کالمز

دیامر میں دہشت گردی کا پائیدارحل کیا ہے؟؟

تحریر: احسان علی ایڈووکیٹ

ضلع دیامر کے دو حلقوں داریل تانگیر میں ایک ہی رات میں 13/12 لڑکیوں اور لڑکوں  کے سکولوں کو جلانے کے سنگین واقعات نے نہ صرف جی بی اور پاکستان بلکہ عالمی میڑیا کو بھی اس طرف متوجہ کیا ھے۔ کارپوریٹ میڈیا زمینی حقائق تک پہنچے بغیر دھشت گردی کیاس واقعے کی بنیاد پہ داریل تانگیر کو دوسرا وانا اور وزیرستان ڈیکلیئر کرکے یہاں بھی وانا و وزیرستان طرز کی فوجی آپریشن کرانے پہ تلے ھوئے ہیں بہت سے نام نہاد این جی اوز مالکان اور لبرل حضرات بھی فوجی آپریشن کو ہی اس مسلئے کا واحد حل قرار دے رہے ہیں۔

جس طرح پاکستانی حکمرانوں نے پختونخواکے قبائلی علاقہ جات کو ایک طے شدہ منصوبے کے تحت تعلیمی معاشی و اقتصادی میدان میں شروع دن سے نظرانداز کیا بالکل اسی طرح پختونخوا کے دو انتہائی پسماندہ اضلاع کوہستان اور شانگلہ سے ملحق داریل تانگیر کو بھی تعلیمی معاشی و اقتصادی میدان میں یکسر نظرانداز کئے رکھا۔

یہ علاقے جو جنگلات کی قدرتی دولت سے مالا مال تھے مگر طاقتور ٹمبر مافیا نے افسرشاہی کی آشیرباد سیان جنگلات کا قتل عام کرکے ختم کیا ھے اب مختلف ظاہر و باطنی طاقتور مافیاز کی للچائی ھوئی نظریں یہاں بڑے پیمانے پہ پائی جانے والی انتہائی قیمتی معدنیات کے خزانوں پہ ھے یہاں سے منتخب ھونے والے اکثر ممبران و وزراء ان مافیاز کے بارے میں خاصہ نرم گوشہ رکھتے ہیں اس علاقے کو تعلیمی میدان میں پسماندہ رکھنا ان مافیاز کے مفادات کو آگے بڑھانے میں مدد دیتا ھے اور ریاستی بیوروکریسی اور کمزور مقامی حکومتوں نے بھی ان علاقوں میں سرکاری سکول قائم نہ کرکے دراصل اس مافیا کے عزائم کا ساتھ دیا ھے یاد رہے کہ چلاس ضلعی ہیڈ کوارٹر ہونے کی وجہ سے یہاں ایک دو گرلز سکول قائم کیے گئے ہیں مگر داریل تانگیر کے ان وسیع وادیوں میں گرلز کالج تو بہت دور کی بات ھے کوئی ڈھنگ کا ایک سکول بھی نہیں سرکاری سکولوں کی غیرموجودگی میں بعض مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اور بعض جگہ سوشل ایکشن پلان کی مدد سے محدود پیمانے پہ چھوٹے چھوٹے گرلز سکول قائم کیے تھے دھشت گردی کا شکار بھی یہی سکول بنے ہیں یہاں کی 90 فیصد سے زیادہ آبادی انتہائی غریب طبقے سے تعلق رکھتی ھے ان کا واحد ذریعہ معاش چھوٹی چھوٹی اراضیات ہیں جن سے ان کے بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں ہوتیں اسلئے وہ خواہش رکھنے کے باوجود غربت کی وجہ سے اپنے بچیوں کو شہری علاقوں میں پڑھانے کیلئے منتقل کرنے سے قاصر ہیں جبکہ امیر طبقہ اور سرکاری ملازمین اپنے بچیوں کو گلگت اسلام آباد اور دیگر شہروں میں تعلیم دلا رہیہیں اسلئے یہاں کے 90 فیصد سے زیادہ غریب باشندے اس غربت اور پسماندگی سے نجات اور قابض مافیاز سے آزادی چاہتے ہیں جبکہ ایک فیصد طاقتور طبقہ اسٹیٹسکو برقرار رکھنا چاہتا ھے اس علاقہ میں شدت پسندی لڑکیوں کی تعلیم پہ پابندی کا حامی وسائل دولت پہ قابض یہی طاقتور مافیا ھے اس لئے یہاں سے شدت پسندی اور سماجی ترقی میں رکاوٹوں کا مقابلہ یہاں کے 90% سے زیادہ غریب طبقہ کے لوگ ہی کرسکتے ہیں اور علاقے کے زمینی حقائق سے لاعلم فورسز محض طاقت کی بنیاد پہ یہ تاریخی ذمہ داری کسی طرح بھی پورا نہیں کرسکتے فوجی آپریشنوں سے کہیں پہ بھی شدت پسندی اور دھشت گردی کا خاتمہ نہیں ھوسکا ھے بلکہ غریب لوگوں کے مشکلات میں بے حد اضافہ ھوا ھے جسکی مثال وزیرستان آپریشن ھے اس بات کا بہت امکان ھے کہ فورسز کی آپریشن سے پہلے ہی شدت پسند طاقتور طبقہ کے لوگ علاقے سے نکل جائیں گے اور 90% غریب طبقہ ہی اس آپریشن سے سب سے زیادہ متاثر ھوگا مسائل زدہ غریب طبقے کے مشکلات میں اور زیادہ اضافہ ھو گا اور اس بات کی بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ آپریشن کے خاتمے کے بعد یہ شدت پسند اور ترقی دشمن مافیہ اس علاقے میں پھر سے قدم نہ جمائے۔ اسلئے ضلع دیامر سے معاشی اقتصادی اور تعلیمی پسماندگی کے خاتمے کیلئے داریل تانگیر تھک نیاٹ کھنر گوہر آباد اورچلاس کے 90 فیصد سے زائد غریب طبقے کے نوجوانوں طالب علموں غریب کسانوں چھوٹے دکانداروں اور چھوٹے ملازمین کے منتخب نمائندوں پہ مشتمل منتخب اسمبلیاں/ جرگے قائم کرنے کیلئے مقامی عوام کو موقع فراہم کیا جائے اور ان منتخب اسمبلیوں/ جرگوں کے تیارکردہ سفارشات اور فیصلوں پہ حکومت اور انتظامیہ فوری عمل درآمد کرنے کا پابند ھو جہاں ضرورت پڑے تو صرف ان مقامی عوام کی منتخب اسمبلیوں/ جرگوں کی معاونت اور ان کے فیصلوں پہ عمل درآمد کیلئے پولیس اور دیگر فورسز کو جرگے کی ہی نگرانی میں حرکت میں لایا جائے دیامر کے نوجوانوں کی تجاویز کے مطابق ضلع بھر میں فوری طور پہ تعلیمی ایمرجنسی نافظ کی جائے اور اسکے تحت ہر گاوں میں گرلز پرائمری سکول ہر یونین کونسل میں مڈل سکول اور ہر تحصیل میں ہائی سکول فوری طور پہ کھولے جائیں اور ان تعلیمی اداروں کی حفاظت اور نگرانی ان مقامی منتخب اسمبلیوں/ جرگوں کے حوالہ کیا جائے یہاں کے غریب عوام کی معاشی حالت بہتر بنانے کیلئے روزگار کے متبادل ذرائعے پیدا کئے جائیں مقامی طور پہ پیدا ھونے والی مختلف معدنیات پہ مقامی لوگوں کی مالکانہ حقوق تسلیم کرکے عوام کے ذریعے کانکنی کیلئے بلا سود قرضے مقامی باشندوں کو دئے جائیں اس طرح مقامی غریب عوام کو بااختیار بنا کر انہیں معاشی طور پہ انہیں خوشحال بنا کر اور تمام مقامی انتظامی اقتصادی اور تعلیمی معاملات مقامی باشندوں کے ہاتوں میں دیکر اور اس طرح ہہاں کے عوام کا دل جیت کر ہی یہاں سے شدت پسندی دھشت گردی اور اسکے محرک طاقتوں کو شکست فاش دی جاسکتی ھے جبکہ ننگی طاقت کے استعمال سیغریب عوام کو مزید طاقت کے ذریعے مغلوب کرکے ان کے مشکلات اور غربت میں اضافہ ھوگا اور شدت پسندی اور دھشت گردی میں بھی مزید اضافہ ہوگا۔ اس مقصد کیلئے دیامر کے نوجوانوں طالب علموں دانشوروں چھوٹے دکانداروں اور غریب کسانوں کو خود سے منظم ہو کر ہدشت گردی اور شدت پسندی سے پاک معاشی سماجی اور تعلیمی ترقی کیلئے خود سے منظم ھونا پڑے گا جبکہ خود غرض حکمرانوں اور اسٹبلشمنٹ کی نظریں آپ کی ترقی پہ نہیں بلکہ آپ کے وسائل اور دولت پہ ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button