گلگت بلتستان میں عوامی صحت کے مسائل
تحریر : محمد علی عالم
کہتے ہیں جان ہے تو جہاں ہے۔ جب انسان صحت جیسی بنیاد نعمت سے محروم ہو جائے تو کائنات کی ہر شے اس کے لئے بے معنی ہو جاتی ہے انسان کوزندہ رہنے کے لیے جن بنیادی چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے ان میں اچھی صحت سر فہرست اور لازم ہے۔ کسی بھی صحت مند معاشرے میں اچھی صحت کے لئے بہترین سہولیات اور ماہر ڈاکٹروں پر مشتمل مراکز صحت کا ہونا لازمی ہے جہاں نہ صرف عوام صحت کے بنیادی اصولوں سے متعلق آگاہی حاصل کر سکیں بلکہ لاحق مختلف بیماریوں کا بھی علاج کر سکے مگر جب اسی صحت کے لئے علاج و معالجے کی سہولت میسر نہ ہوتو انسان بے موت مرتے نظر آتے ہیں۔
کچھ ایسے ہی مسائل کئی سالوں سے دو لاکھ کے قریب آبادی پر مشتمل ضلع گانچھے کے عوام کو درپیش ہیں۔ بدقسمتی سے گانچھے میں صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ گلگت بلتستان کے سب سے دور افتادہ اور دفاعی نقطہ نظر سے سب سے اہم ضلع جہاں سیاچن جیسے دنیا کا انتہائی خطرناک اور اہم محاذ واقع ہے، وہاں جدید دور میں بھی معمولی سرجری کی سہولت میسر نہیں ہے۔ ضلع کے سب سے بڑے ہسپتال ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال خپلو میں سپیشلسٹ ڈاکٹروں کی تمام پوسٹیں خالی ہیں۔ ضلعی ہیڈکوارٹر خپلو ہسپتال میں پورے ضلع سے مریض آتے ہیں جو صرف چند ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر چل رہا ہے۔ ڈاکٹروں کی کمی پوری کرنے کے لئے ساٹھ سال سے اوپر سروس مکمل کر کے پنشن ہونے والے ڈاکٹرز کو دوبارہ تعینات کیا گیا ہے۔
ضلع کی دو لاکھ کے قریب آبادی میں سے نصف خواتین پرمشتمل ہے مگر یہ طبقہ صحت کی بنیادی سہولت سے یکسر محروم ہے۔ پورے ضلع میں ایک بھی گائناکالوجسٹ موجود نہیں ہے جس وجہ سے گزشتہ ایک سال کے دوران کم و بیش پندرہ سے بیس خواتین دوران زچگی موت کے منہ میں چلی گئی ہیں۔ اس کے باوجود بھی حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی ہے اور خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ پورے ضلع کی خواتین کو کئی سال تک ایک لیڈی ڈاکٹر کی رحم و کرم پر چھوڑ رکھا تاہم خدا خدا کر کے خپلو ہسپتال میں ایک لیڈی ڈاکٹر تعینات ہو گئی ہے جو کہ ضلع کے عوام کے لئے آٹے میں نمک کی برابر ہے۔
یہ بھی ایک المیہ ہے ہےسابق حکمرانوں کی طرح وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن اور چیف سیکرٹر ی ڈاکٹر کاظم نیاز نے خپلو آکرحسب معمول متعدد بار وعدے کیے ،دلاسےدئیے اور یقین دہانی کرائی ، لیکن حالات میں کوئی بہتری نہیں آرہی ہے۔ محکمہ صحت نے بھی عوام کو درپیش صحت کی مسائل پر کئی بار سکردو سے خپلو ہسپتال میں سپیشلسٹ ڈاکٹرز کی تعیناتی کا حکم نامہ جاری کیا مگر سب احکامات ردی کی ٹوکری کی نذر ہوگئے۔ اس طرح صوبائی حکومت سمیت چند ڈاکٹرز کے آگے بے بس ہو کر رہ گئے اور ضلع کے غریب عوام علاج و معالجے کے لئے دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔
آج میںیہاں گلگت بلتستان سمیت ضلع گانچھے میں ڈاکٹروں کی کمی ،اسکی وجوہات اورحکومتی بے بسی کو آپ لوگوں کے سامنے رکھنے کی کوشش کروں گا اس سے پہلے میں چیف سیکرٹری اور سیکرٹری ہیلتھ کے چند اقدامات کو ضرور سراہوں گا کیونکہ ان دنوں آفیسران نے نیک نیتی کے ساتھ عوام کی درد کو محسوس کرتے ہوئے گانچھے میں صحت کی ناکافی سہولت کا نوٹس لیا ان کو حل کرنے کی کوشش کی گئی تاہم ناکام رہے صوبائی حکومت نے بھی حال ہی میں چار کروڑ روپے جاری کئے مگر گانچھے میں مسیحا نہیں لاسکیں۔ اس سے اندازاہ ہوتا ہے کہ حکومت کی رٹ قائم نہیں ہے اور نہ ہی سرکاری احکامات کی کوئی اہمیت نظر آتی ہے۔
ضلع گھانچھے سمیت پورے گلگت بلتستان میں ڈاکٹروں کی کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گلگت بلتستان سے میڈیکل سیٹ پر جانے والے طلبہ ڈاکٹر بننے کے بعد واپس اپنے اضلاع میں نہیں آتے ہیں ضلع گانچھے کی بات کروں گا،گھانچھے سے ہر سال گلگت بلتستان کی میڈیکل سیٹ پر دس کے قریب طلبہ ملک کے مختلف کالجز میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں اور اتنے ہی ہرسال ڈاکٹرز بن کے ان کالجز سے فارغ ہوتے ہیں مگربدقسمتی سے چند ایک کے علاوہ باقی پلٹ کر ہی نہیں آتے ہیں اورباقی ملک کے دیگر شہروں میں بیٹھ جاتے ہیں المیہ تو یہ ہے کہ جو لڑکیاں میڈیکل سیٹ پر جاکے پانچ سال مکمل کر کے ڈاکٹر بننے کے بعد چند ایک اس فیلڈ کو ہی خیرباد کہتے ہیں جو کہ علاقے کے ساتھ سراسرنا انصافی اور ظلم ہے۔
گانچھے میں اب تک چندڈاکٹر کے علاوہ کوئی بھی واپس نہیں آیاہے اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے معلوم ہواہے کہ یہ طلبہ میڈیکل سیٹ پر جاتے وقت صوبائی حکومت کے ساتھ باقاوعدہ پراسٹامپ کرتے ہیں کہ پانچ سال مکمل ہونے کے بعد واپس صوبے میں آجائیں گے اور علاقے میں خدمات سر انجام دیں گے مگر یہاں حالات اس کے بلکل برعکس نظر آتے ہیں۔ میڈیکل سیٹ پر جانے والے ہر ایک طالب علم پر حکومت پانچ سال میں ڈاکٹر بننے تک لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں تاہم یہاں بھی حکومت مکمل طور پر بے بس اور غیر سنجیدگی کا مظاہر ہ کر رہی ہے حکومت کو چاہیے کہ میڈیکل سیٹ پرجاکر پڑھنے والے ڈاکٹروں کو واپس لانے کے لئے اقدامات کرے۔ ان کے لئے پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی طرح اچھے پیکجز متعارف کروائیں، سروس سٹرکچر بنائے۔ اگراس کے باوجود بھی واپس نہ آئے تو PMDCپاکستان میڈیکل ڈینٹل کونسل کو خصوصی لیٹر لکھ کر ان کے خلاف کاروائی کرکے میڈیکل ڈگری منسوخ کرائی جائے تاکہ یہ ڈاکٹرز واپس آئیں اس طرح گلگت بلتستان میں ڈاکٹروں کا بحران ختم ہو جائے گا۔
دوسری جانب ہم حکومت کی اپنی پالیسی پرنظر دوڑائیں تو وہ بھی انتہائی ناقص نظر آتا ہے۔ حفیظ الرحمن حکومت نے گلگت بلتستان سے ڈاکٹروں کی کمی کو پوری کرنے کے لئے بلند و بانگ دعوے اور بڑے بڑے پیکچز کا اعلان تو ضرور کیامگر سب سیاسی اعلانات اور بڑھکیاں ثابت ہوے۔
میں نے ملک کے مختلف شہروں میں کام کرنیوالے گلگت بلتستان کے سیٹ پر ڈاکٹر بننے والے کچھ ڈاکٹروں سے سادہ سوال کیا کہ آپ لوگ اپنے علاقے میں واپس آنے کے بجائے شہروں میں بیٹھنے کو کیوں ترجہیی دیتے ہیں؟ جس پر ان کا جواب تھا کہ گلگت بلتستان کی ہیلتھ پالیسی ناقص ہے کوئی سروس سٹر کچرنہیں ہے ہمارے جو ساتھی ڈاکٹرز وہاں جا کر کام کر رہے ہیں ان کو صوبائی حکومت نے ذلیل کیا ہوا ہے۔
ان کی اس بات سے میں سو فیصد اتفاق کروں گا کچھ عرصہ قبل گلگت بلتستان میں کام کرنے والے کچھ ینگ ڈاکٹرزسے گفتگو ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ہمیں واپس گلگت بلتستان آکر بہت افسوس ہورہاہے اگر ہم ملک کے کسی دوسری شہر میں ہوتے تو آج ہمارے دوسرے ساتھیوں کی طرح ہم بھی لاکھوں روپے کما رہے ہوتے مگرہم نے پیسوں سے زیادہ اپنے علاقے اور اپنے لوگوں کی خدمت کو ترجیح دی مگر یہاں آنے کے بعدہمیں رسوائی اور ذلت کے سوا کچھ نہیں ملا جب ہم یہاں آگئے توٹیسٹ انٹریو لی گئی، مکمل کاغذات لئے گئے اور پھر ہمیں کنٹریکٹ بنیادوں پر تعینات کیا گیا۔اور ٹھیک ایک سال کے بعد ہمارا کنٹریکٹ ختم ہوا تو تنخواہیں بھی بند ہوگئیں، اورمحکمہ صحت کے حکم پر ہم نے دوبارہ کاغذات جمع کئے، جو وزیر علیٰ ، چیف سیکرٹری اوردیگر دفتروں میں آفیسران کے ٹیبل پر مہینوں پڑے رہے۔ بلاآخر چھ سے سات مہینے بعد ہمیں انٹریو کے لئے بُلایا گیااور ہم مسلسل بغیر تنخواہ پر کام کرتے رہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی ہم اپنے حق کے لئے سٹرکوں پر آگئے ہیں۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں طلب کے شعبہ سے تعلق رکھنے افراد کو بہترین سہولیات فراہم کر کے انکی خدمات حاصل کی جاتی ہے کیونکہ صحت کسی بھی معاشرے کی پالیسی میں سر فہرست ہوتی ہے وہاں طب کی تعلیم بہت زیادہ وقت اور پیسہ مانگتا ہے اپنی زندگی کے بہت اہم حصہ حصول تعلیم میں سرف کرنے اور دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں لاکھوں کے تنخواہ کو ٹھوکر مار کر عوامی خدمت کی غرض سے گلگت بلتستان جیسے دور افتادہ علاقوں میں صحت عامہ کی بہتری کے لئے خدمات سرانجام دینے والے ڈاکٹرز کوصرف بہترین سروس سٹریکیچر اور سہولیات فراہم کر لینا چاہیے بلکہ انکی جذبے کو بھی سراہنا چایئے حکومت کو چاہیے کہ گلگت بلتستان میں عوام کو صحت کی بنیادی سہولت فراہم کرنے کے لئے مزید کوئی وقت ضائع کئے ہنگامی بنیادوں پراقدمات کر کے مستقیل حل نکلیں اور مکمل سٹریکچر بنا لیا جائے آخر میں چیف سیکرٹری گلگت بلتستان جو کہ خود ایک ڈاکٹر ہے اس کو چاہیے کہ گلگت بلتستان میں صحت کی ایشوز ترجہی بنیاد پر حل کرنے کے لئے اقدامات اٹھائی جائیں ،