دیامر کا واقعہ اور محکمہ ایجوکیشن
تحریر :۔دردانہ شیر
گلگت بلتستان کے علاقے دیامر میں ایک درجن سے زائد سکولوں کو نذر آتش کرنے کے واقعہ نے جہاں گلگت بلتستان کے عوام کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے وہاں پاکستان کا ہر شہری نے تعلیم دشمن عناصر کی اس کارروائی پر اس کی بھر پور مذمت کرنے کے علاوہ ایسے دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے اس واقعہ سے پورے ملک کی بدنامی ہوئی ہے اور دنیا کے اہم نشریاتی اداروں نے دیامر میں سکولوں کو نذر آتش کرنے کے اس واقعہ کی بھر پور کوریج کی ان عناصر نے ملک کا امیج پوری دنیا میں خراب کرنے کو کوشش کی ہے اور چند ملک دشمن عناصر کی اس کارروائی سے ملک میں تعلیم کے حوالے سے اُٹھائے گئے اقدامات پر بھی پانی پھیر لیا گیا حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جب پشاور میں آرمی پبلک سکول کے واقعہ کے بعد گلگت بلتستان میں سیکورٹی کو انتہائی سخت کرنے کی ضرورت تھی اور اس سے قبل بھی دیامر میں اس طرح کے واقعات پیش آچکے ہیں مگر ان سکولوں میں سیکورٹی کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ ایک درجن کے قریب سکولوں کو جلا دیا گیا اور کسی کو خبر تک نہیں ہوئی کیا ان تمام سکولوں میں کوئی چوکیدار تک تعینات نہیں تھا حالانکہ پشارو واقعہ کے بعد پورے ملک میں موجود درس گاہوں کی سیکورٹی سخت کرنے کی ہدایات ملنے کے باوجود محکمہ ایجوکیشن گلگت بلتستان نے سیکورٹی کے حوالے سے کیا اقدامات اُٹھائے تھے کیا ان سکولوں میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب تھے کیا ان سکولوں کے چوکیدار جس دن یہ واقعہ پیش آیا ڈیوٹی پر موجود تھے اگر نہیں تھے تو یہ ساری نااہلی میرے نظر میں محکمہ ایجوکیشن کی ہے جب تک تعلیمی اداروں میں سیکورٹی مزید سخت نہیں کی جاتی اس وقت تک اس طرح کے واقعات ہوتے رینگے اور گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت اس کے لئے نہ صرف سرکاری سکولوں بلکہ پرائیوٹ سکولوں میں بھی سخت سیکورٹی کی فراہمی کی ضرورت ہے گلگت بلتستان میں سینکڑوں کی تعداد میں پرائیوٹ سکول کھولے گئے ہیں مگر ان میں سے زیادہ تر کے پاس این او سی تک موجود نہیں اور سیکورٹی تو دور کی بات ہے ان سکولوں کی چاردیواری بھی نہیں این او سی دینا اور سیکورٹی چیک کرنا محکمہ ایجوکیشن اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کیا یہ دونوں محکمے اپنی ذمہ داری ٹھیک طریقے سے نبھا رہے ہیں
والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے اچھے سے اچھے درسگاہ میں تعلیم حاصل کریں یہی سوچ کر وہ اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کے ماہانہ ہزاروں روپے کے سکول فیس ادا کرتے ہیں ملک کے دیگر صوبوں کی طرح گلگت بلتستان میں سرکاری سکولوں کے ساتھ ساتھ پرائیوٹ سکولزو کالجز کا جال بچھایا گیا ہے مگر پرائیوٹ سکولوں کی کی نگرانی کے لئے تاحال سرکاری سطح پر کوئی ادارہ ایسا وجود میں نہیں آیا ہے جو ان سکولوں کی کارکردگی کا جائزہ لے اور یہ دیکھا جائے کہ جو شخص پرائیوٹ سکول کھول کر اس میں بہترین تعلیم دینے کے نام پر والدین سے پیسے بٹور رہا ہے وہ سکول بھی اس قابل ہے کہ واقعی میں جو فیس لیا جارہا ہے سکول کے اساتذہ اور بلڈنگ اس قابل ہے کیا ان سکولوں میں سکیورٹی کے تمام انتظامات ہیں مگر دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ پرائیوٹ سکولوں کی جتنی تشہر ہوتی ہے ایسا نہیں ہے گلگت بلتستان کے درجنوں ایسے پرائیوٹ سکول ہیں جن کی چار دیواری تک نہیں جو کہ انتظامیہ اور ایجوکیشن کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ایسے سکولوں میں بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے جس کی بلڈنگ کی چار دیواری تک موجود نہیں کیا آج سرکاری سکولوں میں حملے ہوئے ہیں تو کل کو ان پرائیوٹ سکولوں پر بھی اس طرح کے واقعات پیش اسکتے ہیں اور یہ ذمہ داری ضلعی انتظامیہ اور محکمہ ایجوکیشن کی ہے کہ وہ معیار پر اُترے بغیر کسی بھی پرائیوٹ سکول میں بچوں کو پڑھانے کی اجازت کیوں دیتے ہیں گلگت بلتستان میں کئی ایسے سکول ہیں جو گلی محلے میں کھولے گئے ہیں ان میں مناسب سیکورٹی نہیں دوسری طرف حکومت کے بڑے سرکاری سکولوں میں سیکورٹی کے حوالے اونچی اونچی دیواریں تعمیر کرانے کی بات کرتے ہیں مگر خطے کے بعض سر کاری سکولوں کے علاوہ ان پرائیوٹ سکولوں پر سیکورٹی کے حوالے سے کوئی توجہ نہیں دے رہاگلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں بہترین تعلیم کے نام پر جگہ جگہ مختلف بورڈ آویزاں ہیں اور اس وقت پرائیوٹ سکول کھولنا منافع بخش کاروبار بن گیا ہے اور اس کاروبار میں کوئی یہ بھی نہیں پوچھتا ہے کہ جو سکول کھولے گئے ہیں انھوں نے سرکار سے کوئی اجازت نامہ بھی لیا ہے یا نہیں اور جن اساتذہ کو ان سکولوں میں بچوں کی پڑھائی کے لئے رکھا گیا ہے وہ اس معیار پر اُترتے ہیں یا نہیں اور سیکورٹی کے انتظامات تسلی بخش ہیں جبکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ کئی سرکاری اور پرائیوٹ سکولوں کے مین گیٹ پر ایک ضیف العمر بندے ہاتھ میں ڈنڈا دیکر ڈیوٹی لگا دیا جاتا ہے اس حوالے گلگت بلتستان میں محکمہ ایجوکیشن کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے سیکورٹی کے حوالے سے یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ غذر ڈگری کالج جو کہ اب قراقرم کمپیس بھی اس بلڈنگ میں بنائی گئی ہے جس کی تعمیر بیس سال قبل مکمل ہوئی تھی مگر اتنی بڑی بلڈنگ تو بن گئی مگر اس کی چار دیواری ہے نہ ہی سیکورٹی کا کوئی خاص انتظام اور نہ ہی سی سی ٹی وی کمرے لگے ہیں آخر محکمہ ایجوکیشن کے ذمہ داران کی ذمہ داری کیا بنتی ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ دیامر کے واقعہ کے بعد اب نہ صرف محکمہ ایجوکیشن اور انتظامیہ بلکہ گلگت بلتستان کے عوام کو تعلیم دشمن عناصر پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور اگر ہم نے خود اپنی تعلیمی اداروں کی حفاظت کے لئے آگے نہ بڑھ سکے تو سکول کا ایک چوکیدار کچھ نہیں کر سکتا دیامر واقعہ کی باقاعدہ تحقیقات ہونا چائیے کہ قوم کے ان معماروں کے ،مستقبل سے کھیلنے والے عناصر کے آخر کیا مقاصد ہیں اور ان کے پیچھے کون سے عناصر کارفرما ہیں چونکہ ایک طرف گلگت بلتستان میں سی پیک کی وجہ سے یہاں کے عوام کی تقدیر بدلنے والی ہے اس کے علاوہ اب دیامر بھاشا ڈئم کی تعمیر بھی ہونے والی ہے اور خطے کے عوام کی پاکستان میں نئی آنے والی حکومت سے بھی بڑے توقعات وابسطہ ہیں ایسے میں ملک دشمن عناصر کی طرف سے قوم کے معماروں کے اداروں پر حملہ کرنا ایک منظم سازش لگتی ہے اور اس سازش میں ہمارا دشمن ملک کی یہ کوشش ہے کہ کسی طرح سی پیک کو ناکام بنایا جائے اور بعض شرپسند عناصر آلہ کا ر بنے ہوئے ہیں جن کا خاتمہ وقت کی ضرورت ہے آخر میں محکمہ ایجوکیشن کے بڑے جو صرف اپنے دفتروں تک محدود ہونے کی بجائے ان دور افتادہ علاقوں کا دورہ ضرور کریں جہاں اگر کسی سرکاری سکول کی چار دیواری نہیں ہے تو چاردیواری تعمیر کرایا جائے اور سیکورٹی ناکافی ہے تو سیکورٹی بہتر کیا جائے پرائیوٹ سکولوں کے نام پر گلی محلوں میں بننے والے سکولوں کا بھی جائزہ لیا جائے اگر ان میں بھی سیکورٹی کا مسلہ ہے تو ایسے تعلیمی ادارے جو بچوں کو تعلیم دینے کی بجائے پیسے بٹورنے کے چکر میں ہیں اور سیکورٹی کا انتظام نہیں تو اس طرح کے نام نہاد تعلیمی اداروں کو بند کرایا جائے۔