کالمز

مزدور بہت مجبور

سید تنویر حسین شاہ

’’اس شہر میں مزدور جیسا کوئی در بدر نہیں
جس نے سب کے گھر بنائے اس کا کوئی گھر نہیں ‘‘

ہر سال یکم مئی کو یوم مزدور منایا جا تا ہے ۔اس دن ٹی چینلز پر ٹاک شوز ،ریڈیو پر خصوصی پروگرامز اور اخبارات میں سپیشل ایڈیشن شائع ہوتے ہیں ۔اسی طرح کانفرسسز اور جلوس کا بھی اہتمام کیا جا تا ہے ۔آپ حیرا ن ہو گئے ہونگے کہ آج یکم مئی تو نہیں اس کے باوجود مزدوروں کے حوالے سے تحریر کا کیا مقصد ہو سکتا ہے ۔مزدور معاشرے کا وہ مجبور طبقہ ہے جس کی زندگی انتہائی مشکل ترین ہوتی ہے ۔ہم سب کو ان کے مجبوریوں اور مشکلات کا علم ہونے کے باوجود ان کو نظر انداز کرتے ہیں ۔ان کی مشکلات کا تذکرہ ہمیں صرف یکم مئی کو ہی یاد آتے ہیں ۔یکم مئی کے دن ٹی وی چینلز پر حکمران ،سیاستدان اور سماجی شخصیات مزدوروں کے ساتھ خوب ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور مزدوروں کے حوالے سے بنائے قوانین پر عملدرآمد پر زور دیتے ہیں لیکن اگلے دن ہی یہ دعوے اور باتیں دفن ہو جاتی ہیں اور یکم مئی کو پھر یہ دعوے اور باتیں انہیں آتے ہیں،پھر سے یہی دعوے اور باتیں روایتی انداز میں ہوتی رہتی ہیں ۔مزدوروں کو سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی جانب سے مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے جس کی وجہ سے مزدور انتہائی سخت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔قارئین کچھ دن پہلے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کی جانب ہمیں مزدوروں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے حوالے سے ڈاکومنٹری بنانے کا کہا گیا ۔اس سلسلے میں دوستوں کے ہمراہ مزدوروں کی تلاش میں ہم نے گلگت شہر اور مضافات کا سروے کرنے کی غرض سے نکل پڑے ۔اتنی شدید گرمی تھی کہ چلنا بہت مشکل تھا لگ نہیں رہا تھا کہ اتنی سخت گرمی اور رمضان کے مہینے میں ہمیں کوئی مزدو مزدوری کرتے ملے گا ۔اس غرض سے جب نے جوٹیال کا رخ کیا تو ہمیں کئی مزدور ملے جو کہ اس شدید گرمی اور رمضان کے مہینے میں بھی محنت مزدوری میں مگن تھے ۔چونکہ ہمارا ٹاسک ان مزدوروں سے ملنا اور ان کے مسائل کی ریکارڈنگ کرنا تھا ۔اس حوالے سے کئی مزدوروں سے ملے ۔جن ،جن سے ہم ملے ان سب میں ایک مسئلے کا ہر کسی نے ذکر کیا کہ جہاں جہاں کام کرتے ہیں وہاں کام کے آخر میں پیسے وقت پر نہیں ملتے ایک مہینہ مزدور میں لگ جاتا ہے اور دوسرا مہینا اس کام کے پیسے لینے کیلئے متعلقہ مالکوں کے پیچھے در بدر ہونا پڑتا ہے ۔سخت ترین کام کے عوض معاوضہ کم ملتا توہے لیکن کم معاوضہ بھی وقت میں نہیں ملتا اور اس کے پیچھے در در کی ٹھوکریں کھانا پڑتا ہے ۔ان مزدوروں میں زیاد تر مزدور وں نے اپنے مسائل کیمرے کے سامنے میں آکر بیان کرنے سے انکار کیا جب ہم نے وجہ پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ تھا کہ اگر یہ باتیں ہمارے مالکوں کو پتہ چلا تو ہمیں پیسوں کی ادائیگی نہیں کرینگے اور ساتھ مزدوری سے بھی فارغ کرینگے ۔قارئین !خود ہی اندازہ لگائے کہ مزدور کتنا مجبور ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کو بھی بیان نہیں کر سکتا ۔مزدور اپنے بچوں کی خاطر خود ہر قسم کی تکلیف برداشت کرنے کو تیار ہے ۔مزدوروں کے حوالے سے کئی قوانین بنائے گئے ہیں لیکن ان قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ مزدور کے مشکلات میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے ۔یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم معاشرے کے اس کمزور طبقے کی آواز بنے اور ان کے مسائل کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کریں ۔

’’جو موت سے نہ ڈرتا تھا بچوں سے ڈر گیا
اک رات خالی ہاتھ ۔۔۔۔۔جب مزدور گھر گیا‘‘

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button