’’موجِ ادب‘‘ کا ’’کمال الہامی نمبر‘‘ – ایک جائزہ
فکرونظر: عبدالکریم کریمیؔ
نوروز سے ایک دن پہلے کی بات ہے۔ میں گلگت میں کسی اکیڈمک سیشن میں تھا۔ دورانِ سیشن موبائل کی سکرین پر پروفیسر حشمت علی کمالؔ الہامی صاحب کا نام نمودار ہو رہا تھا۔ میں ان کی کال اٹینڈ نہیں کرسکا۔ ٹی بریک میں، میں نے کال بیک کی۔ کال اٹینڈ ہوتے ہی پروفیسر صاحب کی خوبصورت آواز سماعتوں سے ٹکرائی۔ فرمانے لگے ’’کریمی صاحب! سہ ماہی ’’موجِ ادب‘‘ کا ’’کمال الہامی نمبر‘‘ شائع ہوا ہے۔ آپ کہاں ہیں اور آپ کی اعزازی کاپی آپ کو کیسے پہنچائی جائے؟‘‘ یہ خبر ایسی تھی کہ چائے کی میز کی طرف تیزی سے بڑھتے میرے قدم مشینی انداز میں رُک گئے۔ میں نے سیشن کے شرکاء کے ہجوم سے خود کو الگ کیا اور پروفیسر صاحب کو اس ادبی کارنامے پر ہدیۂ تبریک پیش کی۔ اس دوران رسالے کے مدیراعلیٰ عزیزم ناصر عباس شمیم سے بھی بات ہوئی۔ میں نے انہیں اپنا لوکیشن بتایا کہ میں دوچار دن گلگت میں ہی ہوں۔ وہ مشہ بروم ٹورز کے ذریعے مجھے رسالے کی کاپی بھیج سکتے ہیں۔ میں خوشی سے نہال ہو رہا تھا کیونکہ یہ صرف اعزازی کاپی کی خبر نہیں تھی بلکہ فصلِ بہار کی سرمدی گیتوں کی آغوش میں محبتوں کی ایک ادبی سوغات تھی۔
پھر نوروز کی شام میں اپنے بیٹے ننھے سمیر کا ہاتھ تھامے جوٹیال اڈے میں مشہ بروم ٹورز کے دفتر میں تھا۔ منشی نے بڑے سائز کا ایک بھاری بھر کم خوبصورت لفافہ مجھے تھما دیا۔ مجھے یاد ہے میں نے دیوانہ وار لفافہ کھولا تھا۔ رسالے کا سرورق ہی آنکھوں کو علمی طمازت دینے کے لیے کافی تھا۔ تقریباً چار سو صفحات پر مشتمل ’’موجِ ادب‘‘ کا ’’کمال الہامی نمبر‘‘ ایک معمولی رسالہ نہیں بلکہ ایک ضخیم کتاب کا تأثر دے رہا تھا۔
اب ذرا اس ادبی دبستان کی سیر کرتے ہیں۔ سرورق پر بلتستان کے نامور مصوّر سید شکیل شاہ بلتستانیؔ کی پروفیسر صاحب کی مطالعہ و تحریر میں محو تجریدی تصویری مصوری فدا محمد ناشادؔ صاحب کے خوبصورت اشعار کی مالا کے ساتھ چسپاں ہے۔ اس دلکش مصوری کے بالکل نیچے خود پروفیسر کمالؔ الہامی صاحب کا یہ خوبصورت شعر رسالے کے قد کاٹھ کو اٹھان دے رہا تھا
پہاڑی سلسلے چاروں طرف ہیں، بیچ میں ہم ہیں
مثالِ گوہرِ نایاب ہم پتھر میں رہتے ہیں
اندرونی پہلے صفحے پر پروفیسر صاحب کے ہاتھ سے لکھا ہوا محبت نامہ برائے اعزازی کاپی گویا ذرّے کو آفتاب بنانے کے مترادف ہے۔ میرے دوست احمد سلیم سلیمیؔ صاحب کا کہنا ہے:
’’لکھاری بڑا بڑ بولا ہوتا ہے وہ چاہے تو ذرّے کو آفتاب بنادے اور نہ چاہے تو لعل و گوہر بھی بے معنی۔‘‘
پروفیسر کمالؔ الہامی صاحب ایک ایسے پُرخلوص لکھاری ہیں کہ آپ کو ان کے ہاتھ سے لکھے ہوئے اس محبت نامے میں ذرّے کو آفتاب بنانے کی دلیل مل جائے گی۔ پروفیسر صاحب نے لکھا ہے:
’’بسمہ سبحانہ
ہدیۂ اخلاص و محبت بہ پیش گاہِ محترم المقام، قابلِ صد احترام، دوستِ گرامی قدر و عزیز المرتبت، منفرد اندازِ تحریر کے نثر نگار و افسانہ نگار، معروف کالم نگار، خوبصورت خیالات کے شاعر، سہ ماہی علمی و ادبی جریدہ ’’فکرونظر‘‘ کے چیف ایڈیٹر، الواعظ و روحانی پیشوا جناب عبدالکریم کریمی۔
منجانب پروفیسر حشمت علی کمالؔ الہامی
سابق پرنسپل و صدر شعبۂ اُردو و اُستادِ ادبیاتِ اُردو، گورنمنٹ ڈگری کالج سکردو۔‘‘
واہ! خوبصورت الفاظ گویا پروفیسر صاحب کے سامنے ہمیشہ سجدہ ریز رہتے ہوں۔ اتنے خوبصورت الفاظ اور اتنی تعریف؟ جناب! یہ موصوف خود اچھے ہیں اس لیے مجھ جیسے لوگ انہیں اچھے لگتے ہیں ورنہ ’’من آنم کہ من دانم۔‘‘
بعد ازاں پروفیسر صاحب کی لکھی ہوئی حمد باری تعالیٰ اور نعتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یکے بعد دیگرے بڑے سلیقے سے درج ہیں۔ دوسرے صفحے میں رسالے کے سرپرست اعلیٰ فدا محمد ناشادؔ ، منتظم اعلیٰ محمد حسن حسرتؔ ، مدیر اعلیٰ ناصر عباس شمیم، مدیر سرور حسین سکندر اور معاون مدیر ذکریا شمیم کے نام بالترتیب درج ہیں۔ مجلس مشاورت اور حلقۂ قرطاس و قلم ہم فکرو ہم قدم کی فہرست میں خطے کے نامور شعراء و ادباء کے نام دیئے گئے ہیں۔ تیسرے صفحے میں ابواب بندی ہے۔ چودہ ابواب کی تفصیل کچھ اس طرح سے دی گئی ہے۔ گلدستۂ اوّل میں افتتاحیہ یا تعارف نامہ ہے۔ جس میں وزیراعلیٰ، سپیکر، وزیر برقیات و خزانہ، وزیر تعلیم اور سابق وزیر اطلاعات و نشریات کے تہنیتی پیغامات ہیں۔ ’’کمال الہامی نمبر‘‘ پر خصوصی اداریہ مدیراعلیٰ کی طرف سے اور پروفیسر کمالؔ الہامی کی طرف سے سپاس گزاری کے ساتھ ادارے کی طرف سے پروفیسر کمالؔ الہامی کا مختصر زندگی نامہ بینائی کو ملتا ہے۔ گلدستۂ دوّم میں سرچشمۂ علم و معرفت کے عنوان سے انتیس علمائے دین کی پُرخلوص تحریریں شاملِ اِشاعت ہیں۔ گلدستۂ سوّم میں جلوۂ حکمت و دانش کے نام سے مختلف کالجوں کے بیس پرنسپل صاحبان و صاحبات کی پُرمغز تحریریں شامل کی گئی ہیں۔ گلدستۂ چہارم میں جہانِ تحقیق و تنقید کے عنوان سے چودہ محققین اور دانشوروں کے نقد و تبصرے درج ہیں۔ گلدستۂ پنچم میں نگار خانۂ فکروفن کے نام سے اکیس ادباء و شعراء کی دلکش نگارشات زیبِ قرطاس ہیں۔ گلدستۂ ششم میں اُفق در اُفق کے عنوان سے میڈیا سے وابستہ بائیس اہلِ قلم صحافیوں کی قلمی رنگینیاں شامل ہیں۔ گلدستۂ ہفتم میں دانشکدہ و دانشگاہ کے نام سے مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں کے بائیس پروفیسر حضرات کے خوبصورت مشاہدات و خیالات شامل ہیں۔ گلدستۂ ہشتم میں گلستانِ پُربہار کے عنوان سے شاہراہِ علم و ادب پر رواں دواں پچیس اہلِ قلم کی قلمی رنگینیاں زیبِ داستاں ہیں۔ گلدستۂ نہم میں چٹکتی کلیاں کے نام سے پروفیسر صاحب کے بتیس شاگردوں کے مہر و محبت بھرے عقیدت نامے شامل ہیں۔ گلدستۂ دہم میں کہکشاں کے عنوان سے پروفیسر صاحب کے فکروفن و شخصیت کے بارے میں منظوم تحفے اور خود پروفیسر کمالؔ الہامی صاحب کے کلام کے نمونے درج ہیں۔ گلدستۂ یاز دہم میں آفتاب آمد جوابِ آفتاب کے عنوان کے تحت منظوم خطوط و جوابِ خطوط اور بلتی زبان میں منظوم تراجم شامل کیے گئے ہیں۔ گلدستۂ دواز دہم میں ضمیمہ جات کے نام سے رسالے کو بعد میں موصول ہونے والی تحریریں شامل کی گئی ہیں۔ گلدستۂ سیز دہم میں فانوسِ خیال کے عنوان سے پروفیسر کمالؔ الہامی صاحب کے نثری نمونے زیبِ قرطاس ہیں اور گلدستۂ چہار دہم میں قوسِ قزح کے عنوان سے بتیس صفحات پر مشتمل رنگین تصاویر شامل ہیں۔ پشت ورق پر سہ ماہی ’’موجِ ادب‘‘ کے نام لکھے گئے پروفیسر کمالؔ الہامی صاحب کے خوبصورت اشعار درج ہیں۔ اس کے ساتھ ملک عزیز کے نامور شعراء و ادباء کے ساتھ پروفیسر صاحب کی ایک یادگار گروپ تصویر ہے۔ جوکہ اس کے صوری حسن کو مزید نکھار بخشتی ہے۔ مجھے اس خوبصورت رسالے کو پڑھنے میں پورے دو دن لگ گئے۔
خوش نصیب ہے وہ معاشرہ جہاں اہلِ علم کی قدر کی جاتی ہے اور خوش نصیب ہے وہ انسان جس کو اپنی زندگی میں ہی عزت افزائی مل جاتی ہے۔ اس حوالے سے پروفیسر کمالؔ الہامی صاحب کو اپنی خوش بختی پہ ناز ہوگا کہ ان کو اپنی زندگی میں ہی وہ قدر و منزلت ملی کہ جس پر ہم سب کو ناز ہے۔ ورنہ تو ہماری ریت یہ رہی ہے کہ مرنے کے بعد مردے کی تعریف کریں۔ اس صورتِ حال کی کسی دل جلے نے کیا خوب منظر کشی کی ہے۔ کہتے ہیں
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
ڈاکٹر علاّمہ اقبالؒ سے جب کسی نے پوچھا تھا کہ ’’ڈاکٹر صاحب کیا بات ہے کہ مغربی اقوام اپنی بڑی شخصیات کی قدر اُن کی زندگی میں کرتی ہیں۔ جبکہ ہم مرنے کے بعد مرنے والے کی تعریف و توصف کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟‘‘ تو علامہ اقبالؒ نے مختصر جواب دیا تھا کہ ’’زندہ قومیں ہمیشہ زندوں کی قدر کرتی ہیں اور مُردہ قومیں مُردوں کی۔‘‘
’’کمال الہامی نمبر‘‘ کے اجراء سے لگتا ہے کہ یہ قوم مردگی سے زندگی کی طرف سفر کرنے لگی ہے۔ اور سفر کا آغاز جس علمی و ادبی شخصیت سے کیا گیا ہے وہ اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ کیوں نہ ہو پروفیسر کمالؔ الہامی صاحب نے جو زندگی گزاری ہے وہ اپنی ذات سے ہٹ کر ہمیشہ دوسروں کی بات کی ہے۔ بقول کسے
سبھی کو اپنے غم ہوتے ہیں لیکن
مجھے جو غم ہے وہ میرا نہیں ہے
علماء جو وارثِ انبیا ہوتے ہیں۔ پروفیسر کمالؔ الہامی صاحب کے بارے میں ان کے تأثرات پڑھ کر رشک ہوا۔ جہاں اہلِ تشیع کے ممتاز علمائے دین علامہ شیخ محسن علی نجفی اور علامہ شیخ محمد حسن جعفری پروفیسر کمالؔ الہامی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں تو وہاں اہلِ سنت و الجماعت کے مولانا ابراہیم خلیل، اہلِ حدیث کے مولانا عبدالقادر رحمانی، شیعہ امامی اسماعیلی مسلمانوں کے جید عالم دین اعتمادی الواعظ فدا علی ایثارؔ ہنزوی اور حقیر راقم الواعظ کریم کریمیؔ بھی ان کی ادبی و علمی خدمات کے معترف ہیں۔ پھر بابِ اوّل سے بابِ چہار دہم تک زندگی کے تمام شعبوں سے منسلک لوگ انہیں خراجِ تحسین پیش کرچکے ہیں۔کس کس کی بات کی جائے، کس کس کا حوالہ دیا جائے۔ ایک دبستان ہے کہ پڑھتا جا اور ناز کرتا جا۔ فخر کرتا جا۔
مجھے ذاتی طور پر جن تحریروں میں ادبی قد کاٹھ نظر آیا۔ یا یوں سمجھئے جن تحریروں سے میں لطف اندوز ہوا۔ ان میں محمد یوسف حسین آبادی، فدا محمد ناشادؔ ، ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ ، محمد حسن حسرتؔ ، سید محمد عباس کاظمی، شیرباز علی برچہ، پروفیسر خواجہ مہرداد، پروفیسر محمد امین ضیاؔ ، پروفیسر اعجاز احمد جان، پروفیسر احسان اللہ، پروفیسر سید تہذیب الحسن، اظہر احمد بزمیؔ ، غلام حسن حسنوؔ ، عاشق فرازؔ ، حسن دانشؔ ، غلام رسول تمناؔ ، وزیر حمایت حسین، احسان شاہ، میثم کاظم، پروفیسر علی موسیٰ کلیم، ڈاکٹر خالد اشرف، ڈاکٹر ذاکر حسین ذاکرؔ ، نجف علی شرقیؔ ، سید محمد ہادی کاظمی، بشارت حسین ساقیؔ ، امجد علی سدوزئی، احمد سلیم سلیمیؔ ، انور بلتستانیؔ ، عبدالسلام نازؔ اور امیر جان حقانیؔ کی تحریریں قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ پروفیسر کمالؔ الہامی کے اپنے نثری نمونے قابلِ داد ہیں۔ خصوصاً ان کے خاکے اور افسانے۔ اللہ رے روانی ان کی اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔
میری ذاتی رائے ہے کہ کسی بھی تحریر کو پڑھنے کے بعد دل سے بے ساختہ واہ نکلتا ہے تو وہ تحریر حقیقی طور پر ادبی شاہکار کہلاتی ہے۔ اس اصول کو سامنے رکھتے ہوئے اگر دیکھا جائے تو سچی بات ہے جن جن تحریروں کو پڑھنے کے بعد میری زبان نے بے ساختہ واہ کہا۔ وہ میرے دوست ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ ، پروفیسر خواجہ مہرداد، پروفیسر سید تہذیب الحسن، امجد حسین سدوزئی، احمد سلیم سلیمیؔ ، عبدالسلام نازؔ ، سید محمد ہادی کاظمی اور اظہر احمد بزمیؔ کی شگفتہ تحریریں تھیں۔
اس کے علاوہ منظوم خطوط و جوابِ خطوط جو آفتاب آمد جوابِ آفتاب کے عنوان سے پروفیسر کمالؔ الہامی کے دلنشین منظوم خطوط کے جواب میں لکھے گئے علامہ شیخ محسن علی نجفی، راجہ محمد علی شاہ صباؔ شگری، فدا محمد ناشادؔ ، پروفیسر غلام حسین سلیمؔ اور ڈاکٹر حسن خان اماچہ کے جوابی منظوم خطوط ایک ادبی شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اسی طرح گلدستۂ دہم میں پروفیسر کمالؔ الہامی صاحب کے فکروفن و شخصیت کے بارے میں خطے کے شعراء کے منظوم تحفے اور خود پروفیسر موصوف کے کلام کے نمونے میں گویا ادب کی ایک کہکشاں موجود ہے۔ اس باب میں خصوصاً حلقہ اربابِ ذوق گلگت کے اکابرین عبدالخالق تاجؔ ، جمشید خان دُکھیؔ ، غلام عباس نسیمؔ ، عبدالحفیظ شاکرؔ اور دیگر شعراء کے منظوم کلام نے ’’کمال الہامی نمبر‘‘ کو یادگار بنا دیا ہے۔
پروفیسر کمالؔ الہامی کے فن و شخصیت پر سب نے اپنی حیثیت اور اہلیت کے مطابق خوب ہی لکھا ہے لیکن کچھ تحریروں میں مجھے اندرون خانہ حسد کی ہلکی سی بو آئی اور غرور و تکبر پسِ تحریر کہیں نہ کہیں پنہان ہوتے ہوئے عیاں تھا۔ خواجہ حیدر علی آتشؔ کا شعر بڑا حسبِ حال لگتا ہے
یوں مدّعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے
آتشؔ غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا
خیر یہ تو ٹھہری معدوے چند بڑے ادیبوں کی بات۔ حیرت ہوئی جب پروفیسر صاحب کے کچھ شاگردوں کی اپنے استاد کی شان میں تنقیدی تحریریں نظر نواز ہوئیں تو بے ساختہ یہ شعر یاد آیا۔ کسی دل جلے نے خوب ہی کہا ہے
جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھی دھڑکنیں
اُن کو زبان ملی تو ہم ہی پر برس پڑیں
پروفیسر کمالؔ الہامی صاحب کے سامنے غالباً یہ شعر ہوتا ہے
ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِ منافقت
دُنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
بقول عبدالحفیظ شاکرؔ کے پروفیسر کمالؔ الہامی صاحب شاید اس لیے مطمئن ہیں
چاند جیسے ہو اس لیے شاکرؔ
لوگ چہرے پہ داغ ڈھونڈیں گے
یا پروفیسر کمالؔ الہامی صاحب کا اپنا یہ ایک شعر کافی ہے کہ
سورج ہماری گود میں روشن ہے ان دنوں
کچھ لوگ کر رہے ہیں ابھی تک کرن کی بات
مجھے نہیں معلوم ایسی تحریریں شائع ہونے سے پہلے پروفیسر صاحب کی نظروں سے گزری تھیں یا نہیں۔ وہ بہت بڑے انسان ہیں اس لیے بھی شاید ان چھوٹی باتوں کو اہمیت نہیں دیتے ہیں اور خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ میرے نزدیک خاموشی اختیار کر لینا دب جانے کی علامت نہیں بس ترجیحات کا فرق ہے۔ ہر بات اور ہر بندہ جواب کا مستحق نہیں ہوتا۔ بڑی بڑی شخصیات ایسے موقعوں پر خاموشی کو ترجیح دیتی ہیں شاید ان کے پیش نظر یہ شعر ہوتا ہے
میرے معیار کا تقاضا ہے
میرا دُشمن بھی خاندانی ہو
یا پھر یہ شعر
تیرے سوال کے بدلے میں میری خاموشی
ہے یہ دلیل کہ تو لائقِ جواب نہیں
ایک دفعہ ابنِ انشاء ٹوکیو کی ایک یونیورسٹی میں کسی مقامی استاد سے محوِ گفتگو تھے۔ جب گفتگو اپنے اختتام پر پہنچی تو وہ استاد ابنِ انشاء کو الوداع کرتے ہوئے یونیورسٹی کے باہر تک چل پڑا۔ ابھی یونیورسٹی کے حدود میں ہی تھے کہ دونوں باتیں کرتے کرتے ایک مقام پر کھڑے ہوگئے۔ اس دوران ابنِ انشاء نے محسوس کیا کہ پیچھے سے گزرنے والے طلباء اُچھل اُچھل کر گزر رہے ہیں۔ باتیں ختم ہوئیں تو ابنِ انشاء اجازت لینے سے پہلے یہ پوچھے بغیر نہ رہ سکے کہ ’’محترم ہمارے پیچھے سے گزرنے والا ہر طالب علم اُچھل اُچھل کر کیوں گزر رہا ہے اس کی کوئی خاص وجہ؟‘‘ ٹوکیو یونیورسٹی کے استاد نے بتایا کہ ’’سورج کی روشنی سے ہمارا سایہ ہمارے پیچھے پڑ رہا ہے اور یہاں سے گزرنے والا ہر طالب علم نہیں چاہتا کہ اس کے پاؤں اس کے استاد کے سایہ پر پڑیں۔ اس لیے ہمارے عقب سے گزرنے والا ہر طالب علم ادب کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُچھل اُچھل کر گزر رہا ہے۔‘‘ ابنِ انشاء کہتے ہیں کہ میں نے اس دن اس قوم کی ترقی کا راز جان گیا۔
شاگرد اور استاد کا رشتہ ادب و احترام کا رشتہ ہوتا ہے مگر اللہ معاف کرے ہم ان چیزوں سے دُور ہی نہیں بلکہ بہت بہت دور ہیں اور زوال کا شکار ہیں۔ جوہر مرحوم نے پتے کی بات کی ہے
ادب کی بات کروں بے ادب زمانے میں
گراں ہے بار میرے دوشِ ناتواں کے لیے
یہ بات جملۂ معترضہ کے طور پر آئی۔
اشفاق احمد لکھتے ہیں:
’’جو شخص ہمیشہ نکتہ چینی کے موڈ میں رہتا ہے اور دوسروں کے نقص نکالتا رہتا ہے وہ اپنے آپ میں تبدیلی کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔‘‘
اس لیے جون ایلیاء کو کہنا پڑا:
’’بہت سے لوگوں کو پڑھنا چاہئیے لیکن وہ لکھ رہے ہیں۔‘‘
کہتے ہیں آپ کا مذاق اُڑایا جاسکتا ہے، آپ پر ہنسا جا سکتا ہے، آپ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی جاسکتی ہیں لیکن اگر آپ پُرعزم ہیں تو یہ سب کچھ آپ کو کامیاب ہونے سے نہیں روکتا۔ پروفیسر کمالؔ الہامی صاحب کے عزم نے ان کو آج جس اسٹیج پر پہنچایا ہے وہ ہر کس و ناکس کے حصے میں کہاں؟ ڈاکٹر ذاکر حسین ذاکرؔ نے ’’کمال الہامی نمبر‘‘ کے اپنے مضمون میں لکھا ہے:
’’مجھے بھی پروفیسر صاحب کی طرح ڈگریاں جمع کرنے کا کافی شوق تھا اور یوں ہم دونوں کی دلچسپیوں میں کافی مماثلت تھی۔ میں نے بھی ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کافی کوشش کی۔ ڈگریاں تو کئی لے لیں، پی ایچ ڈی بھی کرلی لیکن الہامی بننے کے لیے شاید صدیاں لگیں۔‘‘
واہ! یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں ہر کوئی نہیں پہنچ پاتا۔ پروفیسر کمالؔ الہامی صاحب جیسی شخصیات زمانوں بعد کہیں پیدا ہوتے ہیں۔ میرتقی میرؔ کہتے ہیں
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
اپنی ایڈیٹری کی عادت سے مجبور مطالعہ کرتے ہوئے املا پر غور اور جملوں کی ساخت میں محو ہو جاتا ہوں۔ مجھ سے پروفیسر کمالؔ الہامی صاحب جیسے اساتذہ کہتے ہیں الفاظ نہیں خیال کو دیکھنا چاہئیے مگر کیا کیا جائے کہ انہیں اساتذہ نے ہی تو الفاظ کی حرمت کا خیال رکھنے پر بھی زور دیا تھا۔ ’’کمالؔ الہامی نمبر‘‘ پڑھتے ہوئے خوشی ہوئی کہ پروف ریڈنگ کسی حد تک اچھی ہوئی ہے۔ ہاں کہیں نہ کہیں ایک آدھ غلطی دکھائی دی تو حسرت رہی کہ کاش یہ نہ ہوتی۔ اسی طرح آخری باب قوسِ قزح میں گویا تصویروں کی بہار ہے۔ کاش! ان تصویروں کے ساتھ تاریخ اور سنہ بھی لکھی جاتی تو یہ تصویریں اور یادگار بن جاتیں۔
مجموعی طور پر سہ ماہی ’’موجِ ادب‘‘ کا ’’کمال الہامی نمبر‘‘ ایک شاندار اور جاندار ادبی کاوش ہے جس کے لیے میں اس رسالے کی پوری ٹیم کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
آخری بات…… اوپر جو کچھ لکھا گیا وہ ادب کے ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کی حیثیت سے میرے ذاتی تجربات و مشاہدات ہیں۔ ادبِ عالیہ میرے یا کسی کے ایسے لفظوں کا محتاج نہیں ہوتا۔ وقت ثابت کرتا ہے کہ کیا آب ہے اور کیا سراب تھا۔ ’’کمال الہامی نمبر‘‘ پڑھ کر جس طرح کی سرشاری ہوئی۔ وہ شادمانی کہتی ہے کہ ’’کمال الہامی نمبر‘‘ کو سرزمین پاک سے شائع ہونے والے بہترین پرچوں میں شمار کیا جائے گا اور یہ بات تو حقیقت ہے کہ ایسی کاوشوں کی حال سے زیادہ مستقبل میں قدر ہوتی ہے۔
یار زندہ صحبت باقی!