نوکرو ۔۔۔ تیری یہ نوکریاں
آدمی اور علم کا چولی دامن کا ساتھ ہے، آدمی ہی کیا ، حیوانوں نے بھی اپنی بقا کے لئے شکار کرنے، شکار ہونے سے بچنے اور نان و نفقہ کے حصول کو قدرے سہل بنانے کی نت نئی چالیں اور ترکیبیں سیکھیں۔ اس بابت مشقت کو کم اور خوراک کی طویل المیعادفراوانی کی خاطر نقل مکانی حتی کہ اپنی جان جوکھم میں ڈالنے سے دریغ نہیں کیا۔ انسان ذہنی ارتقاء پر زیادہ مرکوز رہا اس لئے دنیا میں وہ واحد مخلوق ہے جو ماحول میں دستیاب وسائل کے استعمال اور تحلیل و ترکیب سے متعلق سبھی داو و پیچ سیکھنے میں کامیاب ہوا۔ ڈارون کی تھیوری کے مطابق ارسطو کا معاشرتی حیوان، اشرافیہ مخلوقات، تو جانور سے ذہنی ارتقاء اور نظریہ ضرورت کے حصول میں کامیابیوں کی بنا پر مشرف بہ کرم ہوتا رہا ہے۔ ذرا عقل کو ہاتھ ماریں تو،کسی ایک مفکر نے یہ امکان بھی ظاہر کیا کہ کسے معلوم کہ حیوان انسان سے زیادہ ذہین ہو، یہ جو ہم حیوان کو جانور سمجھتے ہیں یہ انسانوں کی اپنی اختراع و توضیح ہی تو ہے، کسے معلوم کہ وہ حیوان اپنی طبعیات، فطرت اور ضرورت کے عین مطابق اصول الاصل پر قائم ہوں۔ تاہم اس بات کی تصدیق تو تب ہو کہ انسان و حیوان باہم کوئی مدلل ، غیر متعصب اور مفصل مباحثہ منعقد ہو۔ تاریخ شاہدہے کہ بدقسمتی سے انسان تو جانور بننے پر برضاو رغبت راضی ہوجاتے ہیں، یہ توحیوان ہیں جو انسان بننے کی خواہش سے آزاد ہیں۔ باالفاظ دیگرے ، ہم نے شیر ، شاہین، چیتا، ہرنی، مورنی ، باز سے لے کر بکرے، گدھے ، الو سے تا سفید ہاتھی اور کالی بھیڑیں تک انسانوں کو مرغوب و مقدور ہوتے دیکھے ہیں۔ لیکن کسی بھی ایک جانور کو لیلی مجنون، ورپن ،ہرکولیس اور ہٹلر و سکندر بننے کا دعویٰ کرتے نہیں دیکھا ، انسانوں کے برعکس سبھی حیوانوں کو ایک ہی نصابِ حیات کو سیکھتے ، ایک ہی طرز زندگی پر جیتے اور یکساں ضابطہ حیات پر چلتے دیکھے ہیں۔ ہم نے کبھی مچھلی کے بچوں کو تیرنے ، مینڈک کو کودنے، چیتے کو دوڑنے ،ہرنی کو پرکاری اورباز و عقاب کو بلند پروازی کی کتابیں کھنگالتے نہیں دیکھے۔ ہاں مگر ماہی کو ساحل پر تڑپتے، مینڈک کو کنویں میں پھنستے ، چیتے کو تھک کر دم گھٹتے اور ہرن کو شکار ہوتے بہت دیکھے ہیں۔ یعنی وہ سب قانون قدرت کو رٹ رٹ کر حفظ کرنے کی بجائے قانون فطرت کی عملی مشق کرتے ہیں اور اب یہ ان کے رونگ رونگ میں یوں رچ بس چکا ہے کہ ہرن کا بچہ ماں سے جنتے ہی اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش میں جٹ جاتا ہے۔ دوسری طرف انسان اوج ترقی پر پہنچ کر بھی دولت کمانے کے گر سیکھنے میں کتابی کیڑا بن کر بیس سے پچیس سال گنواتے ہیں اور تاکنار قبر انسانیت سیکھنے میں سردھناتے پھرتے ہیں ۔ کچھ لوگ تو کمانے کو انسان بننے سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں اور اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔کسی کو معلوم ہی کہاں کہ ہمیں کیونکر ہمیں اس ویرانے میں مدعو کئے گئے ہیں۔خیر سے انسانوں کو جو کچھ سکھایا جارہا ہے وہ غور طلب ہے۔جناب ہمیں خریدا جارہا ہے۔ اور ہم مدارس میں نہیں بلکہ صنعتوں میں مال بننے جارہے ہیں۔ اور جو زیادہ عاقل ہوگا منڈی میں اسی کا بھاو اونچا ہوگا۔ ہمارے علم و ہنر، فہم و فراست اور استعداد و ہنر کو نکھارا جارہا ہے تاکہ مطلوبہ مصنوعات کی مانند ہمیں بیچا جاسکے۔ ہم نے زندگی کو عیش و نشاط سمجھ رکھاہے۔سو ہم اپنی بولی لگانے خود بن سنور کر جاتے ہیں۔نہ بکنے پر نادم و پشیمان ہوتے ہیں۔خیر۔۔۔ انسانوں نے باہم مل کر یہ ٹھان رکھا ہے کہ وہ ایک دوسرے کا گوشت کھانے کے لئے ایک دوسرے کا شکار نہیں کریں گے، جبکہ اس کے برعکس ، تخت و تاج، عصمت و حرمت اور نسل و اصل کی جنگ میں ایک دوسرے کی کردنیں اتارنے سے نہیں کترائیں گے۔ جبکہ جانور تخت و تاج، عصمت و حیا ، نسل و خاندان اور نفرت و بدلے کی تعصب میں ایک دوسرے کا شکار نہیں کرتے ۔ انسانوں کی زندگی جانوروں سے ہزار گنا بہتر و برتر صحیح مگر فی زمانہ کچھ سماجی حدود و قیود میں جانور بھی حیوان نظر نہیں آتے۔ جنگل میں جب جانور نوکری کرنے لگے تو ذرا سوچیں، ہرن جس دن اپنی پرکاری کو شیر سے معاوضہ کے بدلے بیچ ڈالے گا ہرن کی آبادی کا بیش بہا خسارہ کربیٹھے گا۔ شیرجب دولت کے بل بوتے پر شاہین سے اڑان ، ماہی سے تیراکی، چیتے سے سبکی اور ہاتھی سے طاقت خریدنے کے لئے بھی پرکشش پیش کشیں کرے گا تو ہر خاندان میں سے بہت سے مکار فرد بطور سہولت کارو وعدہ معاف گواہ بھاری معاوضے وتاوان کے عوض ہنر بکف حاضرخدمت ہوجائیں گے ۔تب ہاتھی ہاتھیوں کے ہاتھوں، مچھلیاں مچھلیوں کے بل پر اور عقاب و پرند شاہین کی وجہ سے غلام بن کر رہ جائیں گے۔ پھر کتے چیتے کی چال سیکھنے کے لئے کسی چیتے کو اتالیق مقرر کرے گا۔ کتیاں پلوں کی جان کی امان پانے بھاری بھر کم فیس ادا کرنے سے نہیں کترائیں گی۔ عین ممکن ہے کہ چند مینڈکیں کوچنگ سنٹرز بھی کھول لیں۔ پھر کچھ کو غلام ، نوکر چاکر اور رکھوالے کی تعیناتی کی رہین جان بخشی بھی مل جائے گی۔ پھر طاقت کے بل بوتے پر سلطنت کی دیواریں اٹھیں گی، ہواوں کے حدود متعین ہوں گے اور دریاوں پر پہرے بیٹھیں گے۔ یوں پھر یہ بھی ممکن ہے کہ نسل ، رنگ اور چال ڈھال کی بنیادوں پر آزادی کی تحریکیں بھی پنپنے لگیں۔جانوروں میں خون خرابہ ہوجائے، جنگل جنگل لاشیں گرنے لگیں، صحرائیں قبرستانوں میں بدل جائے اور کبوتر کی جماعت میں اہل بننے کے لئے طوطا، کوا ، مینا اور ہدہد سبھی اپنے اوپر سفید رنگ پھیرلیں۔ بکریاں میں میں بھول بیٹھیں اور کتوں میں جاکر بھونکنے لگ جائیں، عاقل بھیڑیں ، بھیڑ چال کی فطری ثقافت پر آئین نو مخالف دھرنوں میں بیٹھیں۔ کالی بھیڑیں اپنی شناخت بچانے عدالتوں کی زنجیر ہلائیں۔ پتنگے جگنو کو مرشد مانے اور بھنورے جگنو وں کی کھال اتاریں۔ پھر شیر اپنی کوئی دکان سجائے ، جس میں لومڑی کوسیلز مین بٹھائے ، جگنو کی روشنی، چیتے کے دانت ، شاہین کے پر ، عقاب کی آنکھیں اور طوطے کے رنگ فروخت کرنے لگ جائے تواگلے دن سے کبوتر شاہین، بھنورے جگنو، کتے چیتے اور چڑیا عقاب بن کر جنگل کو دنگل بنا تہہ تو بالا کردے گی ۔ جنگل کے قانون کی دھجیاں بکھیر جائیں گی۔ بس پھر جو ہوگا وہ قیامت سے کم نہ ہوگا؟۔ فطرت و جبلت میں توارث پذیر تحقیق، تنقید اور تخلیق کی صلاحیتیں محو ہو کر تقریر ، تدریس اور تنقید پر منحصر ہو کر رہ جائیں گی۔ پھر شیر بستہ عارضہ لئے ، اچھی سی کوئی سی وی بنواکر، ہاتھی کے دروازے پر نوکری کی خاطر انٹرویو دینے جائے گا، جہاں وہ کسی طور گھاس کھانے میں اپنا دس سالہ تجربہ ثابت بھی کردے گا اور یوں وہ ماہوار ایک سے دس کلو گوشت کی قیمت کے عوض ہاتھی کے بھاڑے پر چوکیدارکی نوکری پر لگ جائے گا۔ اور ہاتھی ان کی تقرری کی منظوری کی سفارشات چیونٹی کوبھیجے گا جو ہاتھی کے سونڈ میں نہ گھسنے کی شرط پر جنگل کا حاکم بالا و منتظم اعلی متعین ہوا ہوگا۔بس انسانوں نے بھی کچھ ایسا ہی کرکے سکھ چین کو دنیا کو دھول چٹا دی تھی۔۔۔۔