لوگ بے ساختہ مر جاتے ہیں
تحریر: تہذیب حسین برچہ
زندگی کیا ہے۔۔۔۔۔؟اس گورکھ دھندہ پر بہت غور کیا لیکن تمام کاوشیں دھری کی دھری رہ گئی ۔آج تک دنیا بھر کے مختلف دانشوروں،شعراء اور فلسفیوں نے اس قضیہ کو سلجھانے کی سعی کی اور اپنی فہم و فراست اور ذہن و ذکاوت کے بل بوتے پر بہت کچھ قلم بند کیالیکن ہم دعوٰی نہیں کر سکتے کہ وہ اس میں مکمل کامیاب ہوئے یا ناکام۔تو راقم جیسا طفلِ مکتب یا کم علم فرد بھلا کیسے زندگی کی بھول بھلیوں کو مکمل جاننے کا دعوٰی کر سکتا ہے لیکن جب فراغت کے کسی حَسیں لمحے میں تفکر کی کسی محور پر متمکن ہو جاتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ زندگی کیوں ہے ۔۔۔۔؟ کیسے ہے۔۔۔۔؟ ور کہاں ہے۔۔۔؟زندگی کے بحرِ بے کراں میں کیوں اسرار ہی اسرار پنہاں ہیں اور انسان کے ہونے اور نہ ہونے کا کھیل آخر کس واسطے ہے۔زندگی جو کسی کے لئے دلکش ،خوشیوں سے عبارت اور تغیرات کا نام تو کسی کی صدمات،حادثات اورجبرِ مسلسل سے متصل ہے ۔زندگی کیا ہے ۔۔۔۔اور زندگی کا وجود کہاں ہے ۔۔۔؟ زندگی کلیوں کی چٹک میں ہے تو کبھی آبشاروں سے گرتے پانی کی پُر کیف موسیقی میں۔جھیلوں کی نیلگوں پانی کے سکوت میں تو کبھی سمندر کی لہروں کی دھمال میں۔پرندوں کی مست اور سریلے گیتوں میں تو کبھی پودوں کی نئی پھوٹتی کونپلوں میں زندگی کا رمز پنہاں ہے۔جب تک موت کا وجود نہ ہو تو زندگی لَے میں سرور و مستی کہاں اور جب تک موت کا درندہ انسان کا تعاقب نہ کرے تو زیست کے سفر میں رعنائی کہاں موجود رہتی ہے جبکہ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ زندگی کی دیوی ایک نہ ایک دن انسان سے روٹھ جاتی ہے اور سانسوں کی ڈور کا ہمیشہ ہمیشہ ساتھ رہنے کا گمان رکھنے والا حضرتِ انسان خاک میں مل جاتا ہے۔
مشہور شاعر محسن نقوی نے خوب کہا ہے
زندگی کرکے گزر جاتے ہیں
لوگ بے ساختہ مر جاتے ہیں
دنیا میں بہت سے لوگ آتے ہیں اور اپنی زندگی کا سفر مکمل کرکے گزر جاتے ہیں لیکن کچھ شخصیات دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی حَسیں یادوں کی شکل ہمارے دلوں میں اپنے وجود کا عکس چھوڑ جاتے ہیں ۔ایسی ہی ایک شخصیت حیدر علی حیدر صاحب کی تھی۔گو کہ حیدر علی حیدر اور راقم کے عمر کا فرق کئی دہائیوں پر مشتمل تھا لیکن وہ ایک مشفق اور مہرباں دوست کی طرح تھے۔حیدر علی حیدر سے شاید پہلی ملاقات GB tvکے کسی پروگرام کے توسط سے ہوئی تھی لیکن جب نور کیبل نیٹ ورک میں گیلیت ٹی وی لوکل چینل آغاز کیا گیا تو عزیز دوست آصف علی آصف کے ساتھ گیلیت ٹی وی کی یاترا کے سلسلے کا آغاز ہوا جہاں حیدر علی حیدر صاحب کمپیوٹر ٹیبل پر براجماں ہوتے اور ان سے مختلف پروگرامات کے حوالے سے طویل گفتگو ہوتی۔حیدر علی حیدر ایک حساس فرد ہونے کے ساتھ ساتھ تخلیقی شخصیت کے مالک تھے اور ہمیشہ ان پر کچھ نہ کچھ تخلیقی و تعمیری کام کرنے کی دھن سوار رہتی۔ایک اچھے سرکاری عہدے سے ریٹائرڈہو نے کے باوجود ان کے مزاج میں سادگی اور ملنساری کا ایک امتزاج موجود تھا۔ان سے راقم اکثر گزارش بھی کرتا کہ آج کے دورِ پُر فتن میں نہایت سادگی انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی لیکن وہ خلوص اور سادگی کے امتزاج سے ملی جلی خاک میں گوندھے ایک صاف گو انسان تھے۔
وقت گزرتا گیا اور دوستی کے حِسیں رشتے کی ڈور مضبوط سے مضبوط تر ہوتی گئی ۔رات گئے تک چائے کا دور چلتا اور سگریٹ کا دھواں کمرے کی فضا میں ایک مسحور کن کیفیت طاری کر دیتا ۔ایک دفعہ راقم نے ان سے عرض کیا ۔چاچا! آوارگانِ شہر کی صحبت میں رہ کر شاید اب آپ کو بھی عادت پڑ جائے لیکن سگریٹ کے دھواں سے کراہت محسوس تو نہیں ہوتی۔۔۔۔۔؟تو انہوں ہونٹوں پر مسکراہٹ سجا کر جواب دیا ۔”ایسی تو کوئی بات نہیں ایبٹ آباد میں طالب علمی کے زمانے میں سگریٹ نوشی زیادہ کی ہے لیکن اب اس عادت سے جان چھڑانا پڑا ۔۔۔۔۔سگریٹ کے دھواں سے اکتاہٹ تو نہیں ہوتی لیکن اپنائیت کا احساس ضرور ہوتا ہے”۔
اس کے علاوہ حیدر علی حیدر ادب پرور شخصیت کے ملک تھے۔شعر و سخن کی محافل سجانا اپنے لئے باعثِ فخر سمجھتے ۔حلقہ ء اربابِ ذوق کے ماہانہ طرحی و غیر طرحی مشاعروں کو گیلیت ٹی وی میں منعقد کرانے کے علاوہ نعتیہ محافل اور محفل مسالموں کا انعقاد بھی تواتر سے کرتے ۔حیدر علی حیدر چونکہ ایک شاعر بھی تھے اور ان کی شاعری کے موضوعات میں وطن سے محبت ،اتحاد ویگانگت اور طنز و مزاح شامل ہیں۔
وطن سے محبت کے حوالے ایک شعر ملاحظہ ہو۔
فطرت کا حسن دیکھنے دنیا سے کتنے لوگ
آتے ہیں میرے دیس میں بارات کی طرح
حیدر علی حیدر کو شاید دوستوں کی محفلوں کو ویران چھوڑ جانے کا اندیشہ شاید بہت پہلے سے دامن گیرتھا سُوانہوں نے اپنی موت سے کئی سال پہلے ہی یہ شعر رقم کیا تھا
سرور و کیف کی محفل سجی ہے
سبھی احباب ہیں حیدر نہیں ہے
میرے کالم کا آغاز زندگی کے قضیہ سے شروع ہوا تھا لیکن کتابوں کے شیلف میں پڑے حیدر علی حیدر کی ڈائری نے یادِ رفتگاں کے دریچے کھول دیے۔ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ یہاں تخلیقی اذہان کی قدر و منزلت نہیں ہوتی بلکہ ظاہری نمود ونمائش اور حصولِ زر کو ہی زندگی کا سب سے بڑا مقصد گردانا گیا ہے جس کے باعث تخلیق کار موت سے قبل ہی معاشرتی بے حسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔آج کے صنعتی انقلاب کے دور کا المیہ ہے کہ انسان کی طرز زندگی میں تبدیلیاں تو ضرور رونما ہوچکی ہیں لیکن ہمارے اجتماعی رویے خطرناک حد تک سرد مہری کا شکار ہوچکے ہیں۔بلاشبہ موت ایک اٹل حقیقت ہے لیکن جب تک سانسوں کی ڈور کارشتہ قائم ہے ہم اپنے رویوں میں تھوڑی سی تبدیلی لاکر حقیقی معنوں میں زندہ و جاوید ہونے کا ثبوت دیں تو معاشرہ واقعی طور پر انسانوں کی بستی میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
شاعر شبیر شاہد نے کیا خوب کہا ہے
زمیں ، آدم ، شجر ، حجر ،پھول او ر تارے
تمام آنی ، تمام فانی ، رواں ہے پانی