فاٹا کی برف پگھل چکی
قومی اسمبلی سے قبائل کو خیبر پختونخوا میں ضم کر نے کا بل اتفاق رائے سے پاس ہونے کے بعد فاٹا کی برف پگھل چکی ہے ۔ بل کا پاس ہونا گویا بارش کا پہلا قطرہ ہے۔ اگلے 5 سالوں میں فاٹا کے عوام کو پاکستانی شہری کی حیثیت سے بُنیادی انسانی حقوق ملیں گے اور فاٹا میں بھی آزادی کا سورج طلوع ہوگا بل کا پاس ہونا منزل کی جانب پیش رفت ہے منزل نہیں ابھی اس راہ میں مزید کئی رکاوٹیں حائل ہیں ۔ ’’ بادشاہ لوگ‘‘ اپنی بادشاہت آسانی سے ختم ہونے نہیں دیں گے ۔ فاٹا کے عوام کو حقوق دینے کی راہ پر دیوار بن کر کھڑے رہیں گے ۔ فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے قومی اسمبلی نے جس بل کی منظوری دی ہے یہ بل اب سینیٹ میں جائے گا سینیٹ میں پاس ہونے کے بعد صدر مملکت کے دستخط سے قانون کا درجہ حاصل کرے گا ۔ اس بل کے تحت آئین کے 7دفعات اور ان دفعات کی ذیلی شقوں میں ترامیم کر کے خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں قبائلی عوام کو نمائندگی کا حق دیا گیا ہے ۔ قومی اسمبلی میں قبائلی علاقوں کی 12نشستوں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کیاگیا ہے ۔ اب صوبائی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 126سے بڑھ کر 149ہوجائے گی۔ قومی اسمبلی میں صوبے کی کل نشستیں 48سے بڑھ کر 60ہوجائیں گی۔ اس طرح سینیٹ میں فاٹا کو صوبا ئی کوٹہ پر نمائندگی ملے گی ضلعی حکومتوں کا بلدیاتی نظام قبائلی علاقوں میں نافذ ہوجائے گا پولیس کا دائرہ کار قبائلی علاقوں تک بڑھایا جائے گا ۔ عدالتوں کے دائرہ اختیار کو قبائلی علاقوں تک توسیع دی جائے گی ۔ بنیادی انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کا حق بھی قبائلی عوام کو مل جائے گا۔150سال پرانا انگریزوں کا دیا ہوا کالا قانون فرنٹیر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) ختم ہوجائے گا ۔ اس کو پولیٹیکل راج یا فرد واحد کی بادشاہت کا نام دیا جاتا تھا ۔ انگریزوں میں فاٹا کا مخفف لفظ Federally Administered Tribal Areas کے لئے بولا جاتا تھا۔ اس نام نے قبائل کو ان کی شناخت سے محروم کر دیا تھا ۔ ہمارے دوست ڈاکٹر نصرت آفریدی کہا کرتے تھے کہ ایف سی آر نے ہمارے علاقوں کو Fatally Administered Terrible Areas بنا دیا ہے ۔ اور یہ بات حقیقت سے دُور نہیں تھی بلکہ بہت قریب تھی۔ 24مئی کو قومی اسمبلی کے جس اجلاس میں فاٹا بل کی منظوری دی گئی اس اجلاس کی خاص بات یہ تھی کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور اسلام آباد سے قومی اسمبلی کے ممبر عمران خان نے ڈھائی سال بعد اسمبلی کے سیشن میں حاضری لگائی۔بل پر رائے شماری ہوئی تو 229 ووٹ بل کے حق میں آئے ایک ووٹ اس
کے خلاف آیا ۔ مسلم (ن) ، پاکستان پیپلز پاریٹ ، اے این پی ، فاٹا کے آزادپارلیمانی گروپ ، جماعت اسلامی ، مسلم لیگ (ق) ، بی این پی ، ایم کیو ایم، قومی وطن پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے اراکین نے بل کے حق میں ووٹ دیئے ۔ جمیت العلمائے اسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے واک آوٹ کیا۔ عمران خان نے ڈھائی سال بعد قومی اسمبلی میں تقریر کر کے بل کو تاریخی سنگ میل قرار دیا اور اپنی پارٹی کی طویل جدوجہد پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ دیگر پارلیمانی لیڈروں نے اپنی تقاریر میں فاٹا کے انضمام کو وقت کی ضرورت اور عوامی امنگوں کے عین مطابق قرار دیا۔ فاٹا آزاد پالیمانی گروپ نے بل کی حمایت کرنے پر تمام پارلیمانی پارٹیوں کا شکریہ ادا کیا ۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنی تقریر میں بل کی منظوری پر سپیکر اور ایوان کو مبارک باد دی۔ انہوں نے کہا کہ آج اس ایوان نے فاٹا بل کی منظور ی سے قو م کو مثبت پیغام دیا ہے کہ قوم مفاد اور ملکی سا لمیت کے لئے ہم سب یک زبان ہوکر کام کرنے کا عزم رکھتے ہیں ۔ سیاسی اختلافات ہمیں قومی مفاد سے پیچھے نہیں ہٹا سکتے اور یہ پارلیمان صحیح معنوں میں عوامی امنگوں کا ترجمان ہے بل کی منظوری سے اگرچہ ایک اہم سنگ میل عبور ہو ا ہے 27220مربع کلومیٹر رقبہ اور 31لاکھ کی آبادی شامل ہونے کے بعد صوبے کا رقبہ 27220سے بڑھ کر 101741 ہوجائے گا جب کہ صوبے کی آبادی ایک کروڑ 77لاکھ سے بڑھ کر 2کروڑ 9لاکھ ہوجائے گی تاہم ابھی مسئلہ حل نہیں ہوا ۔ ڈیڑھ سو سال پہلے انگریزوں کے دیئے ہوئے نظام کو راتوں رات بدلنا آسان کام نہیں۔ بڑے بڑے مگرمچھوں کا مفاد اس نظا م سے وابستہ ہے۔ افغانستان اور بھارت میں بیٹھے ہوئے ہمارے دشمنوں کا مفاد اس نظام سے وابستہ ہے ۔ اس لئے قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی ۔ اگر آنے والی حکومت کو زرداری اور عمران خان کی طرح مضبوط قیادت میسر آگئی تو سالوں کا سفر دنوں میں طے ہوسکتا ہے۔بقول خواجہ حیدر علی آتش
سفر ہے شرط مسافر نواز بہترے
ہزار ہا شجر سایہ وار راہ میں ہے