حاجی یار ۔۔تعلیم یافتہ چترال کے لئے ایک حوالہ
محمدجاوید حیات
ٍٍٍٍ۱۹۸۷ء کا کوئی مبارک مہینہ اور تاریخ ہوگی کہ فاصلاتی تعلیم کا تصور ایک خوشبو بن کر سنگلاح چتر ال کی سرزمین میں داخل ہوا ہو گا ۔۔یہ وہ دور ہوگا کہ چترال میں کتنے بچے بچیاں تعلیم یافتہ ہونے کا خواب لئے گھروں کی کال کوٹھڑیوں میں کف افسوس مل رہے ہونگے ۔کتنے ہونگے جو مختلف درجوں میں اپنی پڑھائی کسی نہ کسی وجہ سے چھوڑ گئے ہونگے اس دوراں گھر کی دہلیز پہ ان کو تعلیم حاصل کرنے کے مواقع کا ملنا ایک خواب سے کم نہ ہوگا ۔۔علامہ اقبال او پن یونیورسٹی کی طرف سے فاصلاتی تعلیم کا پروگرام لئے جناب مقبول صاحب اور ایک مرد آہن جناب حاجی یار صاحب اُٹھے اور اس پسماندہ دور میں نہایت نامساعد حالات کے باوجود چترال جیسے دور افتادہ علاقے کے کونے کونے میں پہنچے اور چترال میں تعلیم سے محروم نوجوانوں کو ان کے گھر آنگن میں تعلیم حاصل کرنے کی سہولیات باہم پہنچائے ۔۔چترال کے لئے ان لوگوں کی خدمات کا مقابلہ کسی دوسری خدمت سے نہیں کیا جاسکتا کیونکہ آج چترال کے ہر گھر میں ایک برسر روزگار تعلیم یافتہ فرد ہاتھ میں اوپن یونیورسٹی کی ڈگری لئے موجود ہے ۔۔فاصلاتی تعلیم کی شروعات ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس کے ساتھ ایک کمرے میں دو کرسیوں اور چھوٹی سی میز کے ساتھ ہوئیں ۔۔مقبول صاحب دورے پہ رہتے اور حاجی یار صاحب سارا دن دفتر کے کام کرتے ۔۔اس پروگرام کے لئے اشتہاری مہم ۔۔ داخلہ مہم ۔۔داخلے کے کام ۔۔اطلاعات ۔کتابوں کی ترسیل ۔۔ٹیوٹرز کی تقرری ۔۔طلباء کے مسائل ۔۔ورکشاب امتحانات ۔عر ض اتنے کام جن کو انجام دینا ایک یا دو افراد کے بس کی بات نہیں ۔۔لیکن اللہ نے حاجی یار صاحب کو ایسی محنت کے لئے شاید پیدا کیا تھا کہ نا ممکن کو ممکن بنا سکے ۔۔صبر اور مستقل مزاجی کا چٹان بن جائے ۔۔کام کو فرض اور خواب کو مشن سمجھے ۔۔ان کے ہاتھوں بہت بڑا کام انجام پانا تھا لہذا اس کو ایسی صلاحیتوں سے بھر دیا گیا تھا ۔۔ چترال کو تعلیم یافتہ بنانے میں علامہ اوپن یونیورسٹی کا بہت بڑا کردار رہا ہے اور یہ کردار جن کے ہاتھوں ممکن ہوا وہ یہ دو ہستیاں ہیں ۔۔حاجی یار کی زات میں ہر وہ خوبی موجود ہے جو بے میثال ہے ۔اس کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے علاوہ اس کی شرافت قابل تقلید ہے ۔۔اس کا لہجہ ۔۔اس کا رویہ۔۔اس کے الفاظ ۔۔اس کی آنکھوں میں دوسروں کے لئے اُترتا احترام ۔۔اس کا خلوص ۔۔اس کی فرض شناسی ۔۔اس کی صداقت ۔۔اس کے اپنے کام سے کام ۔۔اس کی پھول جیسی شخصیت ۔۔اس کی انتھک محنت نے اس کو ایک موتی بنا دیا تھا ۔۔اس کی میز پہ فائلیں ہوتیں اور آپ ہوتے ۔۔انھوں نے اپنے کسی کام میں اپنے کسی کلاس فور سے بھی مدد نہیں لیتے خود اٹھتے خود کام کرتے ۔۔اپنے کسی جونیر کو کبھی یہ احساس نہ ہونے دیتے کہ وہ باس ہے ۔۔یقیناًوہ باس تھے ایک خوشبو ۔۔ حاجی یار صاحب غضب کے سنجیدہ واقع ہوئے ہیں کوئی بھی مشکل کام ہو وہ ڈھارس بندھاتے اور اس کا عزم دکھ کر لگتا کہ نصف کام ہو گیا ۔۔اس کی میز پہ کسی کی شکایت کبھی پڑی نہیں رہی حل ہی ہوئی ۔۔وہ ایک انجمن تھے ۔فرد کی حیثیت سے بہت پرے ۔۔اس کے چہرے پہ ایک روشنی تھی جو کشش کا درجہ رکھتی۔۔وہ ٹوٹ کر دوسروں کا احترام کرتے اس وجہ سے اس کی ذات مینارہ توقیر تھی۔۔انھوں نے کبھی بھی اپنا ایک منٹ بلکہ قوم کا ایک منٹ بھی ضائع نہیں کیا ۔۔وہ دفتر کو اپنا گھر اور فرض کو امانت سمجھتے تھے ۔۔اوپن یونیورسٹی سے کئی سالوں کی رفاقت ہے مگر ہم نے حاجی یار صاحب کو کوئی فضول بات کرتے نہیں سنا ۔نہ کسی کے لیئے شکایت کا ایک حرف زبان لاتے ہوئے سنا ۔۔ان کواپنے ٹیوٹرز کا بڑا پاس لحاظ تھا ۔۔سٹوڈینس کی بے لوث خدمت پر اس کو یقین تھا ۔۔ان کے اور کسی کے درمیان کوئی فاصلہ نہ ہوتا وہ سب کو مطمین کرتے ۔۔سب کو سنتے اور سب کی خدمت کرتے ۔۔انھوں نے عمر عزیز کے بتیس سال ایسے گزارے جیسے آفس میں اس کا پہلا دن تھا ۔۔حاجی یار صاحب او پن یونیورسٹی کی پہچان بن گئے تھے آج اوپن یونیورسٹی کے دفتر میں ایک محنت ایک عزم ایک کومٹمنٹ کا ماحول ہے سارا عملہ اس نہج پہ ہے کہ وہ دوسروں کا احترام کرے ۔۔ستوڈنٹس کو وقت دے اور ٹیوٹرز کو مقام دے ۔۔آج ایک کمرے میں دو کرسیوں اور ایک میز کے ساتھ علم کا چراغ جلانے کی شروعات کرنے والا یہ دفتر چھوڑ رہا ہے مگر اپنے پیچھے ایک خوشبو ۔۔ایک عہد ۔۔ایک عزم ۔۔ایک مصلحت ۔۔ایک منزل ۔۔ایک درد ۔۔ایک خواب ۔۔ایک راستہ ۔۔ایک خلوص چھوڑ کے جا رہا ہے ۔۔شرافت اور محبت کا بہتا دریا اپنا راستہ بدل رہا ہے ۔۔اوپن یونیورسٹی کے دفتر میں اور شمعیں روشن ہیں البتہ ایک فانوس اپنا مقام بدل رہا ہے ۔۔میں کیوں یہ جملہ لکھتے ہوئے ہچکچاتا ہوں کہ ’’حاجی یار صاحب ریٹایرڈ ہوگئے ‘‘کیونکہ یہ لفظ ’’ریٹائرڈ‘‘ اس نام کے ساتھ مناسب نہیں لگتا اس لئے کہ وہ ایک فرد نہیں ایک ’’حوالہ‘‘ ہیں ۔۔ایک ریفرنس ۔۔جب بھی تعلیم یافتہ چترال کی تاریخ لکھی جائے گی تو یہ نام نامی سنہری حروف سے لکھا جائے گا ۔۔موجودہ ڈائرکٹر جناب رفیع اللہ صاحب کے آنسو حاجی صاحب کی الوداعی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے اس لئے گرے کہ اس کی جدائی قابل برداشت نہیں ہے ۔۔