سوشل میڈیا : موثر استعمال کے رہنما اصول
تحریر: شریف ولی کھرمنگی۔ بیجنگ
سوشل میڈیا کی اہمیت اور معاشرے پر اس کے کردار سے ہر کوئی واقف ہے۔ یہ بات بھی نئی نہیں رہی کہ دنیا بھر میں خاص کر نئی نسل اسی سوشل میڈیا کے توسط سے بہت اہم امور بھی انجام دیتے ہیں اور بہت ہی قبیح ترین کام بھی۔ ترقی یافتہ ممالک میں کیا کچھ ہورہا ہے، عام طور پر ان کی خبریں ہمارے ہاں بہت کم پہنچتی ہے۔ اور جو کچھ پہنچتی ہے وہ بھی سوشل میڈیا کے ہی طفیل۔ جبکہ زبان و بیان کی مشکلات اور دلچسپیوں کی تفریق کیساتھ ساتھ سوشل میڈیا ذرایع کی اپنی پالیسیوں کے تحت دنیا میں سوشل سرکلز بھی ملکوں، معاشروں، مذاہب، اور زبانوں کے حساب سے ہی ایک دوسرے علاقے، زبان، معاشرہ اور ملک کے باسی تک پہنچ پاتا ہے۔ مثلا پاکستانی اردو اور انگریزی میں آئے پوسٹ تو دیکھتے ہی رہتے ہیں، لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ عربی، چائنیز،یا ہندی زبانون میں پبلک فورمز میں کئے پوسٹ بھی بار بار آپ کے سامنے آتا رہے۔ زمانے کا تقاضا ہے کہ ہم ان جدید ذرائع کو بہتر انداز میں اور مثبت کاموں کیلئے استعمال کرنا سیکھیں اور اپنی نسلوں کو سکھائے۔ لیکن دیکھا یہ جاتا ہے کہ ہم مثبت کم جبکہ منفی سرگرمیوں کیلئے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے سکول اور کالج کے طلباٗ خاص طور پر متاثر ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس زمانے کو ثقافتی یلغار کا زمانہ بھی شاید اسی لئے کہا جاتا ہے کیونکہ دنیا سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے باقاعدہ جنگ سے کترانے لگے ہیں اور سمجھ لیا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام، یمن کی جنگوں سے کسی کی جیت نہیں ہوئی۔ چین جیسا اقتصادی سپر پاور اس حقیقت کو پہلے ہی درک کر چکا تھا۔ اب زمانہ سوشل جنگوں کا ہے اور ہمارے سامنے عرب سپرنگ، ویلویٹ ریوولیوشن، اور دیگر مثالیں موجود ہیں کہ سوشل میڈیا پر اب مختلف معاشرے باقاعدہ جنگیں لڑ رہی ہیں۔چائینہ مجبور ہے کہ وہ اپنی معاشیت اور ثقافت کو بیرونی یلغار سے بچانے کیلئے مغربی سماجی ویب سائٹس پر پابندی لگادیں۔ یہی کچھ حال روس کا ہے۔ ایران سمیت دیگر کئی ممالک نے بھی بیرونی ممالک کی سماجی ویب سائٹس کو بند کردیئے، پاکستان میں بھی کافی عرصۃ فیس بک اور یوٹیوب بند رکھا گیا۔ حال ہی میں فیس بک پر الزام لگا کہ کڑوڑوں صارفین کا ڈیٹا امریکی انتخابات کے دوران ناجائز طریقے سے استعمال ہوئے، فیس بک کے بانی نے معذرت بھی کی اور اب امریکا اور برطانیہ میں ان کے خلاف کیسز بھی چل رہے ہیں۔
مسلمان ممالک خصوصا پاکستان کی اپنی کوئی سماجی ویب سائٹ تو ہے ہی نہیں، بیرونی دنیا کے ان اداروں اور سائٹس پر ہماری چلتی نہیں۔ پابندی ہم سے لگنی نہیں کیونکہ استعمال کئے بنا کسی نے رہنا نہیں۔ چاہے بڑے ہوں یا چھوٹے۔ اور استعمال کرنیمیں کوئی قباحت اور مسئلہ بھی بظاہرنہیں۔
یہ بات تو طے ہے کہ کسی بھی چیز کی بہتات اچھی نہیں ہوتی۔ اور سوشل میڈیا کے استعمال میں کوئی باقاعدہ گائیڈ لائن یا طریقہ کار نہ ہوں تو اسکے مضر اثرات سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ ہم شاید فی الحال اس چیز کو درک نہیں کرپائے، لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے سامنے امریکا جیسی ترقی یافتہ ممالک بھی مجبور ہیں کہ وہ سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کو یقینی بنانے کیلئے باقاعدہ سرکاری فنڈ ز میں سے بجٹ مختص کرے۔ ہر ریاست میں محکمہ تعلیم کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ سکولوں میں بچوں کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کو یہ بھی سکھائے کہ ان کے بچوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کے آداب کیسے سکھائے جائیں۔کیوں؟ کیوں کہ ان کے تجربات ہوچکے ہیں ماں باپ گھر میں کتنا ہی خیال کیوں نہ رکھے، سکول میں کتنی اچھی تعلیمی نظام کیوں نہ ہو اگر طالبعلم کا حلقہ احباب،خصوصا آج کل کے زمانے میں سوشل نیٹ ورک اچھے نہ ہوں تو وہ کسی اور راہ لگ جانے میں دیر نہیں کرتا۔امریکہ اپنی نئی نسل کو سوشل میڈیا پر کس طرح کے کردار ادا کرنے اور سکھانے پر مجبور ہیں۔؟ انہیں ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور ایسا کرنے سے کیا کچھ فرق پڑیگا؟ اسطرح کے سوالات تفصیل طلب ہے۔ کچھ سالوں سے امریکی ریاستوں کی حکومتیں باقاعدہ کوشش کررہی ہیں کہ تعلیمی نظام کو بہتر ٹریک پر رکھنے کیلئے سوشل میڈیا کے بہتر استعمال کو یقینی بنائی جائے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی شہر نیویارک حکومت کے محکمہ تعلیم نے ] طلبا کے سوشل میڈیا کے رہنمائی خطوط کے لیے والدین اور اہل خانہ کی رہنمائی[ کے نام سے باقاعدہ بارہ سال اور اس سے کم عمر کے بچوں کیلئے الگ اور بارہ سال سے زیادہ عمر کے بچوں کیلئے الگ گائیڈ لائن وضع کئے اور ان کو دنیا کے مختلف زبانوں میں تحریرکرنے کے ساتھ ساتھ والدین کی رہنمائی کیلئے ویڈیوز اور دوسروں کے آرا تک شامل کرکے شایع کردیئے۔نیویارک سٹی گورئمنٹ اور سکولز کی مرکزی ویب سائٹ پر بھی ڈال دیئے۔]جسکا خلاصہ اس تحریر میں شامل ہیں[۔ اور شہر کے ہر سکول اور ہر سکول میں پڑھنے والے بچوں کے والدین کو بھی ظاہر ہے پہنچا دی گئی ہیں تاکہ۔۔۔؟ سوال یہ ہے کیا یہ بات نیو یارک حکومت تک محدود ہے؟ کیا دوسری قومیں ہماری طرح ہیں؟ نہ سکولوں میں تعلیم کا بہتر نظام، نہ نئے تقاضوں کے مطابق تعلیم و تربیت؟ یقیناًنہیں، چائینہ، یورپ، رشیا، اور دنیا بھر میں سوشل میڈیا اتھکس کو اب ضروری سمجھا جاتا ہے۔ بچوں اور بچوں کیوالدین کی تربیت کی جاتی ہے۔ انکو سوشل میڈیا کے آداب باقاعدہ پڑھائے اور سکھائے جاتے ہیں۔
دوسری طرف ہم ہیں پاکستانی، خصوصا گلگت بلتستانی۔ مسلمان ہیں۔ سماجی و دینی اقدار ہیں۔ بہت ساری ذمہداریاں ہیں سب پر۔ سرکاری پالیسیوں کو تورکھیں اپنی جگہ وہ تو دو انچ تارکول سڑک پر چڑھا کے احسان عوام پر ڈالتے ہیں۔ لیکن والدین؟ اکثریت خود ٹیکنالوجی سے واقف نہ تعلیم اتنی کہ دنیائی حوادث سے آشنائی ہو۔ اور ان حوادث کیلئے اپنے بچوں کی کوئی رہنمائی کرسکیں۔ نتیجتا، بچے اپنی راہ خود چنتے نکلتے جاتے ہیں، اچھے کو برا سمجھے، یا کچھ برے لوگ برائی کو ہی اچھا بنا کر انکو سمجھائے، بچارے والدین کو تو پتہ ہی نہیں چلتا۔ جب سالہا سال شہروں میں رہنے کے بعد اور بعض تو اپنے ہی گھر میں ہی رہتے ہوئے کسی اور سوچ کا مالک بن چکنے اور والدین، اخلاق، اطوار، روایات، سب کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑے ہونے تک بے خبر رہتے ہیں۔
باتیں لمبی ہوجارہی ہے۔ مختصرا۔سوشل میڈیا کے بارے میں اپنے بچوں کی رہنمائی پر توجہ دیں۔۔ اگر والدین اور گھر کے بڑے نہیں دینگے تو کل کو پچھتائیں گے۔اس کیلئے کم از کم شیطان بزرگ امریکہ کی طرفسے اپنے شہریوں کیلئے پیش شدہ رہنمائی (اردوزبان میں تحریر لنک مضمون کے آخر میں ) کا ہی ایک بار مطالعہ کر لیں۔۔۔ خلاصتا چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
۱۔ شہ سرخی مشق: اگر آپ کا بچہ ایک اخبار کے مضمون کا عنوان ہوتا تو یہ اس مضمون کے ساتھ کیسی شہ سرخی دیکھنا چاہیگی؟ شہ سرخی کو تحریر کریں۔ دوستوں، اہل خانہ اور مشہور افراد کی شہ سرخیاں کیسی ہو سکتی ہیں۔ آپ کی اور آپ کے بچے کی موجودہ آن لائن جگہوں پر موجود تصاویر اور پوسٹس کی نوعیت کا جائزہ لیں۔ کیا یہ آپ دونوں کے پسندیدہ عنوان سے میل کھاتی ہیں؟ اگر نہیں، تو کیا مستقبل کی پوسٹس ایسی ہونی چاہئیں؟
۲۔ بچے کو پتہ ہونا ضروری ہے کہ آپ کے بچے کے پوسٹ سے انکے اساتذہ، دوست، رشتے دار کیا تاثر لیتے ہیں؟یعنی اسکی شخصیت اور سوچ کیسی ہے۔ ذاتی حساس معلومات کو پوسٹ نہ کریں۔اپنے بچے کو بتائیں کہ اپنا پتہ، تاریخ پیدائش، یا دیگر ذاتی معلومات کو پوسٹ کرنا کیوں غیر محفوظ ہے اور شناخت کی چوری (آئی ڈینٹٹی تھیفٹ) کا کیا مطلب ہے۔
۳۔ تعارف، پس منظر کس طرح سے لکھ کر پیش کرتے اور کیسی تصاویر شیر کرتا ہے؟ عام لوگوں کو ان سے کیا تاثر مل رہا ہے؟
۴۔ بچے کو جاننا لازمی ہے کہ وہ ذمہ داری کے ساتھ پوسٹ کریں ۔ اپنے سامعین کو ذہن میں رکھیں، اس کیلئے والدین کا اپنے بچے کیساتھ ایک مشترکہ اکاونٹ بنانا، پرائیوسی کا خیال، دوستیاں وغیرہ مل کرنا، بات چیت جاننے والوں سے ہی کرنا،۔۔ جو چیز پوسٹ کی جارہی ہیں اسکی ضرورت، اہمیت، افادیت سے واقف کاری بہت اہم ہے۔
۵۔ اپنے آن لائن سرگرمیوں کے نتائج کے بارے میں سوچیں اور یہ جانیں کہ یہ کس کو بطور دوست، یا فالو کرنے والا وغیرہ شامل کررہے ہیں۔ ذاتی حساس معلومات کو پوسٹ نہ کریں، معلومات کو راز رکھیں، سکول سے ملنے والی بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر مبنی رپورٹ پر غور کریں، بچے کے اکاونٹ کو خود فالو کریں، دوست بنائے رکھیں اور انکی رہنمائی کرتے رہیں۔
۶۔ سائبر غندہ گردی کی دھمکیوں کو سنیجیدہ لیں۔ پنے بچے کے اسکول کے دوستوں اور ان کے ساتھ ملکر کرنے والی سرگرمیوں پر نظر رکھیں، گھر پر طرز عمل سے آگاہ رہیں، اگر آپ کو شک ہے کہ آپ کے بچہ کیساتھ کوئی غندہ گردی کر رہا ہے تو صورت حال کو سمجھنا اہم ہے۔
۷۔ اپنے بچے کی آن لائن برادریوں میں مثبت رہنے کی حوصلہ افزائی کریں۔ایسے دیگر افراد کی نشان دہی کریں جو مثبت انداز میں شرکت کرتے ہیں۔
۸۔ اس بات پر دھیان دیں آپ کے بچے کا رویہ ایک دم کیوں تبدیل ہو جاتا ہے۔ روزہ مرہ کی سرگرمیوں سے خارج ہونا، آن الئن اور ٹیکسٹ کرتے وقت غصہ کرنا، جب کسی بالغ کی آمد ہو تو جلدی سے اپلیکشنز کو بند کرنا، یا اس بارے میں بات چیت کرنے سے اجتناب کرنا کہ یہ کمپیوٹر پر کیا کر رہے ہیں۔
۹۔ حالات حاضرہ کو استعمال کریں۔ خبروں میں واقعات اور دوستوں اور اہل خانہ کی صورت حال ذمہ داری کے ساتھ پوسٹ کرنے کے بارے میں بات چیت کرنے کے عمدہ مواقع فراہم کرتی ہیں۔ ”ہمیں یہ جاننے کی ضرورت کیوں ہے؟” جیسے سوال کا تیار جواب فراہم کرتا ہے۔
LINK: http://schools.nyc.gov/NR/rdonlyres/F877C065۔B852۔4A16۔9479۔645C1ABC1F76/0/24191_ParentandFamilyGuide13andOlder_Urdu.pdf