افطاریاں ۔۔۔!
رمضان روزوں کا مہینہ ہے ، یوں توروزے کسی بھی مہینے میں بھی رکھے جائیں اس کے فیوض کی کوئی انتہا نہیں۔ یہ بہترین عبادت ہے ۔ روزے رکھنا رمضان کے مہینے میں واجب ہے اور اگر کوئی شخص رمضان کے مہینے میں روزے پورے رکھیں اور عید الفطر کے روز رذکواۃ الفطر ادا کرے تو رمضان کے واجبات پورے ہیں ۔مگر اس سے بڑھ کر روزے انسان کے اندر مزیدبیش بہا جذبہ ہائے ایمانی فروزاں کرتے ہیں، ان میں علی الخصوص بیماروں، محتاجوں اور مسافروں کا خیال کرنا ، صدقہ خیرات کثرت سے دینا،عبادات کی طرف مائل ہونا ،ظلم و بربریت سے منہ موڑنا، غیر اخلاقی اعمال و افعال سے کنارہ کشی اختیار کرنا، نفس پر قابو پانا،توبہ استغفار کرنا اور کثرت سے ذکر الٰہی کرنے پر آمادہ ہونا وہ چند جذبے ہیں جو رمضان کا ہی خاصہ ہیں۔ یوں تو آج بھی رمضان کے مبارک مہینے میں محتاجوں، مہاجروں اور مسافرت میں قیام پذیر مہمانوں کے کھانے پینے کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، اڑوس پڑوس میں لذیذ پکوانوں کا تبادلہ بھی کیا جاتا ہے، مساجد میں بھی نمازیوں کے لئے افطار کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے۔ جمعے کی نماز کے بعد دست طلب دراز کرنے والوں کی خاطر خواہ مدد کرنے کا رجحان بھی جوں کا توں جاری وساری ہے۔ البتہ ، پرانے زمانے کی وہ رسم اب مفقود ہوگئی ہے جس میں کسی بھی گھر کی بہو رانیاں اپنے رشتہ داروں، سعداء اور زعماو عمائدین گاوں کو رمضان کے مبارک مہینے میں خصوصی دعوت کا اہتمام کیا کرتی تھیں۔ اس دعوت کی خاص بات یہ تھی کہ اس دعوت کے لئے تمام تر ضروریات ، آٹا، چینی ، چائے کی پتی، خوردنی تیل سے لے کر جلانے کی لکڑی تک بہو اپنے میکے سے لایا کرتی تھیں، یہ رسم ” حسبی”کے نام سے جانی جاتی تھی۔ بڑے بزرگ کہا کرتے ہیں کہ پرانے وقتوں میں بقدرمائدہ دوچند پکوانوں سے اہتمام ضیافت ہوجاتاتھا، مگر وقت گزرنے اور معاشی حالات میں بہتری کے ساتھ ساتھ دسترخوان پر مہمانوں کی تعداد میں کمی اور پکوانوں کی تعداد میں بیشی آتی گئی۔ پھر ذرائع ابلاغ اور جدید صوتی و تصویری مواصلاتی انقلاب کے ساتھ ساتھ روایتی پکوانوں کی جگہ نت نئے پکوانوں نے لینا شروع کیا۔ خصوصا ٹیلی ویژن کی ترقی اور وسعت نے تو رہن سہن میں نمائیاں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی ترتیب وتراکیب میں بھی اپنے اثرات مرتب کئے۔ ٹیلی ویژن پر اس وقت کئی ممالک کے چینلز بھی دیکھے جاسکتے ہیں جو صرف اور صرف پکوانوں کی تراکیب پر مبنی پروگراموں کے لئے مخصوص ہیں۔ ہمارے ملک میں ان چینلز کی کامیابی اور مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ رمضان المبارک میں خبروں کے چینلز پر بھی افطار کے اوقات میں کھانے پینے سے متعقلہ پروگرامز دکھائے جاتے ہیں۔اب یہ زمانہ ہے کہ روایتی پکوان یا تو بہت زیادہ امیر لوگ فیشن کے طور پر دسترخوان پر سجاتے ہیں یا پھر کوئی تنگ دست شخص کے دسترخوان پرملتے ہیں جسے جدید لذتوں تک رسائی نہیں اور ضرورتِ خوردونوش کی حد تک وہی روایتی پکوان موجود ہوتے ہیں۔ دیکھا دیکھی اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا رجحان بھی اب عوام میں کہاں رک سکتا ہے، دیگر تمام امور معاشرت کی طرح اس کارنیک میں بھی دیکھا دیکھی اور مقابلے کے رجحان نے جنم لیا۔ شروع شروع میں چائے، پکوڑے، مقامی پکوان کیسیر،عذوق، زدیرچونگ، چپاتی اور آلو کے قتلوں سے شروع ہونے والی دعوتوں نے وہ پینترے بدلے کہ ایک دسترخوان پربے شمار آئٹمز موجود ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ بیک وقت ایکاون آئٹمز کی موجودگی کی اطلاعات بھی ملی۔ کیوں نہ ہو، بازار میں موجود درجنوں غیر مقامی انواع و اقسام کے پکوانوں ،مٹھائیوں ، پھلوں سے ہوتا ہوا جدید چائنہ انگور اور ناشپاتی تک زیب دسترخوان ہوتی تھی۔ یوں جب مقدارِ اشیائے خوردونوش بڑھایا گیا تو دوسری طرف سے مدعو مہمانوں کی تعداد میں کمی ہونا لازمی سی بات تھی۔ ستم بالائے ستم یہ، مدعووین بھی حسب نسب دیکھ کر دعوتوں کا انتخاب کرنے لگے ، مگر جہاں زعماء خود تشریف نہیں لے جاسکتے وہاں اپنے گھر سے کسی کو بھیج کر سماجی تعلقات کو کمزورپڑنے سے بچانے کا اہتمام بھی فرماتے تھے۔ کئی بار سعدا اور علماء کو متعدد دعوتوں کی وجہ سے ناراضگیاں بھی مول لینی پڑی ہے۔ کیونکہ اس معاملے میں نہ صرف میکے اور سسرال کی کشمکش ہوتی تھی بلکہ ساس اور بہو کے معاملات بھی آڑے آتے تھے اور کمی بیشی کی صورت میں گھریلو موسم کی خرابی عین یقینی تھی۔ کئی بہووں کو دعوتیں کھلانے کے باوجود بھی مہینوں مہینوں طعنے کھانے کو ملتے تھے۔ چائے میں چینی کی کمی بیشی اور کھانے میں نمک کی تیزی جسیے معاملات بھی بیچاری بہووں کی عزت کا معاملہ بن جاتے تھے۔ کبھی کبھار بہووں کو خود اس قدر محتاط رہنی پڑتی تھی کہ کہیں ان کی غیر موجودگی میں ساس کوئی کارنامہ نہ دکھابیٹھے۔ دوسری طرف مہمانوں کے قد کاٹھ بھی بہو کے لئے غیرت کا سوال بن جاتا تھا۔ متعدد بار ایسے بھی واقعات پیش آئے ہیں کہ بھول چوک میں کوئی آئٹم دسترخوان پر پیش ہونے سے رہ گیا ہو۔ممکن ہے کہ سادات، علماء اور عمائدین میں ہفتوں ہفتوں پہلے سے بکنک کنفرم کرانی پڑتی ہو۔ اس زمانے میں معدے اور تیزابیت کی شکایت بھی موقوف تھی۔ کھانے پلانے کے معاملے میں، پھر بات گھر سے باہر دعوت کی ہو تو پرہیز کرنے والے کہیں نظر نہیں آتے تھے۔ بعد ازاں اس رسم میں پکوانوں کی تعداد پرپابندی لگانے کی نوبت بھی آپہنچی اور بذریعہ اشتہار صرف آٹھ سے دس اقسام کی چیزیں منتخب کی گئیں اور مقررہ حد سے زیادہ تعداد میں پکوانوں سے دسترخوان سجانے والوں پر جرمانے کی سزائیں بھی مقرر کی گئیں۔ جب مقابلہ ختم ہوا تو رسم میں جان کہاں رہ جاتی، دھیرے دھیرے یہ رسم خود بخود انجام پذیر ہوگئی۔ آ ج بھی رمضان کے مہینے میں کم و بیش ایک سے دو دعوتیں تو ہر گھر میں ہوتی ہیں۔البتہ میکے سے راشن و سامان لا کر دعوتوں کا اہتمام کرنے کا سلسلہ تھم چکا ہے۔ سسرال اور میکے والے بھی باہم ایک آدھ دعوتوں کے تبادلے پر خوش ہی رہتے ہیں۔ مگر اب حال یہ ہے کہ ہر گھر میں پکنے والے پکوان کسی دعوت سے کم کے نہیں ہوتے۔ شہروں میں اڑوس پڑوس میں اچھے کھانوں کے تبادلے کے رجحان بھی موجود ہیں۔ البتہ بازار میں ریڈی میڈ کھانوں کے معیار پر سوالات اٹھتے ہیں۔ جس کا کوئی معیار متعین نہیں۔ سکردو جسیے شہر میں جہاں شام کے وقت گرد آلود جکڑھ چلنے سے گھروں کے بند کمروں میں بھی مٹی کے ذرات پہنچ جاتے ہیں وہاں کھلی ریڑھیوں پر کھانے تلنے، بیچنے اور تیارکرنے کے لئے حفظ ماتقدم کے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہیں۔ چوک چوراہوں پر کھلے آسمان تلے کھانے بنانے والوں کے ڈھیرے موجود ہوتے ہیں۔دوسری طرف رمضان کی ہیت اور روزے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے غرباء، ایتام، بیوہ گان، ہاسٹلز میں مقیم طلبہ و طالبات اور دیگر ستم رسیدہ افراد کی معاونت پر بھی توجہ درکار ہے۔ جن کو انواع واقسام کے کھانے میسر نہ ہونے سے کہیں غیر ارادی طور پر دل شکستہ ونادم نہ رہ جائیں۔ دوسری طرف بازاروں میں موجود چھوٹے کاروباری پیشہ ور افراد کی طرف بھی توجہ مبذول کرانے کی ضرورت ہے جن کا کاروبار عمومی خوردنو ش کے علاوہ چولہوں کی بندش کی وجہ سے مندی کا شکار ہوجاتا ہے۔ عموما لوگ بڑی دکانوں اور مال سے ون ونڈو شاپنگ کے ذریعے سے تمام تر سامان خرید لیتے ہیں جس کا منفی اثر چھوٹے کاروباری حضرات پر پڑتے ہیں ۔ ایسے میں ان کی مدد رمضان کے مہینے میں ان کی محنت اور سختیوں کے عوض دوچار پیسے کمانے کا بھی ذریعہ بن سکتی ہے۔ اسی طرح وہ بھی اپنے گھروں میں اچھے پکوانوں کا انتظام کرسکتے ہیں، ان کے بچے بھی دیگر بچوں کی طرح لذیذپکوانوں کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ یقیناًخوشیاں بانٹنے سے خوشیاں پھیلتی ہیں اور اگر ماہ رمضان میں بحالت روزہ ہمارا ہر عمل جو بامقصد اور مثبت ہو وہ بھی عبادات میں شمار ہوسکتا ہے۔ یقیناًاس سلسلے کو صرف رمضان تک محدود کرنا مقصد نہیں ہے بلکہ عام دنوں میں جذبہ ایثار اور امداد باہمی کا جذبہ سربلند رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک فلاحی معاشرہ تشکیل پاسکے۔