شعر و ادبکالمز

پروفیسر کمالؔ ؔ الہامی، جتنا میں جانتا ہوں

فکرونظر: عبدالکریم کریمیؔ

………………………………………….

نوٹ: یہ مضمون حال ہی میں شائع ہونے والا سہ ماہی رسالہ ’’موجِ ادب‘‘ سکردو کے ’’کمال الہامی نمبر‘‘ کے لیے خصوصی طور پر لکھا گیا تھا۔ ’’کمال الہامی نمبر‘‘ اپنی نوعیت کا ایک منفرد نمبر ہے جس پر بڑی محنت کی گئی ہے۔ زیر نظر تصاویر میں پہلی تصویر اس نمبر کا سرورق اور دوسری تصویر پروفیسر صاحب کے قلم سے لکھا گیا اعزازی کاپی پر محبت نامہ ہے۔ پروفیسر صاحب کی محبتوں کا ازحد شکریہ کہ وہ اپنی ہر علمی کاوش پر ہمیں یاد کرتے ہیں۔ ’’کمال الہامی نمبر‘‘ پر الگ سے تبصرہ ایک دو دنوں کے اندر آپ کی بینائیوں کی نظر ہوگا۔ تب تک کے لیے انتظار کیجئے گا سنا ہے بعض دفعہ انتظار تکلیف دہ نہیں لطف اندوز ہوتا ہے۔ سردست اس مضمون کو پڑھئیے اور مثبت سوچوں کو تقویت دیجئیے۔ شکریہ!

………………………………………….

پروفیسر حشمت علی کمالؔ الہامی صاحب سے میری شناسائی اُن دنوں ہوئی تھی، جب میں اپنی پہلی کتاب ’’شاید پھر نہ ملیں ہم‘‘ کے لیے بلتستان کی ادبی شخصیات سے تأثرات لینے سکردو کا ادبی دورہ کیا تھا۔

قبل ازین پروفیسر صاحب سے زیادہ شناسائی تو نہیں تھی، البتہ ان کی شاعری، ادبی کالم نگاری، افسانہ نویسی اور ادب سے دلچسپی کا ایک غائبانہ تعارف ضرور ہوچکا تھا۔ ان سے مل کر میں نے وہی محسوس کیا، جو میں نے ان کے بارے میں سنا تھا۔ بعد ازاں میری دیگر کتابوں کی اشاعت اور خصوصاً میری ادارت میں شائع ہونے والے سہ ماہی میگزین ’’فکرونظر‘‘ کے سلسلے میں پروفیسر صاحب سے ملاقاتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ میں جب کبھی بلتستان کی سرزمین پر حاضری دیتا، پروفیسر صاحب اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود مجھے خوش آمدید کہنے حاضر ہوتے اور رات گئے تک میرے ہوٹل میں بیٹھے ادب اور ادب عالیہ کی گتھیاں سلجھا رہے ہوتے تھے۔ میں کیسے بھول سکتا ہوں اس رات کو جب پروفیسر صاحب میرے پاس بیٹھے تھے ہمارے دوست انور بلتستانیؔ بھی ہمارے ساتھ تھے، ہماری گفتگو اتنی طویل ہوئی کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کہ رات کے دو بج گئے ہیں، پھر ہم ہوٹل سے باہر نکلے، پیدل ہی سکردو گرلز کالج روڈ سے ہوتے ہوئے پروفیسر صاحب کی رہائش گاہ سیٹلائٹ ٹاؤن پہنچے تھے، سکرود کی پُرامن فضا، ہوا کے خوشگوار جھونکے، پُرسکون چاندنی رات، گویا شہرسکردو سویا ہوا تھا، ایسے رومانوی ماحول میں ہم پروفیسر صاحب سے نہ صرف ادبِ عالیہ پر اُن کی پُرمغز گفتگو سن رہے تھے بلکہ اُن کے اشعارِ عالمانہ و عاشقانہ سے بھی کسبِ فیض کر رہے تھے۔

پروفیسر صاحب انتہائی مہمان نواز ہیں، اپنی رہائش گاہ میں دی گئی کئی پُرخلوص دعوتوں کے علاوہ دیوانِ خاص، انڈس اور مشہ بروم ہوٹل میں بھی اپنی مہمان نوازی کا ثبوت دیا ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ آپ سراپا محبت ہیں تو اس میں کوئی شائبہ نہیں۔ چند سال پہلے جب کسی کانفرنس میں شرکت کرنے کی غرض سے میں سکردو پہنچا۔ میں کچھ دن سکردو میں خیمہ زن رہا۔ میری رہائش بلتورو گیسٹ ہاؤس میں ہوتی تھی۔ جہاں ہر روز پروفیسر صاحب ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ تشریف لاتے اور ہم گھنٹوں محوِ گفتگو رہتے۔ اس دوران محمد حسن حسرتؔ ، فدا محمد ناشادؔ ، احسان علی دانشؔ ، ڈاکٹر مظفر حسین انجمؔ ، انور حسین بلتستانیؔ اور بشارت ساقیؔ کے ساتھ بھی بڑی دلچسپ نشستیں رہیں۔

جہاں تک ’’فکرونظر‘‘ کی بات ہے یہ میں اور میری ایڈیٹوریل ٹیم اچھی طرح جانتی ہے کہ پروفیسر حشمت کمالؔ الہامی صاحب کی تحریروں کا قارئین کو کتنا انتظار رہتا تھا۔ میگزین کی اشاعت کے دنوں کئی لوگوں کا فون آتاکہ اس دفعہ پروفیسر صاحب کی تحریر شامل ہے یانہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ پروفیسر صاحب نے ’’میرے ادبی تجربات و مشاہدات‘‘ کے عنوان سے قسط وار اپنے حالات زندگی جب لکھنا شروع کیا تو گویا ادب میلہ لگ گیا………… ہر طرف سے واہ واہ ہوا۔ میگزین کے نام قارئین کے سینکڑوں خطوط اس بات کے شاہد ہیں۔ پھر ان کی طرحی غزلوں کا کیا کہنا۔ فی البدیع ایسے ایسے ادب پارے تخلیق کرتے کہ جی چاہتا تھا وہ لکھے اور لکھے اور لکھے………… ہم بس پڑھیں اور لطف اُٹھائیں۔

مجھ پر پروفیسر صاحب کے بہت سارے احسانات ہیں۔ جب بھی مجھے آپ کی صحبت میں رہنے اور آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا موقع ملا، آپ نے نہ صرف کسبِ فیض کا موقع دیا بلکہ میری بھرپور حوصلہ افزائی بھی کی۔ ’’فکرونظر‘‘ کے اکثر شماروں کے بیک ٹائٹل کے لیے خصوصی نغمے آپ نے لکھے۔ اسی طرح ’’فکرونظر‘‘ کے خصوصی شمارے فکرونظر نمبر، آزادی نمبر اور کریمی نمبر کے لیے خصوصی نغمے اور خصوصاً میری شادی پر میرے اور میری مسز محترمہ سوسن پری کریمی کے نام آپ کا لکھا ہوا سہرا سرزمینِ پاک کے ادبی و علمی حلقوں میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ پھر میری دُختر نیک اختر آشا سوزین کریمی کی ولادت پر ’’تبریک تہنیت و قطعۂ تاریخ ولادت‘‘ کے عنوان سے آپ کی لکھی ہوئی خصوصی نظم میرے اور میری فیملی کے لیے متاعِ زیست کی حیثیت رکھتی ہے۔ میری ایک کتاب ’’تلخیاں‘‘ جو میرے اخباری مضامین کامجموعہ ہے ان دنوں طباعت و اشاعت کے مراحل میں ہے۔ جس کا پہلا فلیپ نظم میں آپ کا اثرخامہ ہے جبکہ دوسرا فلیپ محترم محمد حسن حسرتؔ صاحب نے لکھا ہے اور بیک ٹائٹل وائس آف امریکہ کی ویب ایڈیٹر مدیحہ انور صاحبہ نے لکھا ہے۔ میری اکثر کتابوں کی پروف ریڈنگ بھی پروفیسر صاحب نے کیا ہے۔ چند ایک نہیں سینکڑوں ایسے کام ہیں جو ناقابلِ فراموش ہیں۔ سچی بات ہے مجھے یہ مصرع بڑا حسبِ حال لگتا ہے کہ ؂

’’کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں‘‘

اب جبکہ میں پروفیسر صاحب کے فن و شخصیت پر کچھ لکھنے لگا تو یقین کیجئے گا کہ میں پریشان ہوگیا کہ کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں۔ کہاں سے شروع کروں اور کہاں پہ ختم کروں۔ اُن کی شخصیت بہت بڑی ہے اور میری معلومات بہت کم۔ پھر میں سوچتا رہتا ہوں کہ آخر کسے خبر تھی کہ اٹھارہ اگست انیس سو پچپن کو سیاحوں کی جنت بلتستان کے صدر مقام سکردو کے علاقہ کواردو میں پیدا ہونے والا یہ بچہ بڑا ہوکر ادب کی دُنیا میں نام کمائے گا۔ ایک علمی و مذہبی گھرانے کے چشم و چراغ ہونے کی بنا پر آپ کی دینی اور دنیاوی تعلیم میں توازن نظر آتا ہے۔ ۱۱؍ سال کی نو عمری میں آپ نے قرآن مجید ناظرہ ختم کیا۔ بعدازاں پنجاب اور سندھ کے مختلف علمی مراکز میں ۱۷؍ سالہ قیام کے دوران آپ نے بی اے، ایم اے اُردو، ایم اے معارف اسلامیہ اور ایل ایل بی کی ڈگریاں یکے بعد دیگرے حاصل کیں۔

حشمت علی کمالؔ الہامی ہر طرح کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب تیرہ مئی انیس سو چوراسی کو گلگت پہنچے تو انہوں نے پبلک سکول اینڈ کالج گلگت میں بحیثیت سنیئر انسٹرکٹر اُردو، اسلامیات اور عربی درس و تدریس سے منسلک ہوگئے۔ یاد رہے کہ اُس وقت پورے شمالی علاقہ جات (موجودہ گلگت بلتستان) میں صرف یہی ایک پبلک سکول تھا۔ اس سکول میں ملک و ملت کی نئی نسل کو زیورِ تعلیم سے مزّین کرنے، ان کو بہترین تربیت دینے اور انہیں علمی میدان کے لیے تیار کرنے میں انہوں نے مثالی کردار ادا کیا۔ یکم؍ نومبر انیس سو چھیاسی کو فیڈرل پبلک سروس کمیشن اسلام آباد سے مقابلے کا امتحان پاس کرکے بحیثیت لیکچرر اُردو ادبیات فیڈرل گورنمنٹ ڈگری کالج سکردو میں متعین ہوئے۔ اس دوران ان کی اچھی تعلیمی کارکردگی کی بنا پر انہیں ترقی دی گئی اور وہ اب بحیثیت پروفیسر و صدرنشین شعبۂ اُردو ادبیات اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

پروفیسر حشمت علی کمالؔ الہامی دوہزار چھ میں فیڈرل گورنمنٹ ڈگری کالج سکردو کے پرنسپل بھی رہے ہیں۔

پروفیسر صاحب نے اگرچہ فارسی، اُردو اور بلتی زبانوں کی مختلف اصناف میں بے شمار کلام لکھے ہیں، لیکن بطورِ خاص ملی، علمی، ادبی اور فوجی نغموں کے علاوہ اہم علمی شخصیات کی خصوصی فرمائش پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، ڈگری کالج سکردو، ڈگری کالج گلگت، پبلک سکول اینڈ کالج گلگت، الازہر پبلک سکول گلگت، سرسید پبلک سکول گلگت، جناح پبلک سکول سکردو اور شفقت پبلک سکول کے ترانے لکھے۔ پروفیسر صاحب بالعموم پورے گلگت بلتستان اور بالخصوص بلتستان کے شعراء کے لیے استاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ علم و ادب کے ہر میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دے کر انہوں نے پوری دنیا پر واضح کیا ہے کہ ارضِ شمال کے اہلِ قلم بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ وہ اپنے ایک شعر میں کتنی خوبصورتی کے ساتھ اس کا اظہار کرچکے ہیں۔ فرماتے ہیں ؂

پہاڑی سلسلے چاروں طرف ہیں بیج میں ہم ہیں

مثال گوہرِ نایاب ہم پتھر میں رہتے ہیں

پروفیسر صاحب کی ایک کتاب ’’رُباعیاتِ کمالؔ الہامی‘‘ کے نام سے منصہ شہود پر آئی ہے۔ ادب کی اس صنف میں غالباً گلگت بلتستان سے یہ پہلی کاوش ہے جو آپ کے سر سجتی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ دو ہزار بارہ کو سکردو سے تعلق رکھنے والی نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لنگویجز (نمل) اسلام آباد کی طالبہ خیرالنساء نے اپنا مقالہ بعنوان ’’حشمت کمالؔ الہامی، شخصیت اور شاعری‘‘ لکھا۔ خیرالنساء صاحبہ نے زیر نظر مقالہ (thesis) ایم۔ اے (اُردو) کی ڈگری کے حصول کے لیے لکھا ہے۔ یہ اِنتہائی خوش آئند بات ہے کہ اسلام آباد کے ایوانوں میں بھی یہاں کی علمی و ادبی شخصیات کی خدمات کو پزیرائی مل رہی ہے اور اس سے بھی خوش آئند بات یہ ہے کہ اِس سلسلے کا آغاز گلگت بلتستان کی ایک ایسی علمی و ادبی شخصیت سے کیا گیا ہے جس کو یہاں کے ادب کے آسمان کا چاند تارا کہا جاتا ہے۔

پروفیسر صاحب ہشت پہلو شخصیت بلکہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ پیاز کے چھلکوں کی طرح تہہ در تہہ ہر پرت کے بعد ایک نئی پرت سامنے آجاتی ہے اور ایک نئی دُنیا آباد ہوتی ہے۔ خیرالنساء صاحبہ کے اس مقالے کے حوالے سے میرا خصوصی کالم سہ ماہی ’’فکرونظر‘‘ کے جولائی دو ہزار بارہ کے شمارے میں چھپا ہے۔ اس کے علاوہ میری دوسری کتاب ’’فکرونظر‘‘ جو دو ہزار نو کو چھپی تھی، اس کتاب میں بھی پروفیسر صاحب کے فن و شخصیت پر ’’خوشبو کو تعارف کی ضرورت نہیں ہوتی‘‘ کے عنوان سے ایک تحریر شامل ہے۔ جس کو علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی گئی۔ میرے نزدیک ان کا شمار ان چند تخلیق کاروں میں ہوتا ہے، جنہوں نے قلم کی جس وادی میں بھی قدم رکھا، اُسے گل و گلزار بنا ڈالا۔ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں کئی لوگ اُن کی شخصیت کے ہر پہلو پر تحقیق کریں گے اور کتابیں لکھیں گے کیونکہ وہ واقعی اِس کے مستحق ہیں۔ میں عزیزم ناصر شمیم اور ان کی پوری ٹیم کو آفرین کہتا ہوں کہ انہوں نے اپنے رسالے ’’موجِ ادب‘‘ کا خصوصی نمبر پروفیسر صاحب کے نام شائع کرکے یقیناًبہت اچھا کام کیا ہے۔ کیونکہ موصوف اپنی گراں قدر خدمات کی وجہ سے گلگت بلتستان کے علمی و ادبی حلقوں میں ایک جانا پہچانا نام ہے۔ سچ کہا ہے کسی نے ؂

این سعادت بزور بازو نیست

میرزا اسد اللہ خان غالبؔ کے اس خوبصورت دُعائیہ شعر کو اپنے محترم دوست پروفیسر کمالؔ الہامی صاحب کی نذر کرتے ہوئے اجازت چاہوں گا ؂

تم سلامت رہو ہزار برس

ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button