ہاتون غذر، تاریخ کے آئینے میں
تحریر: محمدجان رحمت جان
mohdjan21@gmail.com
ہاتون پونیال کے اہم گاؤں میں سے ایک ہے جس کی آبادی دور دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ گاؤں تقریباََ ۹ میل لمبا ہے۔ اس کی آبادی اٹھ ہزارسے زائدہے۔ یہاں شینا اور کھوار زبان بولی جاتی ہے۔ لوگ بہت مہمان نوازاورمحنتی ہیں۔فصلوں اور پھلوں کیلئے اس کی زمین بہت زرخیزہے۔ گاؤں کااپناکوئی نالہ اور گلیشیر نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی کمی رہتی ہے۔ دریائے اشکومن اور گوپس کے درمیان میں واقع ہونے کی وجہ سے دومعلق پل اس گاؤں کوگاہکوچ سے ملاتے ہیں۔ جولائی2010ء کی بارشوں کی وجہ سے دونوں پل تباہ ہوگئے تھے گوپس کی طرف پل مکمل تباہ اور اشکومن کی طرف والا پل جزوی تباہ ہوچکا تھا جس کی وجہ سے لوگ بہت مشکلات کا شکار تھے۔ اس گاؤں میں ضلع غذر کا پہلا بوائز کالج قائم ہے جو انٹر سطح تک تعلیمی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ اس کالج کے قیام سے اب تک تقریباََ پندرہ سال سے زائد کا عرصہ ہوا لیکن عمارت کاکام مکمل نہ ہوسکاہے۔ پل کے ٹوٹنے کی وجہ سے کالج کے طلباء کوگاہکوچ سٹی میں غذر پبلک سکول کی عمارت میں شفٹ ہوچکے تھے جو پل کی بحالی کے بعد دوبارہ اپنی بلڈنگ میں منتقل ہوئے۔ اس کے علاوہ ایک گورنمنٹ بوائز ہائی سکول کے ساتھ چشمہ کے مقام پر ایک بوائز پرائمری سکول قائم ہے۔ کالج کے قریب پرائمری سیب سکول کے ساتھ نرسری تا دوئم این سی ایچ ڈی سکول بھی ہے۔ آغاخان ایجوکیشن سروس کے زیراہتمام بھی طالبات کے لئے مڈل سکول قائم ہیں جس کو کمیونٹی ہائی سکول کے طورپر چلا رہے ہیں جسکی وجہ سے خواتین کی تعلیمی شرح مردوں کے برابر لانے کی سعی کی جارہی ہے۔ ہاتون غذر کا واحد گاؤں ہے جہاں نرسری سے ماسٹر ڈگری تک کے لئے سرکاری سکول‘ کالج اور یونیورسٹی کمپس موجود ہے۔ اس لحاظ سے حکومت کی بڑی مہربانیاں ہے۔ لیکن یہ گاؤں گاہکوچ ہیڈ کوارٹر کے قریب ہونے کے باوجود موجودہ دور کی سہولیات سے کوسوں دور ہے۔ دور جدید میں سٹرک کی حالت دیکھ کر ستر کی دہائی یاد آتی ہے۔ کسی کو یقین بھی نہیں آئی گی کہ یہاں اس قدر تعلیمی سہولیات ہیں۔ کچی سٹرک پر اتنے موڈ ہیں کہ کسی سیانے کے کہا ہے کہ’’ ہاتون روڈ پر موٹریا گاڑی چلانا ایسا ہی ہے جیسے چلاسی حریب پررقص کرنا‘‘۔ ٹریفک اتنی زیادہ ہے کہ ایک دوسرے کے خیال کے بغیر آگے نکلنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ بچے بڑے اور بوڑھے حوس و ہواس سنبھال کر اس روڈ پر سفر کرتے ہیں۔ کالج اور یونیورسٹی کے سہولیات تو مل چکی ہے لیکن چلنے کے لئے روڈ نہیں کالج بس اور بڑی گاڑیاں پل کے پاس جاکے رُک جاتی ہے اور طلباء پیدل آگے چلنا شروع کرتے ہیں۔ بہت سارے سرکاری آفسران ان سہولیات کے فقدان کی وجہ سے یہاں نہیں رہتے اور کافی دور گاہکوچ میں قیام کرتے ہیں۔ زمین اتنی زیادہ ہے کہ سرکاری اداروں کے ساتھ بہت سارے اور ادارے بھی اس گاؤں میں منتقل ہوسکتے ہیں۔ گاؤں میں زیادہ تر ضلع کے دیگر گاؤں سے لوگ آنے لگے ہیں جس کی وجہ سے بنیادی سہولیات کم پڑتے جارہے ہیں۔ پینے کے پانی کی شدید قلت ہے۔ جو دستیاب ہے وہ پینے کے قابل نہیں۔ ہاتون قسمت والے علاقوں میں سے ایک ہے۔ ان کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ غذر میں ہاتوں وہ واحد گاؤں ہے جس کی تاریخ بین الاقوامی ہے۔ ہوسکتا ہے مقامی لوگوں کو اس کا علم نہ ہو کیونکہ یہ بہت پہلے کی کہانی ہے۔ آےئے آپ کو اس بارے میں کچھ معلومات بتاتے ہیں۔
ہاتون کے وسط میں موجود ایک بڑے چٹان پر لکھے نقش نگاری پر سب سے پہلے توجہ اے ڈبلیو ریڈ الپ نے 1941ء میں دی یہ سکرپٹ سنسکرت کے ’پروٹوسرادا‘ حروف میں لکھی گئی ہیں۔ اس چٹان کے آس پاس قدیم نہر‘ بستی اور قبروں کے باقیات پائے جاتے ہیں۔ اس سکرپٹ میں ہاتون کے لئے جو نہر کھودی گئی ہے اس کو ’مکار اوحینی‘ کا نام دیا گیا ہے اور ہاتون کا نام ’ہاتون گراما‘ درج ہے۔ اس سکرپٹ میں یہاں گلگت کا بھی ذکر ہے جس کو گلگیتا سرامہا کہا گیا ہے۔ مزید کہا گیا ہے کہ’ پٹالہ شاہی‘ کا ابتدا ’شری بگادا‘ سے شروع ہوتا ہے یوں اس گاؤں کی تاریخ میں بہت رازیں پنہاں جن کی کھوج لگانے کی ضرورت ہے۔
ہاتون کے بارے میں مشہور تاریخ دان احمد حسن دانی نے اہم دریافتیں کی ہے۔ ان کے بقول یہاں صدیوں پہلے ایک ڈیم تھا اور اس ڈیم کا نام’ ’ہنی سارا‘ تھا۔ ڈیم کی وجہ سے یہ علاقہ بہت خوش حال اور آباد تھا۔
درد قبائل اور بدھ مت کے زمانے میں ان علاقوں میں ہنی ساراایک بند(ڈیم)کا نام تھا جو ہاتون کے مقام پرواقع تھا اسی سے لوگ آبپاشی کیاکرتے تھے اور اس وقت کی تہذیب ترقی کے عروج پرتھی۔ اس وادی میں دریائے اشکومن کواب بھی ہنی سارا (ہنی ساری) کہتے ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ وادی اشکومن کا قدیمی نام ’ ہنی ساری‘ یا ’ ہنی سارا‘ تھا۔ مقامی لوگوں کواس حوالے سے بالکل معلومات نہیں۔ مورخین نے اس بات کی کھوج لگانے کے لئے گہرا مطالعہ کیاہے حسن دانی ’ہسٹر ی آف نارتھ‘ کے صفحہ ۱۵۱ پرلکھتے ہے
"…. The inscription refers to the prosperous region of paramabhattaraka maharajahiraja paramesvara. Tukarapura, obviously the same site where the inscription has been installed on the bank of Ishkoman River, by makara-simha… district (vishaya) of hanisara identical with Hanisara old name of Ishkoman Valley… Urban centre developed after a dam was built on the river. A usual method of channeling river water in this region” (.pp151,152)
اس دریافت سے اندازہ ہوتاہے کہ قدیم زمانے میں ہاتون ایک خوشحال اور آباد گاؤں تھا۔ اب یہاں قدیم تہذیب اور نسل کے آثار نہیں۔ یہاںآبادی کی اکثریت مسلمان ہے۔یہاں چار جماعت خانے اور تین مساجدہیں۔ ان کی تعمیرات میں کوئی قابل ذکر مواد نہیں جس کو تاریخی کہاجاسکے۔ قدیم زمانے سے اب تک اس گاؤں کے لئے پکی سٹرک نہیں۔ ضلعی ہیڈ کوارٹر گاہکوچ سے صرف دس کلومیٹر دور ہونے کے باوجود جدید سہولیات سے محروم ہے۔ لوگوں کی معیشت کا انحصار زراعت اور گلہ بانی پر ہے۔ ملازمت پیشہ لوگوں کی تعداد کافی بڑھ رہی ہے زیادہ ترجوان فوج میں جانا پسند کرتے ہیں۔ نجی اور سرکاری اداروں میں ملازمت کرنے والے خواتین وحضرات صبح سویرے کافی تکلیف سے سفر کرتے ہیں۔ اس گاؤں میں سفیدے کے درخت بہت زیادہ ہیں۔ پھل فروٹ کے علاوہ فصل کے لئے بھی زمین بہت زرخیز ہے۔ اس گاؤں کی آبپاشی کا دارومدار نہری پانی پر ہے۔ AKRSPکی مددسے ایک مشہور چینل درمدرکے نالے سے لایاگیا ہے۔ پل کے قریب ایک پانی ٹینک بھی بنائی جارہی ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ مقامی لوگوں کو پانی کی کتنی مشکلات درپیش ہیں۔ پانی اور روڈ میسر ہو تو یہ گاؤں غذر کا ماڈل گاؤں بن سکتا ہے۔ اللہ تعالی اپنے وسائل کو بروکار لاکر خود کفالت حاصل کرنے کی ہمیں توفق دیں۔ امین