ثقافت اور موسیقی کا مستقبل
کوئی بھی قوم یا قبیلہ یا گروہ اپنی ثقافت کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے ۔ ثقافت میں رہن سہن ، بودو باش ، خوراک ، لباس ، مکان ، عادات ، اطوار سب آجاتے ہیں۔ موسیقی بھی ثقافت کا ایک حصہ ہے۔ ثقافت صدیوں سے ہندوکش کی پہاڑی گھاٹیوں میں پروان چڑھتی رہی ہے۔ ثقافت کے ساتھ ساتھ موسیقی بھی مختلف ادوار میں آگے بڑھی اور آخر کار تہذیب وتمدن کا حصہ بن گئی ہمارے ہاں گیتوں کی قدیم دھنوں میں موسیقیت ، نزاکت ، مٹھاس اور لذت ہے ۔ جو اعلیٰ تہذیب کا پتہ دیتی ہے۔ اس کے سُر اور تال چین ، ایران اور تاجکستان وسطی ایشیاسے مطابقت رکھتے ہیں ۔ موجودہ دور مشینوں کا دور ہے۔ مشینوں نے انسانی صلاحیتوں کو متاثر کیا ہے
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
مستقبل میں مشینوں کے ہاتھوں جہاں ہمارے رہن سہن، بودوباش ، عادات و اطوار ، لباس ، خوراک اور مکانات کو خطرہ ہے وہاں ہماری موسیقی بھی خطرے کی زد میں ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ہم نے اپنی روایتی موسیقی کا جنازہ اُ ٹھایا ہوا ہے اور اس کو دفنانے والے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قدیم دور کے اساتذہ کی وفات کے بعد گذشتہ 50سالوں میں کوئی نیا موسیقار اور گلوکار ایسا پیدا نہیں ہوا جو قدیم موسیقی کو زندہ رکھنے کے لئے پہلے کی طرح دھنیں بکھیرتا ۔ چترال کا استاد تعلیم خان بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکا ہے ۔ ان کے بعد شہنائی کا قدیم فن بھی دفن ہوجائے گا۔ مثلاََ پولو کی دھن ، راگ ، غاڑ وار 5 روایتی دھنوں کا مجموعہ ہے ۔ استادتعلیم خان کے بعد ایک ہی دھن رہ جائے گی ۔ اس طرح بادشاہ شب، مراڑی ، سید وغ اور اس کی طرح کی سینکڑوں روایتی دھنیں ختم ہوجائیں گی ۔ مہمان کے استقبال کی دھن ، پونوار ، دلہن کی بارات کیلئے بجائی جانے والی دھن ششتوار ،جنگ کے اعلان کی دھن ژنگوار ، جنگ میں فتح یابی کی دھن بکش وار آج اپنی روایتی حالات میں صرف تعلیم خان کے فن میں زندہ ہیں ۔ ان کے بعد روشنی نہیں اندھیرا ہے۔ گذشتہ نصف صدی کے اندر سی ڈی فلموں کے علاوہ ریڈیو، میوزک سنٹر اور میوزک سٹوڈیو کے تکون نے بھی اردو اور پشتو کے فلمی دھنوں کا چربہ تیار کر کے متعارف کرایا ہے ۔ ساتھ ساتھ انگریزی فلموں سے پاپ میوزک اور ڈسکو ڈانس کا چربہ آیا ہے۔ وہ لوگ مے خانوں میں مست ہوکر جن بلند آہنگ دھنوں پر جھومتے ہیں ۔ ہماری نئی نسل پیاز اور روٹی کا ناشتہ کر کے ان دھنوں پر جھومتی نظر آتی ہے۔ نان دوشی ، لالوزنگ ، دل دربن ، یورمن ہمین اور ڈوک یخدیز کی دھنوں میں کسی کی دلچسپی نہیں رہی۔ شاہ گلی زار المعروف شالدین چی نے 1968ء میں یورمن ہمین جس دھن کے ساتھ بجائی ہے آج نصف صدی گذرنے کے بعد کوئی بھی موسیقار اسی دھن میں یورمن ہمین بجانے کا دعویٰ نہیں کرسکتا ۔ 50سالوں میں اتنا زوال آیا ہے ۔ اگلے 50سالو ں میں اور بھی زوال آئے گا ۔ ہماری روایتی موسیقی بائیسویں صدی کا چہرہ نہیں دیکھ سکے گی۔ چترال کے روایتی موسیقی کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ البتہ اس وقت تک جو کچھ بچ گیاہے اس کو محفوظ کرنے اور محفوظ حالت میں عجائب گھروں میں رکھنے کیلئے چند تجاویز دی جاسکتی ہیں۔
1۔پہلی تجویز یہ ہے کہ روایتی موسیقی کے ماہر فنکاروں کی ویڈیو اور آڈیو البم تیار کروائی جائیں ہر البم کیلئے فنکاروں کو معاوضہ بھی دیا جائے اور البم تیار کرنے کے لئے پروفیشنلز کی خدمات حاصل کی جائیں۔
2۔ میوزک سکول کے ذریعے قدیم فنکاروں کا روایتی فن نوجوان فنکاروں کو منتقل کیاجائے ۔ کرنل مراد خان نیر کے زمانے میں چترال سکاؤٹس نے اس طرح کی کامیاب منصوبہ بندی کی تھی ۔ چترال ایسوسی ایشن فار ماؤنٹین ایریاز ٹورزم (CAMAT) نے بھی اسی طرح منصوبے پر کام کیا ہے۔ ایسے منصوبے دوبارہ متعارف کرائے جاسکتے ہیں ۔
3۔ایک قابل عمل تجویز یہ ہے کہ صوبے کے روایتی موسیقی کو زندہ رکھنے کیلئے موسیقی کے پروگراموں کی از سر نو ترتیب ضروری ہے۔ Re-Packagingمیں تین منٹ سے لیکر چار منٹ تک کے ایسے آئٹمز رکھے جائیں جو سیاحوں کیلئے دلچسپی کا سبب ہوں ۔
4۔ روایتی فنکاروں کو لوک ورثہ اسلام آباد ، الحمرا آرٹس کونسل لاہور، پشتو اکیڈمی پشاور او ر انسٹیٹوٹ آف سندھیالوجی سندھ یونیورسٹی جامشورو کا دورہ کروایا جائے۔ جہاں روایتی فنون کو زندہ رکھنے اور محفوظ کرنے کی نمایاں مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں۔
5۔خیبر پختونخوا کی حکومت نے جنوری 2012ء میں علاقائی زبانوں کی ثقافتی ترقی اور ترویج کیلئے اتھارٹی کے قیام کا بل پاس کیا ہے ۔ اس ایکٹ کے تحت مارچ 2012ء میں اتھارٹی قائم ہوئی ۔ 2012-13ء میں اتھارٹی کے دو اجلاس بھی ہوئے ۔ ایکشن پلان منظور ہوا پھر نئی حکومت آئی اور پورا منصوبہ ختم کر دیا گیا۔ علاقائی زبانوں کی ترقی و ترویج کیلئے قائم کی گئی اتھارٹی اگر اگلی حکومت میں دوبارہ فعال ہوگئی تو علاقائی ثقافتوں کے تحفظ کیلئے بڑی پیش رفت ہوگی ۔صوبے کی روایتی موسیقی کو بھی محفوظ کر کے اگلی نسلوں تک پہنچانے کا کام آسان ہوگا۔
بظاہر ہماری روایتی موسیقی کا کوئی مستقبل نہیں مگر محنت اور کوشش کے ذریعے چربہ سازی کا عمل روکا جاسکتا ہے۔اور روایتی موسیقی کو تحفظ دیا جاسکتاہے ۔ حمزہ بابا کہتاہے
خپلو اوخکو اسوویلو سرہ حمء
خکلی آشنا تہ دَجر گوسرہ حمء
اوڑم مستقبل تہ دَماضی روایات
حمزہ خپل حال دولو لوسرہ حمء