کالمز

حالیہ خودکشیاں‌ اور ان کی وجوہات

تحریر: رحمت نواز
مشہورفلاسفر ارسطوکا قول هے”انسان معاشراتی حیوان ہے” خدا نے انسان کو ایسے معاشرے میں پیدا کیاہےجہان وہ اپنے خاندان, رشتہ داروں اور دوستوں کے درمیان سکون سے زندگی گزار سکےاور اپنے خواہشات کی تکمیل کر سکے اور اسے ہمیشہ دوسرےانسان کی مددکی ضرورت ہوتی ہے اور چاہے تو وہ اپنے آپ کو اور پورے معاشرےکو اپنے طاقت ,عقلمندی اور محنت سے بلندیوں تک لیجا سکتا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتاہےکہ آج کل کے نوجوان نسل اس بات کو سمجھنےسے قاصر ہے اور وہ اپنے خواہشات کو پورا کرتے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہے اور اپنے جان تک داو پے لگانے کو تیار ہے بد قسمتی سے ان حالات سے ہمارا خطہ بھی گزر رہا ہے اور آے دن ہمارے نوجواں نسل خودکشیاں کرتے نظر آتے ہیں خاص کر انٹرمیڈیٹ سے کم طلبہ و طالبات میں یہ رجحان زیادہ ہے اور ایک اندازے کے مطابق گلگت بلتستان بھر میں مہانہ درجن کے قریب نوجواں اپنے زندگی کا چراغ گل کر دیتے ہیں۔ اگر دیکھا جاے تو اس کی مندرجہ زیل وجوہات ہو سکتے ہیں۔ ١۔احساس کمتری۔ ٢۔والدین کااولاد پرحدسےزیادہ اعتماد ۔ ٣۔سوشل میڈیا کا غلط استمال۔ ٤۔بے روزگاری۔ ٥۔پسند کی شادی۔ ١۔احساس کمتری: اس ظمن میں اگر دیکھا جاے تو ہر دوسرا شخص گومہ گو کی کیفیت میں مبتلا نظر آتا ہےاور اپنے آپ کو دوسروں سے کمتر سمجھتا ہے چاہےوہ دولت ؛شہرت؛تعلیم یا کسی اور شکل میں ہو مثلاً ایک طالب علم ہمیشہ اسی بات کی فکر میں ہوتا ہے کہ دوسرے طالب علم سےامتحانمیں زیادہ سے زیادہ نمبر لے سکے اگر ایسا نہ ہوا تو وہ اپنے آپ کو دوسرے سے کمتر محسوس کرتا ہے اور کبھی کبھی بات یہاں تک پہنچتی ہے کہ وہ اپنے جان کادشمن خود بن جاتا ہے۔ ٢۔والدین کااولادپرحدسےزیادہ اعتماد: یہ بھی آج کل دیکھنےمیں آراہاہے کہ والدین اپنے اولاد پر حدسےزیادہ اور غیر ضروری اعتماد کرتے ہے ہونا تو یہ چاہیےکہ بچپن سے اپنے اولاد پر نظر رکھے کہ میرا بیٹا بیٹی کا روزمرہ مصروفیت کیاہے اور وہ کس قسم کے سوسایٹی میں رہتا ہے کیا وہ اپنے پڑھائی پے توجہ دے رہاہےان سب کے بارے میں والدین کو با خبر رہنا چاہیے جب وہ لڑکپن یا جوانی میں داخل ہوتے ہے تب والدین کو احساس ہونے لگتا ہے کہ ہمارابیٹا بیٹی کا روٹین ٹھیک نہیں ہے پھراٗن پے سختی شروع کرتے ہے جو وہ برداشت نہیں کرسکتے اور اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں۔ ٣۔سوشل میڈیا کا غلط استمال: آج کل کا دور انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا دور ہے ہر مرد عورت،لڑکا لڑکی کے ہاتھ میں موبائل فون نظر آتا ہے لیکن بدقسمتی سے اس کا مثبت استعمال کم اور منفی استعمال زیادہ ہو رہا ہے اور ہر کوئی ذہنی مریض بنا دیکھائی دیتا ہے خاص کر نوجوان نسل اس میں خطرناک حد تک شکار نظر آتے ہیں اور سوشل میڈیا بھی اس قسم کے واقعات کا سبب بن رہا ہے۔ ٤۔بے روزگاری: ہمارے نوجوان نسل تقریباً تعلیم یافتہ ہے اور ہر روز مختلف یونیورسٹیز اور کالیجز سے فارغ لتحصیل ہو رہے ہیں لیکن بد قسمتی سے ہرایک کو روزگار میسر نہیں۔جس کے سبب معاشرے میں لوگ ان کو بیکار سمجھنے لگتے ہیں یہاں تک کہ اپنے گھر والے بھی احترام نہیں دیتے جس سے دلبرداشتہ ہوکر وہ اپنے جان کی بازی بھی کھیلتے نہیں کتراتے ہیں۔ ٥۔پسندکی شادی: آج کل یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہےکہ نو جوان نسل اپنے شریک حیات کا انتخاب اپنے پسند سے کرنا چاہتے ہے پھر اس راہ میں کئی رکاوٹیں آ سکتی ہے ان میں سے ایک گھر والے اس رشتے سے انکار کر لیتے ہیں دوسرا وہ جس لڑکے یا لڑکی کو اپنانا چاہتے وہ ان سے رشتہ نبانا نہیں چاہتے، جس سے دل برداشتہ ہوکر وہ اس قسم کے غلط کام کرنے کو ترجی دیتے ہیں ۔ بس دعاہےکہ خداوند بزرگ برتر ہم سب کو ان نامصاید واقعات سے محفوظ رکھے اور ہم اپنے مذہبی اداروں ؛علماءکرام اور واعضیں سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس مرض سے شفاء کے لیے مختلف سیمینارز کا انعقادکرےاور نماز جمعہ ،اپنے واعظ کے دوران اور دیگر تقاریب کے دوران ہماری نئی نسل کو اس کا انجام بارے آگاہ کرتے رہے خوف خدا ان کے دلوں میں اجاگر کر دے اور تمام والدین سے بھی اپیل ہےکہ وہ اپنے اولادکی پرورش میں کوئی کوتاہی نہ رکھے۔ نوٹ:تمام قارئیں میرے ان باتوں سے اختلاف کا بھی حق رکھتے ہیں مگر گزارش ہیں کہ اس مسلے کے حل کے لئے آپ کے مثبت جواب کا انتظار رہےگا۔۔ شکریہ
Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button