اقرا فنڈ کی خدمات
گلگت بلتستان ملک کا انتہائی پسماندہ علاقہ ہے جہاں 90 فیصد سے زائد لوگوں کو بنیادی سہولیات میسر نہ ہونے کے برابر ہے جن میں مناسب تعلیم او ر صحت سرفہرست آتا ہے گلگت ، بلتستان ،دیامر ریجن کے ذیلی علاقوں میں بسنے والے باسی زندگی کے تمام بنیادی سہولتوں سے نہ صرف محروم ہے بلکہ قرون وسطیٰ کی زندگی گزارنے کے مترادف ہے حکومتوں کی جانب سے فنڈر اور ترقیاتی منصوبے رکھنے کے باوجود بھی ان علاقوں میں مسائل کا انبار آج بھی انسانی زندگی کے گر د دائرہ بنی ہوئی ہے حکومت کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں این جی اوز کی بڑی تعداد بھی صحت ،تعلیم ،انفراسٹکچر اور دیگر مقاصد کے نام پر کام کرنے کے دعوے کررہے ہیں بتایا جاتا ہے کہ اس وقت گلگت بلتستان بھر میں ایک ہزار سے زائد این جی اوز کام کررہے ہیں بلتستان کی بات کی جائے تو یہاں 7 سو سے زائد غیر سرکاری تنظمیں کام کرنے کے دعویدار ہے مگر چند ایک کے سوا کسی ایک کا کہیں کوئی کردار نظر نہیں آرہا مختلف ناموں اور پُرکشش تنخواہیں اور مراعات لینے والے ان این جی اوز کے ذمہ دار کانفرنس اور سیمینا رز تک ہی محدود ہے ان این جی اوز کو بھاری امداد اور رقوم حاصل ہونے کے باوجود کام کرنے سے قاصر ہے مگر کچھ ادارے ایسے ہیں جن کا ذکر نہ کریں تو یقنانہ صرف زیادتی ہوگی بلکہ ان کی اچھی کارکردگی کو سامنے لا نا بھی میڈیا کی اولین ذمہ داری ہے غلام محمدسدپارہ جو کہ نہ صرف ایک اچھے انسان ہے بلکہ اچھے لوگوں میں بھی ان کا نام سرفہرست آتا ہے آج کل اقراء فنڈز کے نام سے ایک غیر سرکاری ادارے کے ساتھ بطور منیجنگ ڈائریکٹر منسلک ہے یہ ادارہ بلتستان ریجن میں تعلیم ،خاص کر بچیوں کی تعلیم ،خواتین کے لئے سلائی کڑھائی ،معذوروں کی بحالی ،جنگلی حیات کی تحفظ اور دیگر مسائل کی چنگار میں دھنسے علاقوں میں کام کرنے میں مصروف عمل ہے جن میں قابل ذکر شگر کے پسماندہ ترین علاقے باشے ویلی،سکردو بشو وادی اور ضلع گانچھے کے علاقوں میں تعلیمی سٹریکچر کو موئثر بنانے کے لئے کردار ادا کررہے ہیں باشے شگر ویلی جہاں سرکاری تعلیمی نظام نہ ہونے کے برابر ہے اقراء فنڈ کے زیر اہتمام اساتذہ کی بڑی تعداد سرکاری سکولوں کے شانہ بشانہ پڑھا رہے ہیں ان اساتذہ کو باقاعدہ ٹرینگ اور تربیت دے کر سرکاری اساتذہ کی نسبت سہولیات فراہم کررہے ہیں جبکہ بچیوں کی تعلیم کا باشے جیسے وادی میں کوئی بھی سوچ نہیں سکتا حالیہ دنوں راقم کو باشے کے کچھ سکولوں کا دورہ کرنے کا موقع ملا تو دنگ رہ گئے ان سکولوں میں بچیاں نویں اور دسویں کلاس میں بھی اقراء فنڈ کی مرہون منت سے اپنی تعلیم جاری رکھی ہوئی ہیں ان بچیوں کو تمام سٹیشنریز اور ضرورت کی چیزیں ادارے کی طرف سے مہیا کی جارہی ہے جب ہم نے پورے باشے ویلی میں مقامی عمائدین ،علما،عام لوگ اور طلبا و طالبات سے جانکاری حاصل کی تو ان کا کہنا تھا کہ سرکار کی نسبت اقراء کی خدمات لائق تحسین ہے خاص کر بچیوں اور خواتین نے برملا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہمیں پڑھانے والا کوئی ہوگا لیکن گزشتہ کئی سالوں سے اقرا ء فنڈ نامی آرگنائزیشن نے نہ صرف ہماری زندگیاں بدل ڈالی ہے بلکہ ہمیں تعلیم جیسے اہم اور بنیادی سہولیات سے آشنا کیا جارہا ہے باشہ کے مختلف گاؤں کے سرکاری سکولوں جن میں پرائمری سطح سے ہائی سکولز تک میں اقراء کے ٹیچرز پڑھا رہے ہیں بچیوں کی خاصی تعداد تعلیم سے استفادہ ہورہی ہے کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ باشے میں بچیوں کو پڑھا جائے گا راقم کو پچھلے ماہ سکرد وکے سینئر صحافیوں کے ہمراہ بشو ویلی میں بھی جانے کا اتفاق ہوا جس کا اہتمام خود اقرا فنڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر غلام محمد سدپارہ نے کیا تھا ہم نے بشو پہلے بھی دیکھا ہوا تھا لیکن اب کی بار حالات بدل گئے تھے بشو کی خواتین نہ صر ف سلائی ،کڑھائی سیکھ چکی تھی بلکہ زندگی کے ہر میدان میں اپنا لوہا منوانے کے لئے پُرعزم تھی خواتین کی سلائی اور کڑھائی دیکھ کر کسی پروفشنل کا کارنامہ لگ رہا تھا بشو وادی کے مختلف گاؤں میں اقرا ء فنڈ کی جانب سے خواتین کے لئے سلائی سنٹر قائم کئے ہوئے تھے خواتین کے لئے سلائی مشین ،اوزار ،ڈرافٹنگ کی چیزیں،بیگز اور تمام ضروریات مہیا تھی جبکہ اسی وادی بشو کے سرکاری سکولوں میں تعلیمی نظام کا بیڑا بھی سرکار کی نسبت اقرا فنڈ کا قابل ذکر ہے جن والدین کے بچیاں جو تعلیم کو ایک خواب ہی تصور کرتی تھی اقراء فنڈ نے بچیوں کو علم کی راہ دکھا دی ہے اور باشے شگر کی بچیوں کی طرح وادی بشو کے بچیاں بھی اقراء فنڈ کی مرہون منت سے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہورہے ہیں ان علاقوں میں جہاں خواتین کی تعلیمی شرح صفر ہونے کے برابر تھی اب پچاس فیصد سے آگے بڑھ رہی ہے تاریخ میں پہلی بار ان علاقوں کی بچیاں نویں اور دسویں جماعت میں پڑھ رہی ہے جو کہ کسی معجزے سے کم نہیں بشو کے عمائدین اور عوام نے بھی صحافیوں کو بتایا کہ اقرا ء کی خدمات اور کاکردگی سے ہمیں خوشی اور فخر حاصل ہے آج ہمارے بچے ،بچیاں اور خواتین آگے بڑھ رہی ہے یوں تو بلتستان میں تعلیم ،صحت اور دیگر مقاصد کے لئے سینکڑوں این جی اوز کام کررہی ہے مگر ان کے کارکردگی اور اقرا ء فنڈ کی کارکردگی کا زمین اور آسمان کا فرق نظر آرہا ہے جس کا اعتراف خود محکمہ تعلیم کے اعلیٰ آفیسران ،عوامی نمائندے ،میڈیا ،علما ،طلبا اور زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق افراد کررہے ہیں اقرا کی ٹیم اور منیجنگ ڈائریکٹر جانفشانی اور احساس ذمہ داری کے ساتھ کام کررہی ہے جو کہ قابل تحسین ہے اقراء فنڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر غلام محمد نے میڈیا کو اپنے ادارے کے بارے میں بتایا کہ مختلف غیر ملکی ڈونر بلتستان کے پسماندہ علاقوں میں غریب ،نادار،معذوراور پست طبقے کی خدمت کے لئے چند ایک پیسے دیتے ہیں جو ہم ان علاقوں کے حق دار لوگوں تک پہنچانے کے لئے کوشاں ہے پچھلے دنوں سکردو کے ایک مقامی ہوٹل میں اقراء فنڈ کی دو سالہ پروجیکٹ کی کلوزنگ سرمنی کے سلسلے میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں ڈپٹی کمشنر سکردو کیپٹن ر ندیم ناصر ،ڈی ڈی محکمہ تعلیم سکردو ،ماہر تعلیم پروفیسر حشمت کمال ،مصنف و سینئر صحافی قاسم نسیم کے علاوہ اعلیٰ شخصیات نے شرکت کیں اس موقع پر اپنے خطاب میں ڈپٹی کمشنر سکردو کیپٹن ر ندیم ناصر نے کہا کہ اقراء فنڈ کی تمام اقدامات اور تعلیم دوست پالیسی کو انتظامیہ قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے یوں تو بلتستان میں سینکڑوں این جی اوز موجودہے لیکن ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں مگر اقراء فنڈ ز کی کارکردگی اور بشو ،باشے اور گانچھے میں نمایاں ہیں منیجنگ ڈائریکٹر اقراء فنڈ غلام محمد اس حوالے سے مبارکباد کے مستحق ہے ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ بچیوں کی تعلیم و تربیت بنیادی طور پر حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن ایک غیر ملکی ڈونر جن کا تعلق یو ایس اے سے ہیں اور ہم صبح شام انہیں گالیاں بکتے ہیں وہ ان بچیوں اور خاص کر تعلیم کے شعبے میں کام کررہی ہے جو کہ انسانیت کی خدمت کا بہترین مثال ہے پاک یو ایس ایڈ کے اشتراک سے منعقدہ تقریب سے ماہر تعلیم پروفیسر حشمت کمال نے تعلیم کی اہمیت پر کلام پیش کئے جبکہ منیجنگ ڈائریکٹر اقرا ء فنڈ غلام محمد سدپارہ نے ادارے کی دو سالہ کارکردگی اور بشو ،باشے ویلی اور گانچھے میں ادارے کی کارکردگی پر ملٹی میڈیا کے زریعے بریفنگ دی آخر میں ادارے میں مختلف کارہائے نمایاں سرا نجام دینے والے خواتین اور اساتذہ کے لئے انعامات اور شیلڈ تقسیم کئے گئے ۔