بات تو سچ ہے
میجر جنرل (ر) اسددرانی نے دو بھارتی مصنفوں کیساتھ ملکر مشترکہ کتاب چھپوائی کتاب کا انگریزی نام ’’ سپائی کرونیکل اینڈ دی الوژن آف پیس ‘‘ ( Spy chonicle and the illusion of peace) ہے اس نام کا سلیس اردو ترجمہ کیا جائے تو اس کا ترجمہ ہوگا ’’رودادِ جاسوسی اور فریبِ امن ‘‘ کتاب کی رونمائی نئی دہلی میں ہوئی میجر جنرل (ر) اسد درانی کو بھارت کا ویزا نہیں ملا اس لئے انہوں نے سکائپ کے ذریعے تقریب سے خطاب کیا کتاب کے پرنسپل آتھر اے ایس دلت نے تقریب میں تجویز دی کہ پاکستانی چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ کو بھارت بلا کر سرخ قالین والا پروٹوکول دو اور امن کی داغ بیل ڈال دو اگر شمالی اورجنوبی کوریا میں شاخ زیتون کا تبادلہ ہوسکتا ہے تو پاکستان اور انڈیامیں کیوں نہیں ؟ پاکستانی فوج کے ترجمان نے تجویز کا خیر مقدم کیا مگر پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں غلغلہ بلند کیا گیا ہے کہ جنرل اسد درانی نے بھارتی مصنفین کیساتھ مل کر کتاب کیوں لکھی اور کتاب میں اہم راز افشا کیوں کئے ؟ اس ہاؤہو اور توتکار کی وجہ یہ ہے کہ کتاب کے دیگر شریک مصنفین کا تعلق بھارتی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ انالی سس ونگ ( RAW) سے رہا ہے اے ایس دلت ’ ’ را‘‘ کے سربراہ رہ چکے ہیں سنہا کا بھی اس حوالے بڑا نام ہے جنرل (ر) اسد درانی 1990ء سے1992 تک پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس کے سر براہ رہے ہیں کتاب کے مندرجات میں کھرا سچ ہے جو کبھی نہیں بولا گیا پروین شاکر کا شعر دوسرے حوالوں سے سب کی زبان پر ہے اس حوالے سے بھی بر محل لگتا ہے
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
اگر اسد درانی نے لکھا ہے کہ ایبٹ آباد کمپاؤنڈ میں اسامہ بن لاد ن کو گرفتار کروانے کے لئے امریکہ کے ساتھ سودے بازی ہوئی تو یہ بات جھوٹ نہیں ہوسکتی اگر وہ لکھتا ہے کہ اس گیم میں دولت ہمارے حکمرانوں کے ہاتھ آئی یہ بھی جھوٹ نہیں ہوسکتی اس طرح کی باتیں بھارتی مصنفین نے بھی اپنے بارے میں لکھی ہیں مگر بھارت میں کسی نے شور نہیں مچایا پاکستان میں اس پر شور مچانے کی کیا ضرورت ہے؟ ایسا کیوں ہورہا ہے ؟ پروفیسر شمس النظر فاطمی کہتے ہیں کہ یہ ہماری تہذیب کا حصہ ہے ہم نا بالغ قوم ہیں نا خواندہ قوم ہیں ہماری تہذیب یہ ہے کہ گھر میں بچے کو بولنے یا سوال کرنیکی اجازت نہیں دی جاتی سکول ، کالج اور یونیورسٹی میں بات کرنے والے اور سوال پوچھنے والے طالب علم کو شریر قرار دیا جاتا ہے ڈانٹ پلائی جاتی ہے اگر بات کہنے اور سوال کرنے اصرار کرے تو مشال خان کی طرح موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے یہ تہذیب آگے جاکر یوں گل کھلاتی ہے کہ سیاستدان ، وزیر اعظم ، آرمی چیف ، انٹیلی جنس چیف ، حاضر سروس اور ریٹائرڈ افیسرسے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ سچ نہیں بولے گا اگر سچ بولا تو زمین پھٹ جائے گی آسمان گر پڑے گا قیامت برپا ہوگی اس لئے سب کو یہی حکم دیا جاتا ہے کہ سچ سے دور رہو شتر مرغ بنواور جھوٹ کے ریت میں سر چھپاؤاسی میں عافیت ہے ذرا غو ر کیجئے26نومبر2008ء سے لیکر 26مئی 2018تک کچھ کم 10سال تک بیت گئے غیرریاستی عناصر پر اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک کے بیانات ریکارڈ پر ہیں 10سالوں میں انکوائری رپورٹ مکمل نہیں ہوئی نواز شریف کا تازہ بیان زیر بحث تھا کہ اسد درانی کی کتاب آگئی اور خبروں پر چھاگئی نان سٹیٹ ایکٹرز کا ترجمہ ’’ غیر ریاستی عناصر ‘‘ کیا جاتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ نجی ادارے یا پرائیوٹ لشکر جو حکومت کے قابو اور کنڑول میں نہیں یہ ادارے بھار ت میں بھی ہیں دیگر ملکوں میں بھی ہیں انیسویں صدی کی جاسوسی سرگرمیوں پر کئی کتابیں شائع کی گئی ہیں دی گریٹ گیم بہت مشہور کتا ب ہے روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے حوالے سے کئی کتابیں لکھی گئی ہیں جارج فریڈ مین نے امریکہ کی جاسوسی سرگرمیوں پرAmerica’s Secret War (امریکہ کی خفیہ جنگ) سے عنوان سے کتاب لکھی ہے اور اس میں صراحت کیساتھ بتایا ہے کہ نائن الیون سے تین دن پہلے احمد شاہ مسعود کو کس طر ح قتل کیا گیا ؟ نائن الیون پر امریکہ میں فلم بنی مائیکل مور کی فلم فارن ہائیٹ نائن الیون آج بھی یوٹیوب پر موجو دہے امریکہ میں اس پر کوئی شور بپا نہیں ہوا سیاسی بلوغت اور قومی مفادات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی اپنے ہاں بحث مباحثے ،مکالمے ، گفتگو اور سوال و جواب کی تہذیب کو جگہ دیدیں سچ بولنے ، سچ سننے، سچ لکھنے اور سچ پڑھنے کا حوصلہ پیدا کریں ورنہ پروین شاکر کا مصرعہ ہمارا منہ چڑا تا رہے گا’’بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ‘‘