پر امن اور جدید گلگت بلتستان کے معمار
رشید ارشد
امن اور سلامتی ،یہ دو الفاظ ایسے ہیں جس میں کائنات کا تمام حسن ،رعنایاں ،ترقی اور آسودگی کا راز پنہاں ہے ،امن و سلامتی کے سوا دنیا کی تمام سہولتیں اور تمام رعنائیاں و ترقی و آسودگی ہیچ ہے ،جس گھر میں دولت ،عیش و عشرت کی ریل پیل ہو اور امن و سلامتی کا گزر نہ ہوتو زندگی کا تصور ہی مدہم پڑ جاتا ہے ،گلگت بلتستان میں دنیا کی وہ کون سی دولت ہے جو نہیں ہے ،قدرت نے اپنی تمام نوازشات گلگت بلتستان کے عوام پر کر دی ہیں ،قدرتی وسائل سے یہ مالا مال حسین خطہ ترقی کی معراج پر ہوتا اگر امن اور سلامتی ہوتی ،زرا اندازہ لگائیں کہ مسلم لیگ ن کی حکومت میں ڈھائی برسوں میں امن کی وجہ سے گلگت بلتستان ترقی کے سفر پر گامزن ہوا ہے تو اگر ستر برسوں سے گلگت بلتستان کے عوام مذہب و مسلک کے نام پر دست و گریباں نہ ہوتے تو آج ہم ترقی کی کس معراج پر ہوتے ،
ہماری بدقسمتی کہ ہمارے سیاسی اور مذہبی قائدین نے مذہب و مسلک کی ان نفرتوں کو ختم کرنے کے بجائے اپنے مفادات اور سیاست کے لئے خوب استعمال کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر آنے والے حکمران نے اپنے وقتی فائدے کیلئے یہی مناسب سمجھا کہ یہ ماحول اسی طرح رہے تا کہ میں اس کشمکش میں سیاسی فائدہ اٹھاتا رہوں ،مذہب کے ٹھکیدار ہوں یا سیاست کے ٹھکیدار سب نے اس بہتی گنگا میں اشنان کیا ،
دنیا کے کسی دانشور سے کسی نے پوچھا کہ کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو آسان اور فوری حربہ کیا ہے ،دانشور کا جواب تھا تعصب میں مبتلا کرو ،کچھ ایسا ہی ہمارے ساتھ بھی ہوا،ہمیں مذہب و مسلک کے نام پر تقسیم کی ایک ایسی خلیج میں ڈالا گیا کہ جہاں زوال کی گہری کھائیاں ہی تھیں ،
تعصبات کے ماحول میں ہوتا یہ ہے کہ صاحب فراست اور اہل دانش کے لئے قوم کی قیادت کرنے کیلئے کوئی راستہ نہیں ہوتا ہے ایسے میں اس معاشرے کے بونے قیادت کی کرسی پر براجمان ہوتے ہیں اور یہ بونے کھبی نہیں چاہتے کہ تعصبات کا یہ ماحول ختم ہو کیونکہ ان کی چو ھدراہٹ کا راز یہی ہوتا ہے کہ تعصبات کی بھٹی گرم رہے ،تعصبات کے ماحول میں امن کی آواز بلند کرنے والے اہل دانش اور صاحب فراست لوگوں کو یا تو غدار کے القابات سے نوازا جاتا ہے یا ان کی آواز کو خاموش کراد ی جاتی ہے ۔اور جب اس ماحول کو کوئی صاحب فراست اور قوم کا درد رکھنے والا گروہ بہت ساری قربانیوں کے بعد ختم کرنے میں کامیاب ہو کر تعصبی بونوں سے قیادت چھین لیتا ہے تو یہ بونے اس قیادت پر ہر قسم کے الزامات بھی عائد کرتے ہیں اور ہر قسم کی سازشیں بھی کرتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہوتا ہے کہ اگر تعصبات سے پاک قیادت کو زیادہ ٹائم مل گیا تو قوم کو حقیقت کا ادراک ہوگا ایسے میں اس معاشرے میں ان کا دانہ پانی بند ہوگا ،
قارئین اب چشم تصور سے ماضی کے جھرنکوں میں جھانکھیں تو صاف نظر آئے گا کہ گلگت بلتستان میں اس طرح کا ہی ماحول تھا تعصبات کی بھٹی گرم کر کے ہمارے معاشرے کی بونے ،نکمے اور دماغ سے پیدل لوگ ہمارے قائدین بن گئے جنہوں نے دن بدن گلگت بلتستان کو صرف اپنے مفادات کیلئے تعصبات کی بھٹی میں جھونک دیا ،زرا یاد کریں اس تباہ کن ماحول کو جب گلگت میں نو گو ایریاز بن چکے تھے دن دھاڑے مذہب و مسلک کے نام پر خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی ایسے میں گلگت میں ایک قوم کے درد میں ڈوبے دیوانے نے امن کی آوازلگائی تو بونوں کو کہاں یہ بات گوارا تھی کہ ان کے مفادات کے رنگ میں بھنگ ڈالے اس لئے سیف الرحمن کی آواز کو خاموش کرادیا ،جہاں امن کی امید پیدا ہوئی تھی اور لوگوں کے چہروں پر امن و سلامتی کی رونقیں سجنے والی تھیں وہاں سیف الرحمن کی شہادت سے پھر سے امن پسند مایوس ہو گئے اور ایک دفعہ پھر سے بونوں کا راج ہوگیا ،خون کی ہولی پھر سے شروع ہو گئی ،ایسے میں پیپلز پارٹی جیت کر مسند اقتدار پر جلوہ افروز ہو گئی ،عوام کو ا،مید پیدا ہوئی کہ ایک بڑی جماعت اقتدار میں آگئی ہے ہو سکتا ہے امن کی بہاریں آجائیں لیکن قوم اس وقت مایوس ہوئیں جب پیپلز پارٹی نے علاقے کو امن دینے کے بجائے پہلے سے بھی زیادہ بد امنی دی ،آئے روز فسادات سے گلگت بلتستان کا ہر فرد اپنے مستقبل سے مایوس ہو گیا ،گلگت بلتستان میں سیاح آنا بند ہو گئے ،ہوٹل ویران ،کاروبار تباہ اور مقامی لوگوں نے حالات سے تنگ آکر نقل مکانی شروع کی تا کہ اپنی آنے والی نسلوں کا ،مستقبل محفوظ کر سکیں ،خیر پیپلز پارٹی کے کرتوت اس کے سامنے آگئے ،عوام میں شعور بیدار ہو چکا تھا اور شعور کی اسی بیداری میں مسلم لیگ ن پر اعتماد کا اظہار کیا ،مسلم لیگ ن کو جب اقتدار ملا تو ورثے میں گلگت ،میں فساد ،معیشت کی تباہی ،کاروبار کی تباہی ،کرپشن ،اقربہ پروی اور بیڈ گرننس کی کہانیوں اور محرومیوں کے علاوہ ،تباہی سے دوچار انفراسٹیکچر ملا ،پیپلز پارٹی کے پورے دور میں گلگت بلتستان میں امن تو تباہ ہوا تھا لیکن ترقی کے نام پر ایک کلوٹ نہیں بناتھا ،مسلم لیگ ن کے لئے بہت زیادہ چیلنجز تھے ایسے میں سب سے مشکل مرحلہ امن بحال اور ترقی کا سفر شروع کرنا تھا ،مسلم لیگ ن پچھلے ستر برسوں کے تعصبات اور نفرتوں کو اپنے پانچ سالہ دور میں کم بھی کرتی تو یہ بہت بڑی کامیابی تصور ہوتی ،آفریں ہو شہید امن سیف الرحمن کے فکری وارث حفیظ الرحمن نے محض ڈھائی برسوں میں امن قائم کر کے پورے دنیا کے سیاحوں کو گلگت بلتستان کی طرف راغب بھی کر دیا ،کاروبار زندگی کو رونقیں بخشیں اور پچھلے ستر برسوں میں اتنی ترقی نہیں ہوئی تھی جتنی ڈھائی برسوں میں کر کے ثابت کر دیا کہ قیادت کے سینے میں قوم کے درد کے ساتھ ساتھ مستقبل شناسی اور فکر ہو تو انقلاب برپا کئے جا سکتے ہیں ،محض ڈھائی برس قبل گلگت بلتستان میں غیر ملکی سیاح تو درکنار ملکی سیاح بھی آنے سے پہلے سو دفعہ سوچتے تھے ،گلگت بلتستان کا کاروبار تباہ تھا ،ہوٹل ویران تھے اسی گلگت بلتستان کو حفیظ الر حمن نے محض ڈھائی برسوں میں پوری دنیا کے لئے پرکشش بھی بنایا اور ترقی کے پچھلے سارے ریکارڑ بھی توڑ دئے ،ایسے میں سیاسی بونوں کو اپنی شکست مستقبل میں بھی صاف نظر آئی تو سازشیں بھی کر رہے ہیں اور عوام کو بے قوف بنانے کیلئے مختلف بھونڈے قسم کے الزامات بھی لگا رہے ہیں شاید ان سیاسی بونوں کو یہ خبر نہیں کہ اب گلگت بلتستان کے عوام شعور کی منزلوں سے آشنائی حاصل کر چکے ہیں اور اب نہ تو مسلکی تعصب کا سودا بکے گا اور نہ علاقائی اور قومی تعصب کا سودا بکنے کا کوئی امکان ہے ،وہ دن گئے جب سیاسی بونے اپنے مفادات کیلئے مذہب و مسلک کے کارڑ استعمال کر کے عوام کو گمراہ کر رہے تھے ،اب بدلتا ہوا گلگت بلتستان ہے ،اس نئے گلگت بلتستان میں صرف امن ہے سلامتی ہے اور محبت و ترقی ہے،لہذا وقت کی آواز سنیں ،پر امن اور ترقی کی منزلیں طے کرتے گلگت بلتستان کیلئے نفرتوں ،سازشوں اور تعصبات کی دوکانوں پر تالہ لگا کر امن اور ترقی کے اس قافلے کا حصہ بنیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو روشن مستقبل دیں ،حفیظ الرحمن اگر اور کچھ نہ بھی کرتے صرف امن بحال کرتے تو یہ ایک بہت بڑا تاریخی کارنامہ ہوتا لیکن حفیظ الرحمن نے ڈھائی برسوں میں ہی امن بھی بحال کیا اور ستر برسوں کی ترقی کے ریکارڑ بھی توڑ دئے ،
حرف آخر،سیاسی مخالفین اپنی سیاسی مجبوریوں کے بندھن میں جکڑ کر حکومت کے خلاف بیان بازی کر کے حقیقت بیان نہیں کر سکتے تو کوئی بات نہیں آپ کی سیاسی مجبوریاں سچ بولنے نہیں دیتی ،لیکن مورخ تو سچ ہی لکھے گا اور سچ یہ ہے کہ وزیر اعلی حفیظ الرحمن جدید گلگت بلتستان کے معمار ہیں