گلگت بلتستان میں بلدیاتی انتخابات: مسئلہ بجٹ کا یا پھر حکومتی نیت کا؟
تحریر – رحمٰن علی شاہ
جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی دس سالہ دور اقتدار سے آئینی و جمہوری اعتبار سے لاکھ اختلاف کیا جا سکتا ہے، سو اختلاف مجھے بھی ہے، مگر ان کے بہت سارے اچھے اقدامات میں سے بلدیات پر توجہ اور بلدیاتی نظام کو فعال بنانا تھا جو کہ انتہائی احسن کام تھا۔ اس حقیقت سے قطع نظر کہ ترقی کے ساتھ کرپشن بھی پروان چڑھی مگر مجموعی طور پر اس نظام کے ثمرات یقینا ملک کے طول و ارض تک پہنچے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ بلدیاتی نظام کا براہ راست تعلق عام آدمی سے ھے کیوں کہ اس نظام کے ذریعے Grass Root Level سے عام آدمی منتخب ہو کر شمولیتی و شراکتی یعنی (Participatory Democracy) جیسے بڑے جمہوری عمل کا حصہ بنتا ہے اور اسی طرحGrass Root کی نمائندگی کرتا ہے۔
واضح رہے کہ بلخصوص پاکستان جیسے ملک میں کسی موثر بلدیاتی نظام کے نفاذ کے بغیر شمولیتی اور شراکتی جمہوریت کا تصور ہرگز مکمل نہیں ہوسکتا کیونکہ یہاں جمہوریت کچھ خاندانوں کی وراثت اور پارلیمانی الیکشن پیسے کا کھیل مانا جاتا ہے۔
ایک فعال بلدیاتی نظام ترقی کی ضامن ہے اگر یقین نہیں تو دنیا کی کوئی بھی ترقیافتہ ملک کی ترقی اٹھا کے دیکھیں، ترقی اور خوشحالی صاف نظر آئے گی۔ دنیا کو چھوڑیے پاکستان کی تاریخ میں آیوب خان یا جنرل مشرف کا دور دیکھ لیں تو صاف محسوس ہوگا یعنی بلدیاتی نظام کا وجود اور اس کے عدم وجود کا فرق معلوم ہوگا۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان جیسے معاشرے میں بلدیات اور بلدیاتی نظام ہمیشہ مارشل لاء ادوار میں ملٹری ڈکٹیٹرز کی ترجیحات میں صف اول رہا ہے۔ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ جمہوریت پسندی کا درس دینے والی ان سیاسی جماعتوں نے بلدیاتی نظام کو کبھی صحیح معنوں میں عوامی ضرورت نہیں سمجھا بلکہ مشاہدے کی بات یہ ہے کہ اس نظام کو سیاسی حکومتوں نے اپنے لئے سیاسی خطرہ یا پھرسیاسی نقصان کی نظر سے دیکھا، اس لیے کہ یہ نظام عوامی مسائل کو ان کے دہلیز پر حل کر کے کہیں پارلیمنٹ میں موجود طاقتور ٹھیکیداروں کی سیاست کو کمزور نہ کرے اور یوں ان کے مفادات پر مبنی سیاسی دکان ہمیشہ کے لیے بند نہ ہو جائے۔ جمہوری ادوار میں یہ نظام وجود میں آیا بھی تو کسی نہ کسی مجبوری کے تحت جو یا تو سپریم کورٹ کی جانب سے جاری احکامات کے نتیجے میں یا پھر عوامی دباؤ کا ذریعے ۔
بدقسمتی سے آج تک یہ تفریق نہیں ہوسکی کہ پارلیمان کا کام قانون سازی (Legislation) ہے نہ کہ گلی محلات میں سڑکوں کی مرمت جو کہ خالصتا بلدیات کی بنیادی ذمہ داری میں آتا ھے۔
جیسے تیسے سہی مگر پاکستان کے چاروں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات ہوچکے ہیں جن کے تحت چاروں صوبوں میں اس وقت بلدیاتی نظام نافذ ہوکر کام کر رہا ہے۔
مگر پاکستان کا منہ بولا نام نہاد پانچواں صوبہ (گلگت بلتستان) میں بلدیاتی انتخابات کی کانوں کان خبر نہیں ھے اور نہ ہی کوئی امکان نظر آرہا ہے۔ جنرل مشرف دور میں بلدیاتی انتخابات آخری بار 2004 میں ہوئے تھےتب سے آج تک یہ انتخاب ہمارے عوام اور بلدیاتی امیدواروں کے لیے ایک آس ہی بن کر رہ گئے ہیں جو اب شاید کبھی منعقد نہ ہو سکے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت کی 2009 تا 2015 کی مدت مکمل کرنے کے بعد خطے میں بر سر اقتدار پاکستان مسلم لیگ ن کی دو/تھائی اکثریت والی حکومت کے بھی تین سال مکمل ہوچکے ہیں مگر بلدیاتی انتخابات کرانے میں کوئی خاطر خواں پیش رفت کسی جانب سے نظر نہیں آئی۔ مجبوری کچھ بھی ہو سوال سیاسی بصیرت کا ھے۔
گزشتہ مہینوں مسلم لیگ ن کی جانب سے گلگت میں منعقدہ سوشل میڈیا کنونشن نے کچھ اچھے روایات قائم کئے تھے جن میں سوشل میڈیا کی مثبت پہلو کو اجاگر کرنے، خواتین کی نمائندگی اور نظم و ضبط قابل ذکر ہے۔ اسی پروقار کنونشن سے خطاب کرتے ہوے وزیر اعلی حافظ حفیظ رحمٰن صاحب نے تین سالہ کارکردگی پر مختصر روشنی ڈالی اور ساتھ میں ان تمام میگا پراجیکٹس کا بھی ذکر کیا جن کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ا یہ کریڈٹ بھی ان کی حکومت کو جاتا ہے کہ محکمہ تعلیم جیسے اہم ترین ادارے کو کرپشن سے پاک کرنے کے لیے عملآ کوشش کی گئی اور اساتذہ کی تقرری کے لیے این۔ ٹی۔ ایس کے ذریعے امتحان کرائے گئے جو میری نظر میں نہایت حوصلہ افزا اقدام ہے جس سے میرٹ کی بحالی ممکن ہوسکے گی ۔
مگر میرا سوال بلدیاتی الیکشن کا التوا اور اس حوالے سے کوئی واضح اعلان سامنے نہ آنے پر ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ محترم وزیر اعلی صاحب اسی کنونشن سے اپنے خطاب میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے بھی کوئی بڑا علان کرتے اور عوام کا دل جیت لیتے۔ ایسے اعلان سے خود مسلم لیگ ن کی نہ صرف جمہوری امیج بہتر ہوتی بلکہ اسمبلی کے اگلے انتخابات کے لئے ان کی پارٹی Grass Root تک منظم اور تیار ہونے میں بھی خاصی مدد ملتی۔ لیکن بڑے ایوانوں کی ٹھنڈک میں مست حکمران عوامی امنگوں کے مطابق کب اور کہاں کام کرتے ہیں، وہ اپنے شاہانہ مزاج کے تابع رہتے ہیں۔۔، گھسے پٹے عوام تو بس پانچ سال میں ایک ہی دفعہ ووٹوں کے ڈبے بھرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں، معزرت کے ساتھ۔
گلگت بلتستان میں بلدیاتی انتخابات کی راہ میں حائل (مالی یا سیاسی) مجبوریوں کے حوالے سے بہتر رہنمائی یا پھر اس بابت تفصیلات سے آگاہ کوئی حکومتی ترجمان ہی کرسکتے ہیں مگر عوام اور بلدیاتی انتخابات کے امیدوار کسی بھی قیمت پر بلدیاتی انتخابات کے جلد از جلد انعقاد کے خواہاں ہیں۔ اب یہ تو گزرتے وقت کے ساتھ پتہ چلے گا کہ عوامی خواہش پوری ہوتی ہے یا پھر حکومتی مجبوریاں برقرار رہتی ہیں ۔