کالمز
جنت نظیر خطہ سیاحوں کی نظروں سے اوجھل۔۔۔۔۔
تحریر سبخان سہیل
صدر پریس کلب استور
صدر پریس کلب استور
خطہ شمال گلگت بلتستان پوری دنیامیں اپنی قدرتی خوبصورتی کے باعث ایک منفرد مقام رکھتا ہے ۔یوں تو گلگت بلتستان کا ہر ضلع ہر گوشہ سیاحتی اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے مگر گلگت بلتستان کا ضلع استور پوری دنیا کے اندر سیاحت کے اعتبار سے جنت نظیر خطہ ہے ضلع استور کے درجنوں سیاحتی مقامات ایسے ہیں جن کی حکومتی سطح پر کوئی پذرئی نا ہونے کے باعث دنیا کے سیاحیوں کی نظروں سے اُجھال ہے۔
محترم جمشید خان دوکھی نے استور راما کے حوالے سے کچھ یوں لکھا ہے
حسین دلبر پری پیکر ہے راما
بڑادلکش تیرا منظر ہے ہے راما
تصور کاجہاں آباد تجھ سے
خیالوں میں میرا اکثر ہے راما۔
۔قارین آج ہم آپ کو جنت نظیر وادی استور کے مختلف سیاحتی مقامات کے سیر کو لے چلتے ہیں ۔۔شاہراقراقرم تھلیچ کے مقام سے ایک روڈ ضلع استور کی جانب نکلتا ہے اس روڈ پر ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ضلع استور کا ہیڈ کواٹرآتا ہے استور کے ضلعی ہیڈ کواٹر عیدگاہ سے آدھا گھنٹے کی مسافت پر ننگا پربت کی دامن میں واقعہ یخہ بستہ ٹھنڈی ہواں بل کھاتے ندی نالوں اور ابشاروں کےساتھ جنگل کے درمیان واقعہ خوبصورت راما سیاحوں کو خوش آمدید کہتا ہےراما کے اندر داخل ہونے کے بعد اللہ معاف کرے جنت کا گمان ہونے لگتا ہے یہاں پر ہر طرف سرسبز ہریالی اور جنگل ہی جنگل ساتھ ہی سیاحوں کی طعام وقیام کے لیے مناسب قیمتوں کے ساتھ ہوٹلوں کا بھی بندوبست کیا گیا ہے راما میں ہر سال محکمہ سیاحت گلگت بلتستان کی جانب سے ایک بہت بڑا ایونٹ ہوتا ہے راما فیسٹول کے نام پر اس فیسٹول میں لاکھوں سیاح اور مقامی لوگوں کے ساتھ فاران کنٹری سے بھی راما کا روخ کرتے ہیں اس فیسٹول میں گلگت بلتستان کا قدیمی کھیل پولو،بسژا،اور ثقافتی میوزیکل شو کا بھی انقاد کیا جاتا ہے ۔بد قسمتی سے راما فیسٹول حکومت گلگت بلتستان کی عدم توجہ اور محکمہ سیاحت گلگت بلتستان کی عدم دلچسپی کے باعث پچھلے سال ایک ایسے سیزان میں منایا گیا تھا اس سیزان میں راما میں سردی شروع ہوچکی تھی پیک سیزان میں منعقد کرانے کے باوجود لاکھوں شایقین اور سیاح اس فیسٹول کو دیکھنے راما آئے تھے لیکن اس وقت راما کی رونقیں اور گرینری ختم ہوچکی تھی حکومت گلگت بلتستان اور محکمہ سیاحت کو چائے کی راما فیسٹول جولائی ،اگست کے مہنے میں منعقد کرائیں اس کے بعد راما میں سردی شروع ہوتی ہےجو لوگ راما گھومنے آتے ہیں ان کے لیے بھی میری گزارش ہوگی راما میں مئی ،جون ،جولائی ،اگست ان چار مہنوں میں آئیں جنت نظیر وادی راما کے اندر ہی چند منٹوں کی مسافت پر سنگو سر جھیل واقعہ ہے اس قدرتی جھیل کو دیکھنے دنیا بھر سے لاکھوں سیاح گرمیوں میں یہاں کا روخ کرتے ہیں ننگا پربت کی دامن میں واقع یہ قدرتی جھیل قدرت کے شہاکار ہے یوں لگتا ہے کہ اللہ رب العزات کی زات نے زمین کے اوپر ایک جنت بنائی ہے یہاں کی خوبصورتی دیکھا کر انسان کی عقل دھنگ رہے جاتی ہے اس جھیل میں ٹروٹ مچھلی بھی عام پائی جاتی ہے سیاح بڑی شوق سے مچھلی کا شکار کرتے ہیں ۔ضلع استور کا ہر گوشہ سیاحت کے اعتبار سے ایک منفرد مقام رکھتا ہے ایک طرف جہاں ننگا پربت کی دامن پر واقع راما اپنی خوبصورتی دیکھنے کو سیاحوں کو دعوت دیتا ہے تو دوسری طرف دنیا کا خوبصورت ترین نیشنل پارک دیوسائی جو کی استور ہیڈ کواٹر سے دو گھنٹے کی مسافت پر واقع دیوسائی اپنی خوبصورتی کے باعث سیاحوں کو اپنی طرف رغوب ہونے پر مبجور کرتا ہے ۔۔ہیڈ کواٹر استوردو گھنٹے کی مسافت پر واقع دیوسائی سطح سمندر سے 12700 فٹ بلنڈی پر واقع ہے یہاں پر ہر طرف سر سبز ہزاروں اقسام کی قدرتی پھول اور چاروں طرف کھلے میدان ساتھ ہیں ایک بہت ہی بڑا جھیل ہے اس جھیل کا نام شیو سر ہے ،دیوسائی کے معنی دیوء مالاوں کی سر زمین دیو مالاوں کی اس سر زمین دیوسائی تین حصوں پر مشتمل ہے شیو سر، چھوٹا پانی ،بڑا پانی ،ان تینوں جگوں پر سیاحوں کے لیے ہوٹلینگ کا باقاعدہ نظام موجود ہے اور ٹینٹ سروس بھی دستیاب ہے دیوسائی میں تین اقسام کے ریچ بھی پائے جاتے ہیں اور یہاں کے بہتے دریاوں میں مچھلی وافر مقدار میں ملتی ہے دیوسائی گرمیوں میں سیاحوں کا مسکن ہوتا ہے لاکھوں سیاح اور مقامی لوگ اپنی فیملی کے ساتھ یہاں کا روخ کرتے ہیں دیوسائی کابیشتر حصہ ضلع استور کی حدود میں ہے جبکہ کچھ حصہ اسکردو کے حدود میں شامل ہے دیوسائی کے تھرو اسکردو کا بھی سفر یہی سے شروع ہوتا ہے اور دیوسائی سے باآسانی دو سے تین گھنٹے میں اسکردو پہنچ جاتے ہیں ۔تیسری جانب ضلع استور کے اندر ایک ایسی زمین پر چھپی ہوئی جنت بھی موجود ہے جس کا حکومتی سطح پر پذرائی حاصل نا ہونے کے باعث دنیا کے سیاحوں کے ساتھ ساتھ لوکل سیاحوں کی نظروں سے بھی مکمل اُوجھل ہے دیوسائی جاتے ہوئے راستے میں چیلم بیس کیمپ آتا ہے اس کیمپ سے بائیں کی جانب دیوسائی کا راستہ ہے جبکہ دائیں جانب منی مرگ ،دومیل،چھوٹی دیوسائی کا راستہ آتا ہے ۔یہاں سے منی مرگ کا راستہ شروع ہوتا ہے راستے میں برزل ٹاپ آتا ہے جو کی چودہ ہزار فٹ بلندی پر واقع ہے اس برزل ٹاپ میں اس وقت بھی دو سے تین گز برف موجود ہے سطح سمندر سے چودہ ہزارفٹ بلندی پر چڑھنے کے بعد عام انسان کو یہاں ہائٹ بھی لگ جاتی ہے برزل ٹاپ سے پھر اترائی شروع ہوتے ہوتے چھوٹی دیوسائی کا راستہ آتا ہے جہاں سے چھوٹی دیوسائی اور گلتری شگمابنیال اور کارگل کا راستہ شروع ہوتا ہے اس راستے میں چند گھنٹوں کے سفر کے بعد کارگل کاباڈر آتا ہے یہاں سے دومیل منی مرگ جانے کے لیے دائیں جانب کا روخ کرنا ہوتا ہے یہاں سے اترائی میں اترتے ہوئے سامنے ہر طرف جنگل ہی جنگل اور ایسا لگتا ہے دیکھنے والے کو کی کسی مالی نے اس ایریا میں تراش کے جنگل کو الگ الگ اقسام کے درختوں کو مختلف لائینوں میں لگایا ہے ایک طرف لاین میں پہاڑ کی چوٹی سے لیکر دریا تک الگ الگ سینری کے درختوں کی جو لاینیں لگی ہیں اس کو دیکھنے سے یوں لگتا ہے کہ کسی مالی نے ترتیب سے لگایا ہے ہر طرف سرسبز و شادب ہریالی اور صاف ستھرے دریاوں کا پانی جگہ جگہ پہاڑوں سے ابشاروں کا نکلنا قدرت کی فن کی ایک ایک چیز کا گوائی دیتا ہے منی مرگ پہنچنے کے بعد بائیں جانب ایک چھوٹی سی سڑک نکلتی ہے اس سڑک پر آدھ گھنٹے کی مسافت کے بعد وہ منانظر دیکھنے کو ملتے ہیں ہی شاہد پوری دنیا میں اس کی قدرتی خوبصورتی کے برابر نہیں ہے دومیل جسی خوبصورت جگہ پوری دنیا کے اندر کہیں نہیں ہر طرف سرسز ہریالی اور چاروں طرف پہاڑ گلیشر برف زمین سے لیکر پہاڑ کی چوٹی تک سرسبز اور ان پہاڑوں کے درمیان ہر طرف سرسبز ہریالی کے میدان کے وسط میں ایک جھیل جس کو رینبو لیک کے نام سے جانا جاتا ہے اس جھیل کے درمیان ایک کشتی بھی موجود ہے جو سیاحوں کی سیرو تفری کے لیے استمعال میں لائی جاتی ہے جنت کا گمان ہونے لگتا ہے اس خوبصورت جگہ دومیل رینبو جھیل میں جانے کے بعد اس کی خوبصورتی دیکھ کر یہاں سے واپس جانے کا بالکل بھی دل نہیں کرتا ہے ۔۔یہاں آنےکے لیے عام لوگوں اور ساحوں کو اس لیے بھی آنے نہیں دیتے ہیں کیونکہ یہ باڈر سے محتصیل ہونے کے باعث انٹری پوائنٹ چیلم کیمپ میں ہی سیاحوں کو روکتے ہیں اور یہاں آنے سے منع کرتے ہیں جس کی وجہ سے دنیا کا خوبصورت ترین جنت نظیر خطہ دومیل کی قدرتی خوبصورتی دیکھنے سے محروم ہوتے ہیں یہاں پر کوئی بھی آنا چاہتا ہے تو مقامی انتظامیہ اور پاکستان آرمی سے پاس لینا لازمی لینا ہوتا جو کہ ہر عام بندے کے لیے حاصل کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا ہے اسلیے اس خوبصورت جگہ تک عام سیاحوں کی رسائی کے لیے پاکستان آرمی اور حکومت گلگت بلتستان کو سنجیدہ اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔استور میں اس طرح کے درجنوں اور ایسے مقامات ہیں جن کی سرکاری سطح پر تشہر نہ ہونے کے باعث اپنی خوبصورتی کو اپنے پروں کے نیچے لیے خاموش بے بسی کے تصوری بنی ہیں، جنت نظیر وادی کالا پانی،درلے جھیل،روپل ویلی ،پریشنگ ویلی ،اللہ ولی جھیل ،ڈیچل،سمیت درجنوں اور مقامات ہیں جو حکومتی توجہ کے طلب گار ہیں اگر حکومت گلگت بلتستان محکمہ سیاحت گلگت بلتستان ان سیاحتی مقامات پر تھوڑی سی توجہ دیے تو ان مقامات سے سیاحت کی مد میں سالانہ کروڈوں روپے کمائے جاسکتے ہیں اور علاقے کے لوگوں کی بے روزگاری میں کمی لانے میں بھی بڑی مدد ملے گی۔میرا پیغام سیاحوں کے لیے جنت نظیر وادی استور کے مختلف مقامات کی ایک بار ضرور اپنے دوستوں اور فیملیز کے ساتھ سیر کریں ایک بار آئیں بار بار آنے پر مجبور ہونگے ۔ جمشید خان دوکھی کے اس شعر کے ساتھ اپنے الفاظ سمیٹنا چاہوں گا۔
ہم اپنے دیس جی بی کے حسین پیکر میں رہتے ہیں۔
زرا محل وقوع دیکھو زمیں کے سر میں رہتے ہیں۔
چمن کے حسن اور چشموں کے میٹھے پن سے لگتا ہے۔
کہ ہم جنت میں بھی ہم ہمسایہ کوثر میں رہتے ہیں۔