساتھ بیٹھنا مشکل تھا کیونکہ گندگی، نالی سے ابل کر بازار کے فرش کے ساتھ ساتھ پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے موچی کے بوریہ پر پڑے پرانے ہوائی چپل اٹھائے اور ان کے اوپر ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گیا۔ وہ موچی کے بوریہ پر پڑی ہر چیز کو بغور دیکھ رہا تھا اور مسلسل ان کے بارے میں سوال کرتا جا رہا تھا۔ اسے لوہے کا بنا، مختلف شکلوں والا اوزار خاص طور پر اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ اس نے اس کے ہر رخ اور شکل پر مسلسل انگلی پھیرنا شروع کر دی۔ پھر اسے اٹھا کر اس کا رخ بدلا اور بوریے پر رکھ دیا۔ یہ بڑے اچھے طریقے سے زمین پر ٹک گیا۔ اس نے پھر رخ بدلا اور پھر زمین پر رکھ دیا۔ یہ پھر زمین پر ٹک گیا۔ سعید حیران ہو رہاتھا اور اسے مزا بھی آرہا تھا۔ اس نے موچی سے اس کے بارے میں پوچھا۔ موچی نے اس اوزار کی ہر شکل کے بارے میں بتایا۔۔۔ ’’یہ جوتوں کے تلے پر کیل لگانے کے لیے استعمال ہوتی ہے، اس حصے پر ایڑھی رکھ کر اس پر کیل لگاتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔۔۔‘‘ اب سعید کا دھیان موچی کے سلائی کرنے کی طرف چلا گیا۔ موچی ایک سوئے کو جوتے کے تلے میں چبھوتا اور پھر اس کے باہر نکلنے والے سرے پر دھاگے کو گول کرکے اڑس دیتا۔ پھر سوأ اسی انداز میں دھاگے کو کھینچ لیتا۔ یہ کام بڑی مہارت اور صفائی سے ہو رہا تھا۔ سعید کو لگا، موچی بننا ایسا معمولی کام نہیں، اس کے لیے بڑی محنت کرنا پڑتی ہو گی۔ اس نے تعریفی نگاہوں سے موچی کی طرف دیکھا۔ تھوڑی دیر میں جب دھاگہ کم ہو جاتا تو موچی اسے ایک گچھے سے نکال کر اور لمبا کر لیتا اور اس پر ایک مٹیالی سی ڈلی پھیرتا۔ سعید کو یہ کام بڑا انوکھا اور دلچسپ لگا۔ موچی نے بوریے پر رکھے برش کو اٹھایا اور اسے اپنے کینوس کے جوتے پر رگڑا۔ برش پر لگی کالی پالش کی ہلکی سہ تہہ جوتے پر پھیل گئی۔ بے رنگ جوتے پر جب کالی پالش لگی تو یہ کسی قدر بہتر لگنے لگا۔ سعید نے فوراً سوچا کہ اسے جوتے کا رنگ سیاہ کر لینا چاہیے۔ اسے اس کا بدرنگ ہونا اچھا نہ لگتا تھا۔ اتنے میں موچی نے برش اس کے ہاتھ سے کھینچا اور کہنے لگا:
’’تم سے آرام سے نہیں بیٹھا جاتا۔۔۔ چھوڑو اسے، یہ خراب ہو جائے گا۔۔۔‘‘ سعید نے شرمندگی سی محسوس کی اور ہاتھوں کو اپنے دونوں زانوؤں کے ارد گرد لپیٹ لیا۔ موچی نے نہ صرف، کرن کے جوتے سی دیے ، اوپر والے حصے پر جہاں جہاں سوراخ تھے،و ہاں چھوٹے بڑے چمڑے کے پیوند بھی لگادئیے۔ جوتوں میں ہلکی ہلکی چمک تو آگئی مگر جوتے کی نوک اور ایڑھی پر جہاں چمڑا گھس چکا تھا، زیادہ نمایاں ہو گیا۔ پھر بھی چند منٹ پہلے ان کی جو صورتحال تھی،اس میں بہت بڑی تبدیلی آگئی تھی۔ سعید نے چپکے سے نظر جھکا کر اپنے جوتے دیکھے، اس کو کرن کے جوتے زیادہ اچھے لگے۔
سعید نے کرن کا جوتا تھیلے میں ڈالا۔ تھیلا کاندھے پر ڈالا اور چند قدم کے فاصلے پر موجود سبزی کی دکان کے سامنے آکھڑا ہوا۔ اس نے سبزی کی دکان پر ایک نظر دوڑائی۔ اس کا دل خوش ہو گیا۔ ہری ہری سبزیاں اور ان کے بیچ میں ٹماٹروں کی ٹوکری، بہت اچھی لگ رہی تھی۔ سعید کو سبزیوں کی سبھی دکانیں ہمیشہ سے ہی اچھی لگتی تھیں۔ حالانکہ مٹھائی کی دکانوں کو بھی رنگ برنگ کی مٹھائیوں سے تھالوں میں سجایا جاتا تھا، مگر سعید کو ہمیشہ سبزی اور لوہے کی دکانیں اچھی لگتی تھیں۔ لوہے کی دکانوں پر طرح طرح کے اوزار مختلف اشکال کی اشیاء اسے اپنی طرف کھینچتی تھیں اور وہ ان میں سے ہر ایک کو اپنے ہاتھ میں لے کر استعمال کرنا چاہتا تھا۔
سعید نے بازار کے فرش پر پڑے آلوؤں کے ایک بڑے ٹوکرے پر جھکتے ہوئے، سبزی والے سے ڈیڑھ پاؤ آلو دینے کا کہا۔ دکاندار نے اسے اس بڑے ٹوکرے سے آلو لینے کی بجائے، دکان کے اندر جانے والے راستے پرپڑے ٹوکرے میں سے آلو لینے کا کہا۔ اس ٹوکرے میں کئی دنوں کے پرانے، ڈھیلے ڈھالے اور گلے سڑے آلو پڑے تھے۔ سعید دکان کے اندر بڑھا اور ٹوکرے پر جھک کر آلو چننے لگا۔ تھیلا، اس کے کندھے سے اتر کر بازو میں گزر کر ٹوکرے میں آگرا۔ اس نے تھیلا، پھر کندھے پر رکھا اور آلو چننے لگا۔ تھیلا پھر، بازو میں سے گزرتا ہوا، ٹوکرے میں آگرا۔ تنگ آکر سعید نے تھیلا، ٹوکرے کے ساتھ بازار کی طرف پڑے لکڑی کے خالی کھوکھے پر رکھ دیا اور اطمینان سے آلو چننے لگا۔ اکثر آلو گلے ہوئے تھے اور ہاتھ میں لیتے ہی پچک رہے تھے۔ کچھ آلو اس قدر ڈھیلے ہو چکے تھے کہ آلو کم اور ربڑ کے گیند زیادہ لگ رہے تھے۔ کچھ آلوؤں کی آنکھیں پھوٹنا شروع ہو چکی تھیں۔ کافی محنت کے بعدسعید نے کچھ آلوؤں کو نسبتاً بہتر سمجھا اور انھیں الگ کر کے ترازو میں ڈال دیا۔ دکاندار نے بہت سے آلو ترازو سے نکال کر واپس ٹوکرے میں پھینک دئیے۔
’’لینے تو ڈیڑھ پاؤ ہیں اور ڈال دئیے ہیں، دو کلو۔۔۔!‘‘ دکاندار نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔ سعید نے دکاندار کو پیسے دیے اور آلو لے کر، واپسی کے لیے مڑا ہی تھا کہ اسے کرن کے جوتوں کا خیال آیا۔ وہ فوراً لکڑی کے کھوکھے کی طرف لپکا۔ وہاں جوتوں کا تھیلا نہ تھا۔ سعید کو ایک دم چکر سا آگیا۔ اس نے کھوکھے کے نیچے دیکھا۔ سبزیوں کی ٹوکریوں کے نیچے خالی جگہوں پر دیکھا۔۔۔ جوتے کہیں نہ تھے۔ اس نے دکاندار سے جوتوں کے بارے میں پوچھا۔ دکاندار اس وقت گاہکوں کے ساتھ مصروف تھا۔ اس نے ڈانٹنے کے لہجے میں کہا:
’’میں کوئی، تمھارے جوتوں کی پہرے داری کر رہا ہوں۔۔۔ بھاگو، یہاں سے۔۔۔ آجاتے ہیں، وقت ضائع کرنے۔۔۔‘‘
سعید نے آلوؤں کا پلاسٹک والا تھیلا اٹھایا اور گھر کی طرف مڑتے ہوئے ایک دفعہ پھر لکڑی کے کھوکھے اور اس کے اردگرد زمین پر نظر دوڑائی۔۔۔
3
سعید پریشان ہونے سے زیادہ حیران تھا کہ جوتوں والا تھیلا آخر گیا کہاں؟ وہ یہی سوچتا ہوا، بہت دھیرے دھیرے چل رہا تھا۔ وہ بازار میںآتے جاتے لوگوں کے ہاتھوں میں تھیلوں کو بغور دیکھ رہا تھا۔ اسے ملیشئے کے کئی تھیلے نظر آئے۔ وہ ان کو پکڑنے کا سوچتا مگر ان تھیلوں کی تنیاں، اس کے تھیلے کی طرح سفید نہ تھیں۔ وہ پھر رکجاتا۔ یہ تھیلا، سعید کی ماں نے اس کے سکول کی یونیفارم سے بچنے والے کپڑے سے بنایا تھا۔ تھیلا تو بن گیا مگر اس کو پکڑنے کے لیے تنیوں کے لیے ملیشیانہ بچا۔ یہ تنیاں انھوں نے ابو کی پرانی قمیص سے کپڑا نکال کر بنا دی تھیں۔
سعید سارا راستہ سوچتا رہا کہ اگر اس کے ابو کو پتہ چل گیا تو اس کی خوب پٹائی ہوگی۔ اور پھر یہ بھی کہ کرن جوتوں کے بغیر سکول کیسے جائے گی۔ اس کے ذہن میں الجھنوں کا ایک طوفان برپا تھا۔ مار کے خوف کے ساتھ ہی، اسے ماں کے ابو سے چھڑانے اور ان کی خون کی الٹی اور پھر ماشکی کے مرنے کے مناظر ابھرنے لگے۔ وہ اپنے دل میں دکھ سا محسوس کرنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ اس نے بھیگی آنکھوں سے بازار میں آتے جاتے لوگوں کو دیکھا۔۔۔ یہ جانا پہچانا بازار، اسے اجنبی سا لگنے لگا۔ اس اجنبیت میں اسے ایک پہچانا سا چہرہ نظر آیا۔ اسے دُور، لوگوں کے بیچ اپنے ابو کا چہرہ نظر آیا۔ اسے خدشہ محسوس ہوا شاید کہ اس کے ابو کو جوتوں کے گم ہو جانے کا معلوم ہو گیا ہے۔ اسے شرم سی محسوس ہو رہی تھی کہ اب لوگوں کے سامنے اسے ابو سے مار کھانا پڑے گی۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ اپنے معمول کی طرح نہ توبھاگ رہا ہے اور نہ ہی گاڑی چلا رہا ہے۔ اس نے ایسا کرنا ضروری سمجھا تاکہ اس کے ا بو کو کسی قسم کا شک نہ گزرے۔ اس نے ایک ٹانگ پر اچھلنے کی کوشش کی۔ اسے اس کا بالکل مزانہ آیا بلکہ اسے لگا کہ اس کی ٹانگیں خاصی وزنی ہوچکی ہیں۔ وہ جست نہ لگا سکا۔ اس نے بڑا فرمانبردار بچہ بننے کے لیے اپنی آنکھیں نیچی کر لیں۔ اتنے میں اسے آواز سنائی دی:
’’اوئے نکو، تو ابھی تک بازار میں پھر رہے ہو۔۔۔ شام ہونے والی ہے ، جلدی گھر جاؤ۔۔۔ تمھاری امی انتظار کر رہی ہے۔۔۔‘‘
سعید کو اپنی کمر پر اپنے ابو کا ہاتھ پھسلتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے صرف ’’جی‘‘ کہا اور دوڑ لگا دی۔
4
’’آج میں ایکسرے لے کر بڑے ہسپتال گیا تھا۔ ڈاکٹر نے ایک مہینے کی دوائی دی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ تمھارے برتن بھی الگ کر دئیے جائیں۔۔۔ یہ چھوت کی بیماری ہے اور دوسروں کو بھی لگ سکتی ہے۔‘‘ سعید کے ابو نے کہا۔ وہ سعید کی امی اور اس کی سب سے چھوٹی بہن کے ساتھ گھر کے چھوٹے سے صحن میں بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ صحن کے کونے میں ایک غسل خانہ اور پائخانہ تھا۔ پائخانہ میں فلش وغیرہ نہیں تھا اور اس کی صفائی ہر روز ایک عورت آکر کرتی تھی۔ سارا دن اس میں پڑے فضلے کی بُو گھر میں تعفن پھیلاتی رہتی تھی۔ شروع شروع میں ، جب سعید کے گھر والے یہاں آئے تو انھیں یہ بدبو بہت ناگوار لگتی تھی۔ وہ دیہات کے عادی تھے، جہاں پائخانہ وغیرہ کھلے کھیتوں میں کیا جاتا تھا۔ گھروں میں بدبو کا سوال ہی نہ تھا۔ البتہ دیہات کے درمیان میں گھروں سے نکلنے والے گندے پانی کے جوہڑ کے اوپر سے گزرنے والی ہوا، بدبو کا بھبھکا ضرور گھروں میں لے آتی تھی۔ چند ماہ میں سب گھر والے ، پائخانے سے اٹھنے والی بدبو کے عادی ہوگئے تھے۔
’’دوائی کے لیے پیسے کہاں سے لیے۔۔۔؟‘‘ سعید کی امی نے پوچھا۔
’’کچھ بندوبست ہو گیا تھا۔۔۔ تم اس کی فکر نہ کرو، بس باقاعدگی سے دوا لیتی رہو۔ اﷲ کرم کرے گا۔‘‘ سعید کے ابو نے کہا اور خاموش ہو کر نیچے فرش کی طرف دیکھنے لگے۔ سعید کی امی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ آخری الفاظ بولتے وقت ان کی آواز بھراگئی تھی۔ سعید کے ابو نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا : ’’بس ، تمھیں اپنا خیال رکھنا چاہیے، ڈاکٹر کہہ رہا تھا کہ تمھاری خوراک بھی اچھی ہونی چاہیے۔ اچھی خوراک ، دوا کی طرح ہی ضروری ہے۔۔۔‘‘
اسی دوران سعید سلیٹ اٹھائے کمرے سے باہر آیا۔ وہ اور کرن کمرے میں لالٹین کی روشنی میں سکول کا کام کر رہے تھے۔ سعید نے اپنے امی ابو کی باتیں سن لی تھیں۔ اسے گھبراہٹ سی ہوئی اور وہ ریاضی کا سوال سمجھنے کے لیے ابو کے پاس چلا آیا۔
’’ادھر تو روشنی نہیں ہے، جاؤ لالٹین اٹھا لاؤ۔۔۔ مگر کرن کام کر رہی ہے۔۔۔ چلو میں ہی اُدھر آجاتا ہوں۔۔۔‘‘
سعید کے ابو نے کمرے میں جا کر سعید کو سوال سمجھایا اور کہنے لگے: ’’یہ سوال تو تم بہت اچھی طرح کر لیتے تھے، آج تمھیں کیاہو گیا ہے۔۔۔؟‘‘
سعید کے ابو کمرے سے باہر آگئے تو کرن نے سعید کو اشارہ کیا کہ وہ رف کاپی پر دھیان دے۔ کرن نے رف کاپی پر لکھا:
’’تم نے میرے جوتے کہاں گم کر دئیے۔۔۔؟ سکول۔۔۔ کیسے جاؤں گی؟‘‘
سعید نے اسی کاپی پر لکھا:
’’موچی سے مرمت کے بعد، سبزی کی دکان پر رکھے۔۔۔ آلو چننے لگا، آلو لے لیے۔ جوتوں کا تھیلا وہاں نہ تھا۔۔۔ بہت ڈھونڈا مگر نہ ملے۔۔۔ میں کیا کرتا۔۔۔؟‘‘
’’ابو کو پتہ چل گیا تو تمھاری پٹائی۔۔۔ تم ہو ہی ایسے، جھوٹ بول رہے ہو۔۔۔ تم کھیلنے لگے اور انھیں کہیں پھینک دیا۔۔۔ کوئی اٹھا کر لے گیا۔۔۔!‘‘ کرن نے کاپی پر لکھا۔
سعید کو کرن کے اس الزام پر سخت غصہ آیا، اس نے صحن کی طرف دیکھا۔ پھر سوچ کر، کاپی پر لکھنے لگا:
’’خدا کی قسم ، جوتے، سبزی کی دکان پر گم ہو ئے تھے۔۔۔ تم میرے جوتے پہن لیا کرنا۔۔۔‘‘
’’وہ تو بالکل پھٹے پرانے ہیں۔۔۔ پھر تم نے بھی تو سکول جانا ہوتا ہے۔۔۔!‘‘
’’تمھیں پتہ ہے، میرا سکول دو بجے شروع ہو تا ہے، اس وقت تک تمھیں چھٹی ہو جاتی ہے۔۔۔ تم صبح سویرے میرے جوتے پہن کر چلے جایا کرنا۔ میں دو بجے گلیوں کے سامنے والے چوک میں تمھارا انتظار کیا کروں گا اور جوتے پہن کر سکول چلا جایا کروں گا۔‘‘ سعید نے لکھا۔
’’تم وقت پر سکول کیسے پہنچو گے؟‘‘
’’اسمبلی یا حاضری تک پہنچ ہی جایا کروں گا۔۔۔ دوڑ کر چلا جایا کروں گا۔۔۔‘‘
’’نہیں ایسا نہیں ہو سکتا، تمھارے جوتے تو میرے پاؤں میں بہت کھلے ہوں گے۔۔۔ اتنے بڑے جوتے میں نہیں پہنوں گی۔۔۔ لڑکیاں کیا کہیں گی۔۔۔ میں امی کو بتا دیتی ہوں۔۔۔ وہ کچھ نہ کچھ کر دیں گی۔۔۔‘‘ کرن نے لکھا۔
سعید نے اپنے سکول کے تھیلے سے ایک نئی پنسل نکالی اور خاموشی سے کرن کے سامنے رکھ دی۔ کرن اس کو دیکھ رہی تھی مگر پکڑنے سے احتراز کررہی تھی۔ سعید نے آنکھوں سے اسے لے لینے کا اشارہ کیا۔ کرن نے پنسل اٹھائی اور اسے غور سے دیکھا۔ پنسل کے ایک سرے پر ربڑ بھی لگا ہوا تھا۔ کرن نے اس کو سونگھا اور اس سے کاپی پر لکھا۔ پھر لکھے ہوئے لفظ کو مٹایا۔ سعید نے رف کاپی پر لکھا:
’’تقریر میں فرسٹ آنے پر ملی تھی۔۔۔ اچھی ہے ناں۔۔۔!!‘
سعید گرمیوں میں گھر کی چھت پر سوتا تھا۔ چھت پر جانے کے لیے باقاعدہ سیڑھی نہ تھی۔ چھت کے ساتھ بانس کی ایک سیڑھی شام کو لگا دی جاتی اور صبح نیچے اترنے کے بعد اسے ہٹا دیا جاتا۔ سعید سونے کے لیے کمرے سے نکلا ہی تھا کہ اس کا دھیان پھر سے جوتے کی طرف چلا گیا۔ وہ حیران تھا کہ آخر یہ سب ہوا کیسے۔ اس سارے واقعے میں اسے ایک جادوئی احساس ہو رہا تھا۔ وہ یہی سوچتے ہوئے بانس کی سیڑھی پر چڑھتا جا رہا تھا کہ اس کا پاؤں سیڑھی کے ایک ڈنڈے سے پھسلا۔ مگر اس نے بازوؤں اور ہاتھوں کے زور پر اپنے آپ کو سنبھال لیا۔ چھت پر اس کی ایک کھٹولی تھی۔ یہ چھوٹی سی چارپائی تھی جو ہمیشہ چھت پر بچھی رہتی تھی۔ یہ سارا سال دھوپ، بارش اور سردی سہتی رہتی تھی۔ اس کا بان کالا ہو نے کے ساتھ ساتھ خستہ ہو چکا تھا۔ پائے، پٹیوں پر اپنی پکڑ چھوڑ چکے تھے۔ اس پر لیٹتے ہی کچھ دیر کے لیے جھولے آتے رہتے تھے اور لیٹنے والے کا جسم چھت کے فرش سے قریب تر ہو جاتا تھا۔ اکثر سعید کے وزن سے اس کا بان ٹوٹتا رہتا تھا۔ بان آہستہ آہستہ چارپائی میں کم ہو جاتا جارہا تھا اور اس کی بے شمار لڑیاں چارپائی کے نیچے لٹکنا شروع ہو گئی تھیں۔
سعید، چارپائی پر لیٹ گیا۔ چارپائی پر لیٹتے ہی اس کی کمر کمان کی طرح دوہری ہوگئی۔ سعید کو اس طرح لیٹنا اچھا لگتا تھا مگر بان کی جسم پر چبھن ناگوار محسوس ہوتی تھی۔ وہ ہمیشہ اپنے بستر پر، جو ایک دری اور تکیے پر مشتمل تھا ،کو چھت پر لانے سے کتراتا تھا۔ اس کی وجہ دراصل یہ تھی کہ رات تک وہ تھک کر چور ہو جاتا تھا اور اس کا دل بس یہی ہوتا تھا کہ وہ اوپر چھت پر جائے اور لیٹ جائے۔ لیٹتے ہی اسے نیند آجاتی اور بان کی چبھن کا پتہ ہی نہ چلتا۔ اس رات سعید کو نیند نہ آرہی تھی۔ اس کا دھیان چاند کی طرف گیا۔ چاند کے ارد گردہالہ تھا اور چاندنی کافی تیز تھی۔ اس نے سوچا کہ پہلے تو چاند کے گرد ہالہ نہ تھا۔ اسے چاند اور ستارے عجیب سے معلوم ہور ہے تھے۔ اتنے میں اسے آسمان پر ایک ستارہ حرکت کرتا ہوا نظر آیا۔ اس نے اپنی نگاہیں اسی کے اوپر ٹکا دیں۔ وہ اسے دیکھتا جا رہا تھا کہ اس کو نیند آگئی۔ اس نے ایک خواب دیکھا:
’ وہ لوگوں کے ایک ہجوم میں کھڑا ہے۔ مداری مختلف کرتب دکھا رہا ہے۔ مداری نے دونوں ہاتھوں سے ایک سرخ رومال لہرایا اور لوگوں کی آنکھوں کے سامنے اسے غائب کر دیا۔ پھر اس نے بازو کے نچلے حصے سے سرخ رومال کو کھینچا مگر یہ ایک کبوتر تھا۔ سفید رنگ کا کبوتر فضا میں پھڑ پھڑاتا ہوا غائب ہو گیا۔ مداری نے سعید کو لوگوں سے بنے دائرے کے اندر بلایا اور ایک چھڑی اس کے اوپر پھیری۔ سعید کے جوتے غائب ہوگئے۔ سعید گھبراگیا اور مداری کی قمیص پکڑ کر کھینچنے لگا۔ وہ مسلسل کہہ رہا تھا۔۔۔‘‘ میرے جوتے واپس کرو، میرے جوتے واپس کرو۔۔۔‘‘ ‘
صبح سویرے ، اسے سردی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ اپنے گھٹنوں کو پیٹ کے ساتھ لگائے سو رہا تھا۔ وہ اٹھنا نہیں چاہتا تھا مگر سردی کے باعث پورے طور پر سو بھی نہیں رہا تھا۔ اسی دوران اس کے ابو کی آوازاس کے کان میں پڑی۔ اسے بازار سے چائے کے لیے دودھ لانا تھا۔ وہ اٹھا۔ اٹھتے ہی اس کے ذہن میں سب سے پہلی بات یہ آئی کہ وہ صبح سویرے سبزی کی دکان پر جائے اور جوتوں کو ڈھونڈے۔
6
سعید کے ابو اور کرن صبح سویرے گھر سے چلے گئے۔ آج کرن نے سعید کے ہی پرانے جوتے پہنے۔ وہ گھر سے نکلی اور بار بار جوتوں کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اسے ان جوتوں میں چلنا مشکل لگ رہا تھا۔ اس کے جوتوں سے ’’کپل کپل‘‘ کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ اسے بہت بُرا لگ رہا تھا۔ کرن کچھ دیر آہستہ آہستہ چلتی رہی۔ وہ چوری چوری ہر آتے جاتے شخص کے جوتوں کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اچانک اس نے دوڑنا شروع کر دیا۔
سعید نے کرن کی گھر میں پہننے والی پلاسٹک کی جوتی پہن رکھی تھی۔ یہ اس کے پاؤں میں تنگ تھی اور جوتے کے اگلے حصے میں اس کے پاؤں کا پنجہ پھنسا ہوا تھا۔ اس نے اپنی ایڑھیاں اوپر اٹھا رکھی تھیں، کیونکہ پاؤں سیدھا رکھنے کی صورت میں جوتے کی ایڑھی، اس کے پاؤں میں چبھتی تھی۔ سعید آہستہ آہستہ چلتا رہا مگر جوتوں کی تکلیف کے باعث، اس نے جوتوں کو اتارا اور اپنی نیکر کی بڑی بڑی جیبوں میں ڈال لیا۔ وہ سارا راستہ سوچتا رہا کہ شاید اس نے جوتا لکڑی کے کھوکھوں پر رکھا ہی نہ تھا۔ اسے جوتے کو کسی اور جگہ بھی تلاش کرلینا چاہیے۔ انھی خیالوں میں وہ سبزی کی دکان پر پہنچا۔ دکان پر تازہ تازہ سبزی سجی ہوئی تھی۔ سعید کو دکان بہت اچھی لگی۔ وہ کچھ دیر، دکان کے سامنے کھڑا رہا۔ وہ دور سے دکان کے مختلف حصوں میں دیکھتا رہا۔ اسی دوران دکان پر بہت سے لوگ اکٹھے ہوگئے۔ سعید دکان کی طر ف آیا۔ اس وقت دکاندار گاہکوں کے ساتھ مصروف تھا۔ دکان پر رکھا، پیسے ڈالنے والا ڈبہ بار بار کھل اور بند ہو رہا تھا۔ اس سے مسلسل ’’ٹھک ٹھک‘‘ کی آوازیں پیدا ہو رہی تھیں۔
دکان کے جس حصے میں دکاندار بیٹھا تھا، سعید اس کے دوسری جانب لکڑی کے کھوکھوں کے نیچے گھس گیا۔ کھوکھوں کے اوپر، سبزیوں کی ٹوکریاں تھیں۔ نیچے ایک غارسی بنی ہوئی تھی۔ سعید کو یہ غار خاصی حیران کن لگ رہی تھی۔ یہاں گلی سڑی سبزیوں کی وجہ سے عجیب قسم کا کیچڑ بن گیا تھا۔ انھی کھوکھوں کے نیچے گندے پانی کا نالہ بہہ رہا تھا۔ سعید، چونکہ اکڑوں بیٹھا ہوا تھا اور اس کا منہ گندگی کو بہت قریب سے محسوس کر رہا تھا، اسے لگا کہ اسے قے آجائے گی۔ اس نے متلی کی اس کیفیت میں فوراً باہر نکلنے کے لیے آپ کو باہر کی طرف موڑنے کے لیے جسم گھمایا۔ اسی اثنا اس کا سر ایک کھوکھے سے ٹکرایا اور اور بے شمار کدو اس کے ارد گرد گرنا شروع وہ گئے۔ وہ گھبرا گیا۔ وہ بے چینی میں باہر نکلا اور اس نے گھر سے دوسری طرف بازار میں بھاگنا شروع کر دیا۔ اس کا خیال تھا کہ دکاندار اس کو پکڑنے کے لیے، اس کے پیچھے بھاگے گا۔ مگر گاہکوں میں مصروف ہونے کے باعث وہ ایسا نہ کر سکا۔ البتہ اس نے سعید کو سبزی کی ٹوکریوں کے نیچے سے نکل کر بھاگتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔
سعید نے بازار کے اگلے چوک میں جا کر سانس لیا۔ اس چوک میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی اور اس کے وضو والے حوض میں بہت سی رنگ برنگی مچھلیاں تھیں۔ سعید نے مڑ کر دیکھا۔ دکاندار کہیں نظر نہ آیا۔ اس نے مسجد کے چبوترے پر کھڑا ہو کر پھر بازار میں آتے جاتے لوگوں کو دیکھا۔ اسے پھر بھی دکاندار نہ نظر آیا۔ اس نے مسجد کے چبوترے کے ساتھ بنی پانی کی سبیل سے پانی پیا اور حوض میں تیرتی مچھلیوں کو دیکھنے لگا۔
ا ب مسئلہ گھر واپس جانے کا تھا۔ سعید نے سوچا کہ وہ حوض والی مسجد کے پچھواڑے ، بازار سے ہوتا ہوا، اپنے گھر کے سامنے گلیوں اور بازار کو ملانے والے چوک میں پہنچ جائے گا۔ اس طرح اسے سبزی کی دکان کے سامنے سے نہ گزرنا پڑے گا۔ سعید نے مسجد کے پچھواڑے بازار میں چلنا شروع کر دیا۔ وہ پہلے کبھی اس طرف نہ آیا تھا۔ اسے ایک خوف سا محسوس ہو رہا تھا۔ وہ شروع میں تو آہستہ آہستہ چلتا رہا مگر پھر دوڑنا شروع کر دیا۔ راستے میں بالوں کے ساتھ باندھنے والے پراندوں کی دکانیں آئیں، وہاں خواتین کا ہجوم تھا۔ پھر چمڑے کی منڈی آئی۔ وہاں سے بہت بدبو آرہی تھی۔ پھر بازار ایک اونچے اور چوڑے دروازے میں داخل ہو گیا۔ اس نے اتنا بڑا دروازہ کبھی نہ دیکھا تھا۔ وہ حیرانی سے اسے دیکھتا رہا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ایسے بڑے دروازے کو کتنے لوگ مل کر بند یا کھولتے ہوں گے۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی، بہت ہی بلند لکڑی کی چھت تھی۔ چھت کے ساتھ بڑے بڑے روشندان تھے۔ اوپر چھت کے شہتیروں اور بالوں میں بیشمار کبوتر بیٹھے تھے۔ ان کے پر پھڑپھڑانے اور غٹرغوں کی آوازیں مسلسل آرہی تھیں۔ چھت کے نیچے، دیواروں کے ساتھ ساتھ بڑے تختوں پر سفید کپڑوں میں ملبوس بہت سے لوگ بیٹھیتھے۔ سعید کو یہ سب دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور خوف بھی آیا۔ یہ سب لوگ بلند آواز میں ٹیلیفون پر مسلسل بول رہے تھے۔ ان کی باتوں کی سعید کو بالکل بھی سمجھ نہ آرہی تھی۔ خوف اور حیرت سے سعید کو پسینہ آگیا۔ وہ دبکا سا اس حیرت ناک جگہ سے گزرتا ہوا، آگے کی طرف بڑھ گیا۔ اس عمارت کے ساتھ ایک کھلا صحن تھا اور اس کے ارد گرد، ایک اونچی چار دیواری بنی ہوئی تھی۔ سعید کو محسوس ہوا کہ جیسے وہ پکڑا گیا ہو۔ ایسے ہی جیسے ایک ہرن کو چاروں طرف سے شکاری کتے گھیر لیں۔ وہ فوراً واپس جانے کے لیے مڑا اور بے تحاشا بھاگنا شروع کر دیا۔ بھاگتے ہوئے وہ مسلسل ان نشانیوں کو تلاش کر رہا تھا جو اس نے آتے وقت دیکھی تھی۔
سعید حوض والی مسجد کے پاس پہنچ گیا۔ اسے تسلی ہوئی کہ وہ گم ہونے سے بچ گیا ہے۔ اب مسئلہ سبزی کی دکان کے سامنے سے گزرنے کا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا، سبزی کی دکان سے چند قدم پہلے رک گیا۔ اس نے کھمبے کے ساتھ لگے ایک عمودی بورڈ کے پیچھے اپنے آپ کو چھپا لیا۔ اسی بورڈ کی اوٹ سے اس نے سبزی کی دکان کی طرف دیکھا۔ دکان پر لوگوں کی بھیڑ تھی۔ اسی دوران دکان دار، اپنی جگہ سے اٹھا۔ سعید کو لگا جیسے اس نے اسے دیکھ لیا ہے اور وہ اسے پکڑنے کے لیے اس کی طرف آیا کہ آیا۔ مگر دکاندار، اٹھا اور دکان کے اندرچلا گیا۔ سعید نے موقع غنیمت جانا اور دوڑ کر سبزی کی دکان کے سامنے سے گزر گیا۔ اس نے سکھ کا سانس لیا اور دوڑتا ہوا گھر چلا گیا۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔