عزت مآب استاد
پنجاب کی حکومت کے نگران وزیر اعلیٰ پروفیسر حسن عسکری رضوی نے محکمہ تعلیم پنجاب کے ذریعے ایک نیا حکمنامہ جاری کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ آئندہ کے لئے استاد ، ٹیچر ، لیکچرر، انسٹرکٹر ، پروفیسر وغیرہ کے نام کوئی بھی خط ،چٹھی ، مراسلہ لکھتے وقت استاد کے نام سے پہلے ادب کے طور پر انریبل (Honorable) یعنی عزت مآب لکھا جائے ، خلاف وزری کرنے والے کو قانون کے تحت سزا دی جائے گی ۔ حکمنامے کے ساتھ پنجاب بھر کے دفاتر نے 30لاکھ اساتذہ کے ناموں سے پہلے انریبل یا عزت مآب کا ٹائٹل لگا دیا ہے ۔ لسٹوں یا فہرستوں کو از سر نو مرتب کرنے کا کام شروع ہوا ہے ۔ نئی فہرستوں میں ہر استاد کے نام سے پہلے انریبل آئے گا ۔ یادش بخیر! جنرل پرویز مشرف نے استاد کی عزت اورتکریم کے لئے سال میں ایک دن ’’ سلام ٹیچر ڈے ‘‘ منانے کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔ جو اُن کی حکومت تک جاری رہا۔ اُن کی حکومت جانے کے بعد وہ سلسلہ بھی ختم ہوا اب کوئی بھولا بھٹکا شاگرد کبھی انگڑائی لیتا ہے تو استاد کو فون کرکے سلام ٹیچر کہتاہے وہ بھی ایسا شاگرد ہوتا ہے جو خود ٹیچر ہونے کے ناتے شاگردوں سے ’’ سلام ٹیچر ‘‘ کی توقع رکھتا ہے ۔ ورنہ منشی تلوک چند محروم نے محکمہ تعلیم کے افیسروں اور شاگردوں کا حال ایک ہی مصرعے میں بیان کیا ہے ۔ ’’ بہ سگاں ادب نمودن بہ خراں سلام کردن ‘‘ پہلے مصرعے میں ’’ مرا راست نیامد ‘‘ کی تکرار شعر میں جان پیدا کرتی ہے ۔ اردو ادب میں اشفاق احمد نے استاد کی تکریم میں اٹلی کے دارلحکومت روم کی عدالت میں استاد کی تعظیم کیلئے پوری عدالت کے کھڑے ہونے کا ذکر تفصیل کے ساتھ کیاہے ۔وطن عزیز میں استاد کی تکریم یہ ہے کہ فیل ہونے والا طالب علم اگر ڈرائیور یاسپاہی بنتا ہے ، چھابڑی لگا تاہے ۔ سبزی یا گوشت کی دکان کھولتا ہے تو استاد کے ہاتھ بھی چومتا ہے ۔ استاد کی قدرو منزلت بھی کرتا ہے۔ عزت بھی کرتا ہے۔ مگر جو طالب علم افیسر یا حاکم بنتا ہے وہ استاد کو جوتیوں کی نوک پر رکھتا ہے ۔ ایک استاد نے دو سال ایک ہی کلاس کو انگریزی ، ریاضی اور فزکس پڑھایا تھا۔ دو سالوں کے اندر کم از کم 400دن کلاس میں گیا۔ اُس کلاس کا طالب علم بڑا حاکم بن گیا تو ٹیچر کو پہچاننے سے انکار کیا ۔ ٹیچر نے کہا انگلش ، فزکس ، میتھ؟ اس نے کہا ہوسکتاہے تم نے پڑھایا ہو مگر مجھے یا د نہیں ۔ اب 15 سال بعد اُس واقعے کو بھلا کون یاد رکھے ! یہ طالب علم اگر ڈرائیور یا چھابڑی والا ہوتا تو استاد کو کبھی نہ بھولتا ۔ بنیادی طور پر ہمارا معاشرہ جاگیرداری نظام کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ اس نظام کی واحد خوبی یہ ہے کہ اس میں جاگیردار کو فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کا درجہ حاصل ہے جاگیر دار خوف کی علامت ہے ۔ خوف کے مارے لوگ اس کی عزت کر تے ہیں۔ پولیس اور فوجی بھی خوف کی علامیتں ہیں ۔ جاگیردار کے برابر دونوں کی عزت ہوتی ہے ۔ جنرل ضیاء الحق نے ایک اور طبقہ متعارف کرایا ۔ اس طبقے کو بھتہ خور ، قوماندان یا اس نام سے ملتے جلتے اور کئی نام دیئے گئے اس نام کے ساتھ بھی جاگیردار کی طرح خوف کا عنصر وابستہ ہے ۔ بندوق ، بم ، گرینیڈ اور جیکٹ والا بندہ ہے ۔ اس لئے اس کی عزت اور تکریم بھی واجب قرار دیدی گئی۔ مخبر صادق نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث مبارک کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ بدترین مخلوق ہوگی جس کے شر سے بچنے کے لئے لوگ اس کی عزت کریں گے ۔ اس حدیث کی روشنی میں آج ہمارے معاشرے کے معززین پر نظر دوڑائیے اور خود معلوم کیجئے کہ کون ہے جس کی عزت اُس کے شر سے بچنے کے سوا کسی اور وجہ سے کی جاتی ہے ۔ پنجاب میں مختصر المدت نگران حکومت کی سربراہی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک استاد کے سپرد کی گئی ہے۔ اس لئے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے اندر محکمہ تعلیم کو استاد کی عزت اور تکریم کے لئے باقاعدہ حکمنامہ جاری کرنے کا خیال آیا۔ جب تک پروفیسر حسن عسکری دفتر میں ہیں اس حکم کی ’’ تکریم‘‘ ہوگی ۔ اس پر عمل ہوگا۔ جب انتخابات کے بعد کسی جاگیردار، سرمایہ دار اور صنعتکار کی حکومت آئیگی تو اس حکمنامے کا مذاق اڑایا جائے گا ۔ انگریزوں کے زمانے میں دفتری خط وکتابت کے آداب میں یہ بات شامل تھی کہ بڑا حاکم ، ماتحت یا رعایا کیلئے مراعات کا حکم دیتے وقت حکمنامہ کے شروع میں ’’ مجاز حاکم نہایت مسرت کے ساتھ ‘‘ لکھتا تھا ۔ قیام پاکستان کے بعد لوگوں کو نوکری سے نکالتے اور سزا دیتے وقت بھی ان الفاظ کو کسی نے حذ ف کرنے پر توجہ نہیں دی۔ آج بھی یہ الفاظ اسی طرح استعمال ہوتے ہیں ۔ ’’ مجاز حاکم نہایت مسرت کے ساتھ تمہیں نوکری سے نکالنے کا حکم دیتاہے ’’ کچھ لوگ عدالتوں میں گئے کہ مجھے نوکری سے نکالنے پر مجاز حاکم کو مسرت حاصل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ میرے خلاف ذاتی بغض رکھتاہے ۔ عدالتوں سے کسی کو ریلیف نہیں ملا۔ کسی کو نہیں ملا۔ استاد کے نام سے پہلے انریبل یا عزت مآب لکھنے کے حکم کے ساتھ بھی روایتی جاگیردار طبقہ ایسا ہی سلوک کرے گا ۔بعیدنہیں کہ خیبر پختونخوا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جو 600اساتذہ گذشتہ ڈیڑھ سال ہوئے تنخواہوں سے محروم ہیں ۔ ان کو ملازمت سے نکالنے کے لئے حکومت پنجاب کے حکمنامے کے تحت لکھا جائے گا۔ ’’عزت مآب اللہ دَتہّ آئی ٹی ٹیچر ہائی سکول زرغون آباد ، تمہیں فوری طور پر نوکری سے ڈسمس کیا جاتا ہے ۔‘‘ میرے خیال میں پنجاب کے اندر اس قسم کے ہزاروں اوٹ پٹانگ احکامات عزت مآب کے لقب سے شروع کئے جائیں گے۔