نیوٹن کے نام خط ۔۔۔۔
ارے نیوٹن میاں۔۔۔! آپ مجھے پہچانیں گے تو نہیں، لیکن پھربھی آپ کا خلوص ، بلکہ آپ کے ترکے کا قرضِ حسنہ جو ہماری نسل کو آپ سونپ گیا تھا، مجھے یہ خط لکھنے پر مجبور کررہا ہے۔مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں کس منہ سے آپ کا شکریہ ادا کروں۔ آپ کے قوانین حرکات نے میری مشکلیں کو ایسے حل کیا کہ مزہ آگیا ، سکول کی مشقت پسند زندگی سے فراغت کا بہترین نسخہ ہے۔ جناب ، آپ کی اس حرکت نے تو نہ صرف اشرف الحیاتیات کو محو کامل کردیا بلکہ جمادات کو بھی متحرک کردیاہے۔ آپ کے قوانین حرکت سے مجھ ساموٹے دماغ کا شخص بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔بلکہ تاحال مکمل متاثرہ شخص ہوں۔ آئنسٹائن بھی آپ سے ملنے آتے تو ہوں گے۔ سنا تھا کہ وہ سرپھیرا شخص بھی جماعت میں ماسٹر کے سامنے زبان درازی کرنے پر سکول سے خارج ہوچکے تھے۔ دیکھو علم ایسی چیز ہے کہ اسے جس سے عشق ہوجائے وہ پھر اپنے محبوب کو کہیں سے بھی ڈھونڈ لیتا ہے اور ا س کے دل میں گھر کئے بغیر دم نہیں لیتا۔ آپ اپنی ہی مثال لے لیجئے ، نہ سکول ٹائم میں سیبوں کے باغ میں گھس جاتے ، نہ سیب سرپر گرتا نہ یہ حرکت کے قوانین وجود میں آتے، نہ خود مشکل میں پھنستے نا بیچارے طلبہ کو پھوکٹ میں کوئی کوفت ملتی۔ اصل بات جو ہماری نسل آپ کے حوالے سے عمیق تحقیق کے بعد سمجھ چکی ہے ، وہ یاتو آپ نے سرے سے ہی چھپا لیا ہے یا پھر یہ چھاپا خانہ والوں نے سکول والوں سے میل میلاپ کرکے عمداً حذف کرلیا ہے۔ یعنی، آپ کی وہ بات جو درخت سے سیب کے گرنے ، نیچے ہی آنے، اوپر نہ جانے کے حوالے سے کہی ، وہ تو من وعن چھپ چکی ہے، اور سینہ بہ سینہ بلکہ حافظہ بہ حافظہ ہم تک آچکی ہے۔ مگر ڈاکٹر ہمیلٹن کو جو شک گزری تھی اس کا ذکر تک نہیں۔ سنا ہے کہ ڈاکٹر ہمیلٹن نے یہ شبہ ظاہر کیا تھا کہ آپ کا دماغ جو ہلکا سا کھسا ہوا تھا ،جس کی وجہ سے سکول سے بھاگ کر سیب کے باغ میں وارد ہوئے وہ آدھ کلو وزنی سیب کے چار سے پانچ فٹ اونچائی سے گر کر لگنے کے سبب اپنی اصل جگہ پہ بیٹھ گیا تھااوراسی وجہ سے یکدم دماغ میں معجزانہ سرعت پیدا ہوئی تھی۔ اور ہاں ، پھر قانون حرکت سے پہلے جو حرکت کی تھی، اسی سیب پر ہاتھ صاف کرکے جو مفت کا لنچ بریک اڑایا تھا اس کا بھی کسی نے آج تک ذکر نہیں کیا۔ مگر قوانین حرکت بعینہ سارے تلازمذہ کو ازبر ہیں۔ تاہم آپ کے بعد کوئی بھی شاگرد سیب کے نیچے نہیں بیٹھتے ، سیدھے درخت پر چڑھ کر بیٹھتے ہیں ،پھر بھی ان کے ایسی حرکات کے لئے اب تک کوئی قانون عمل میں نہیں آیا ہے۔ ہمارے کلاس کے چند فطین بچوں کو آ پ سے اس لئے بھی بیر ہے کہ آپ کی یہی حرکتیں ان کے اعمال کے نہ صرف ردعمل بلکہ رداعمال واقع ہوئے ہیں اور اس کے چکر میں تادم تحریر رل رہے ہیں۔ میرے ایسے چند ایک جو ریاضی کی کلاس میں بھی لطیفوں پر گزارہ کرتے تھے وہ اب فنون لطیفہ کی طرف راغب ہوچکے ہیں۔ گمان ہوتا ہے کہ ڈاکٹر ہمیلٹن ٹھیک فرما رہے تھے، آج کل آنسٹائن کو سکول سے خارج کرنے والے ماسٹر صاحب کے چرچے تو چاروں اور ہیں ہی ، بلکہ آئنسٹائن کے نظریات تو سکول کی سطح پر ملنا محال کردیا ہے۔ میٹرک پاس کرکر فوج میں ملازمت اختیار کرنے والے تمام احباب ماسٹر صاحب کے حق میں دعا گو ہیں۔یوں تو عہد رفتہ کے طلبہ کی حرکتوں میں آپ کے دور کی نسبت بہت واضح فرق آیا ہے مگر پھر بھی نہ ان قوانین میں ترمیم کا کوئی بل پاس ہوا ہے نہ یہ قوانین آج کے سٹوڈنٹ کو ڈھنگ سے پاس ہونے دیتے ہیں۔آپ، آئنسٹائن، ہمیلٹن کو گئے ہوئے زمانے ہوگئے ، سکولوں کے ڈھب بدل گئے، طلبہ کے بھیس بدل گئے اب لنچ بکس لے کر سکول جاتے ہیں، سیب تو اب صرف سبزی منڈی میں ملتے ہیں ، اور سر پر گرنے کے خطرات بھی ٹل چکے ہیں۔ بارش کے لئے چھتری، سکول سے گھر سے سکول آمد و رفت کے لئے گھر کی گاڑی، سکول کی اونچی اونچی چاردیواری، گھر پہنچ کر شام کو پھر کوچنگ سنٹر جانا، رات کو انٹرنیٹ پر گیس پیپرز کو رٹنا اور نوٹس بنانا ، غرض مکمل تعلیم کے پیچھے پڑھنے کے باوجود بھی کوئی ایسا فارمولا نہیں ایجاد کرپائے جس کی آپ کومحض سر پر سیب گرنے سے سمجھ آئی تھی۔آج کا ذہین و فطین انسان مسٹر سٹیفن ہاکنگ کہلاتا ہے، بالکل فارغ آدمی ہے ۔ نہ سکول جاتا ہے، نہ چل پھر سکتا ہے نہ بول سکتا ہے ، نہ ہاتھوں میں کوئی جنبش نہ لب ہلتے ہیں ، بس بیٹھے بیٹھے ایسی آمد ہوتی ہے کہ طلبا ان کے نت نئے فارمولوں سے یکسر بیزار ہیں۔ کشش ثقل کے نظریات، علم فلکیا ت اور فزکس میں اس دور کے استاد مانے جاتے ہیں۔ یہ کسی بڑی یونیورسٹی میں کسی اچھے گریڈ کے پروفیسرزسے سیکھنے جا سکتے ہیں اور نہ اس نے کوئی جدید طرز کا تجربہ گاہ کھولا ہوا ہے ، نہیں معلوم اس کے دل ودماغ میں یہ مشکل مسئلے اور ان کا حل کون ڈھلواتا ہے ۔ہمارے ہاں توامیر اور اچھے طالب علم سیب خریدتے ہیں اورغریب اور ذہین طالب علم سیب اگاتے ہیں اور مجھ سے غبی طلبہ سیب کی ریڑھی لگا لیتے ہیں۔ ہمارے سروں پر فیشن کا خبط طاری ہے، سیب تو کیا پتھر بھی لگے تو سبب جاننا گوارا نہیں کرتے۔ ہمارے والدین کا اچھے سکولوں اور اچھے اساتذہ پر اعتقاد اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اب سکول ، کتاب اور برانڈ کو ہی تعلیم کا واحد ذریعہ سمجھتے ہیں۔ باغوں میں جانا، کتابوں سے باہر کی اشیاء کا سوچنا گناہ کبیرہ سا تصورکرتے ہیں۔ ماحول اور فطرت سے براہ راست مشاہدات ، ذاتی تجربے اور مشقت کی تعلیم کا تو جنازہ اٹھ چکا ہے۔ ہماری آپ سے یہ درخواست ہے کہ خدارا ہمیں بھی کسی اپنے سکول، استاد اور کتاب کا اتہ پتہ بتا دو کہ جس کو پڑھ کر آپ نے علم حرکیات سیکھا۔ آئنسٹائن سے بھی پوچھ لینا کہ جب اس کے استاد نے اسے سکول سے نکال دیا تو اس نے خود سے کس طرح تعلیم حاصل کی؟۔ کیا آپ دونوں کو اچھی نوکری مل گئی تھی؟۔ تعلیم کے پیچھے کھید کھید کر لگانے کے باوجود بھی بچے خود سے کچھ کرنا کیوں نہیں سیکھ پارہے ہیں؟۔ یہ کن اعمال کا رد عمل ہے؟۔ میں سکول تو نہیں جارہا ، لیکن میری سمجھ میں کوئی شے اس لئے نہیں آرہی کہ میں بھی اچھی نوکری کی تلاش میں ہوں، ذہن میں اسی بابت لوگوں کی باتیں ہر وقت گھوم رہی ہوتی ہیں۔ سوچا کہ آپ کو خط لکھوں۔ میرے نزدیک یہ ہماری ان حرکتوں کا نتیجہ ہے جو سماج میں اپنی شناخت ، اہمیت اور ساکھ بڑھانے کے لئے آئے روزبڑی لاپرواہی سے انانیت پر مبنی روایات کو فروغ دینے کے لئے کر رہے ہیں۔میں بہت جلد اسی بابت سٹیفن ہاکنگ کو بھی لکھنے والا ہوں، مگر وہ پرانے پتے پر موجود نہیں ہے، سنا ہے وہ کہیں اور شفٹ ہوگئے ہیں۔ اور ہمارے علاقے سے ملنے والی ڈاک کو وہ ڈوگ سے غلیظ سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک ہم لفافوں میں انتھریکس کے پاوڈر ڈال کر بھیجنے والوں میں سے ہیں۔ خدا شاہد ہے، ہمیں سکول کے باہر رہ کر علم حاصل کرنے والوں سے قدرے دلچسپی ہے بہ نسبت ان کے جو سکول کے اندر رہ کر کچھ سیکھنے کی بجائے بے تحاشہ پڑھتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر عبد السلام سے ملنا تو اسے بھی سلام کہنا، اسے کہنا کہ نوبل انعام تو اب ہماری بچیاں بھی لے رہی ہیں ، لیکن مزہ ویسے کا ویسا کرکرہ ہے ۔ اب اجازت چاہتا ہوں، اس خط کے بعد مرزا اسد اللہ خان غالب کو بھی جواب لکھنا ہے۔ ہمارے ہاں چھوٹوں کی انگریزی ، بڑوں کے انگریزوں سے متعلق عقائد کی مانند کمزور اور بری ہے۔ اس لئے اردو میں لکھ دیا۔ جواب کا منتظر رہوں گا۔ آپ کا خیر اندیش۔ ایک طالب علم