نام میں کیا رکھا ہے ؟
اخبارات میں خبر لگی ہے کہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے پاگل خانے کا نام بدل کر مینٹل ہسپتال رکھ لیا ہے اور پاگل خانہ کہنے یا لکھنے پر پابندی لگائی ہے آئندہ کوئی پاگل خانے کو پاگل خانہ کہے گا تو اس کو سزا دی جائے گی فیض کی بات اس پر سو فیصد آتی ہے
ہم سے کہتے اہل گلشن غریبان چمن
تم کوئی اچھا سا رکھ لو ویرانے کا نام
نفسیاتی اعتبار سے یہ بہت مستحسن فیصلہ ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے بجا ہوگا مگر سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے ؟ جہاں پاگلوں کو رکھا جاتا ہے اس کو ’’شمع فروزاں ‘‘ کا نام دیدیں تب بھی وہ پاگل خانہ ہی رہے گا ہمارے دوست منشی فرمان مدد اسلام آباد میں ایک دیہاتی مہمان کو پہلے دن سیر کرا رہے تھے از راہِ تفنن انہوں نے مہمان کو چکر دیتے ہوئے اتنا چکر دیا کہ ہر اہم مقام اور اہم عمارت کا الٹا نام بتا یاپارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے سے گذرتے ہوئے کہا یہ برف خانہ ہے ایوان صدر کے قریب آئے تو بتایا کہ یہ فائیو سٹار ہوٹل ہے پرائم منسٹر کے سامنے سیلفی لیتے ہوئے بتایا کہ یہ دارلعلوم اسلامیہ کی عمارت ہے سینٹورس کی عمارت نظر آئی تو بتایا کہ اس کو پارلیمنٹ ہاؤس کہتے ہیں پارلیمنٹ لاجز کے سامنے پولیس کا ناکہ دیکھ کر مہمان نے پوچھا یہ کون سی جگہ ہے ؟ منشی فرمان مدد نے کہا یہ اسلام آباد کا سب سے بڑا پاگل خانہ ہے ایک ماہ بعد مہمان کو حقیقت کا پتہ لگا تو اُس نے منشی جی سے گلہ کیاکہ تم نے ایک جگہ کا بھی صحیح نام نہیں بتایا منشی نے کہا کیوں نہیں پاگل خانہ کا درست نام بتایا تھا اس پر بھی وہ گھسا پٹا لطیفہ یا د آتا ہے ایک بار ایک بڑے ملک کا وزیر اعظم پاگل خانے کے معائنے پر گیا ایک بیرک میں سفید ریش پاگل بیٹھا تھا اُس نے وزیر اعظم سے پوچھا تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟ وزیر اعظم نے کہا میں اس ملک کا وزیر اعظم ہوں اور جیل کے معائنے پر آیا ہوں سفید ریش پاگل نے کہا تو میرا بھی یہی خیال تھا فکر مت کرو چند روز بعد ٹھیک ہوجاؤ گے پاگل خانے کا نام اگر ہسپتال رکھ دیا گیا تو پاگل خانے کا بورڈ کہاں لگایا جائے گا ؟ یہ ایک بڑا سوال ہے اور اس کا جواب منشی تلوک چند محروم نے قیام پاکستان سے چند سال پہلے دیا تھا اُن کے دیگر جملوں کی طرح یہ جملہ بھی بے حد مشہور ہوا انہوں نے کہا کالج اور پاگل خانے میں ایک ہی فرق ہے پاگل خانے سے آنے والا ٹھیک ہونے کا احساس لیکر آتا ہے کالج سے فارغ ہوکر آنے والے کو اتنا بھی احساس نہیں ہوتا اُس کا دماغ بدستور آسمانوں کی سیر کرتا ہے بقول شاعر
جب سے اُس مہ جبیں کے عاشق ہیں
آسمان پر دماغ ہے اپنا
لگتا ہے کہ ہماری حکومت گُڈ گورننس ، خدمتِ خلق ، اصلاح معاشرہ ، انصاف ، مساوات ، شہری مسائل اور بنیادی حقوق کے تمام فرائض سے سبکدوش ہوچکی ہے اب اُس کو پاگلوں کا خیال آیا ہے فرزانوں کے مسائل حل ہونے کے بعد ہی دیوانوں پر توجہ دی جاتی ہے ساغر صدیقی نے بڑی بات دو مصرعوں میں کہی
یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
کچھ ان میں صاحب اسرار نظر آتے ہیں
سعادت حسن منٹو کا افسانہ ’’ ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘‘ سرکاری افیسر کی ستم ظریفی پر لکھا گیا ہے تقسیم کے بعد کچھ ہندو بھارت چلے گئے کچھ مسلمان پاکستان آگئے یہ ہنگامہ ختم ہوا تو ایک افیسر کو خیال آیا کہ پاکستان کے پاگل خانوں میں ہندو اور سکھ پاگل ہیں ان کو بھارت بھیج دینا چا ہیئے افیسر نے حکم دیا ماتحتوں نے عمل درآمد کیا لاہور کے ایک پاگل خانے سے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے ساتھ تعلق رکھنے والے ایک ایسے ہی پاگل کو بھارت روانہ کرنے کے لئے باہر لایا گیا وہ شور مچاتا رہا مجھے ٹوبہ ٹیک سنگھ لے چلو مگر پاگل کی بات کون سنتا ہے ؟ اس کو واہگہ کی سرحد پر لے جایا گیا وہ مسلسل چیختا چلّاتا رہا ٹوبہ ٹیک سنگھ ،ٹوبہ ٹیک سنگھ مگر کسی نے نہیں سنی تو اس نے سرحدی لکیر عبور کرنے سے پہلے خود کو زمین پر گرالیا زور سے ٹوبہ ٹیک سنگھ پکارا پھر اُس نے جان دے دی
غزالاں تم تو واقف ہو کچھ کہو مجنون کے مرنے کی
دیوانہ مرگیا آخر کو ، ویرانے پہ کیا گذری
ہمارے دوست سید شمس النظر شاہ فاطمی فرماتے ہیں کہ الیکشن کا موسم آنے والا ہے اب پوری قوم پاگل ہونے والی ہے ملائشیا ، ایران ، ترکی ، برطانیہ اورامریکہ میں ایک جلسہ اور ایک جلوس کے بغیر انتخابات ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں انتخابات کا ذکر آتے ہی قوم پر پاگل پن کا حملہ ہوتاہے بڑے شہر میں ایک جلسے پر ارب یا ڈیڑھ ارب روپے کاخرچہ آتاہے چھوٹے شہروں اور قصبوں میں ایک جلسہ اور جلوس کا خرچہ 2کروڑ روپے سے لیکر 40کروڑ روپے تک آنا یقینی امر ہے قوم دیوانوں کی طرح جلسوں اور جلوسوں پر دولت لٹا دیتی ہے آخر میں جاکر پتہ لگتا ہے کہ ’’ گاؤ آمد و خر رفت ‘‘ والا معاملہ ہوگیا لگتاہے کہ 29مئی کے بعد ہمیں پورے ملک پر پاگل خانے کا بورڈ لگانا پڑے گا ’’ دیوانوں کی سی نہ بات کرے، اور کرے گا دیوانہ کیا‘‘