دیامرایک بارپھر نشانے پر …… کیوں لب سلے ہیں ۔۔؟
سعیدالرحمن
دیامر کو گلگت بلتستان کے دروازے کی حیثیت حاصل ہے ۔ آئے روز اس خطے کے حوالے سے اخبارات میں کچھ نہ کچھ پڑھنے کوملتا ہے جس میں بیشتر منفی خبریں ہی ہوتی ہیں ۔ گلگت بلتستان میں ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں دیامر کوہمیشہ منفی نظروں سے دیکھاگیا بدقسمتی سے اسکی وجہ میڈیا کی طرف سے اکثر منفی خبر وں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے اور مثبت چیزوں پر آنکھیں بندکرکے نظر اندازکیا جانا ہے۔ذمہ دارانہ صحافت کا بحران جہاں پورے پاکستان میں دیکھاگیاہے وہاں گلگت بلتستان میں بالخصوص دیامر میں بالکل نہ ہونے کے برابر ہے ۔ دیکھنے میں اچھے اچھے نام میڈیا کی دنیا میں اپنی پہچان بنا رہے ہیں مگر انکی رپورٹنگ دیکھنے کے بعد اس مقدس پیشے میں اسکی اصل روح نہ پاکر افسوس ہونے لگتا ہے۔ ہمارے اکثر صحافی دوستوں نے گزشتہ دنوں دیامر کے مختلف علاقوں میں لڑکیوں کے سکولوں کو جلائے جانے والے واقعے کو بھی ایسے پیش کیاجس میں حقیقت سے قطع نظر مرضی کی معلومات شامل کی گئی تھیں۔یقیناًیہ واقعہ انتہائی نامناسب اور تعلیم دشمنی پر مبنی تھا جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے مگر ایسے واقعات کی آڑ میں پورے علاقے کو ایسے پیش کرنا کہ جیسے یہ علاقہ دنیا کا بدترین جنگ زدہ علاقہ ہو، غلط ہے جسکاہر صحافی کو احساس ہوناچاہیے۔
دیامر میں پچھلے سال دسمبر سے محکمہ ایجوکیشن دیامر نے کمشنر دیامر و استور ڈویژن کے زیر سرپرستی ایک تعلیمی مہم کا آغاز کردیا ۔ دیکھتے دیکھتے مہم بہتر سے بہترین انداز میں چلنے لگی اور اس میں لوگوں کا ردعمل انتہائی مثبت نظر آنے لگا ۔مہم اسی طرح چلتی رہی اورپھر مارچ اور اپریل میں اس تعلیمی مہم کوختم کرتے ہوئے اس کے اعدادوشمار کاجائزہ لیاجانے لگا ۔ اس مختصر دورانیے میں دیامر کے افسران دوردرازوہ علاقے جہاں شاید اس سے پہلے کوئی اعلی افسر نہیں گیا تھا پہنچ گئے اور بڑی تعداد میں بچوں اور بچیوں کو سکولوں میں داخل کروادئیے۔جہاں پہلے سے سکول موجود تھے انکی از سرنو مرمت کی گئی اور جہاں سکول نہیں تھے وہاں نئے سکول بنائے گئے ۔ان علاقوں میں ایسے سکول بھی موجود تھے جو نام کیلئے سکول اور کام کے حساب سے اصطبل بنے ہوئے تھے ۔ انتظامیہ کے ریکارڈ میں تو یہ سارے سکول بہت ساری تعداد میں اساتذہ اور ہیڈ ماسٹر پر مشتمل پورے کے پورے سکول تھے اور سکول کے ملازمین اپنی تنخواہیں وقت پر لے رہے تھے ۔ ایسے سکول ایک یا دو نہیں بلکہ بہت سارے تھے ۔اب جب سکول ہی اصطبل بن جائیں اور اسکا علم کسی کو نہ ہو اس سے بڑی نااہلی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ خیر تعلیمی مہم نے انقلاب برپاکرتے ہوئے کل 10 ہزار نئے بچوں کو پورے دیامرسے سکولوں میں داخل کروادئیے ۔یہ تعداد اگر ایک لفظ کی طرح پڑھا جائے تو کوئی معنی نہیں رکھتا مگر حقیقی اندازمیں دیکھاجائے تو یہ تعداد بہت زیادہ ہے جس کو جتنا سراہاجائے کم ہے ۔اتنابڑا تعلیمی انقلاب جب دیامر میں آرہاتھا اس وقت ہمارے صحافی دوست سوئے ہوئے تھے کہ جو انکو وہ سب نظر نہیں آرہاتھا۔ مجال ہے کوئی اس پر کچھ لکھنے کی جسارت کرتا۔ اس علاقے کے صحافیوں کیلئے شاید یہ اتنا بڑا کوئی کارنامہ نہیں تھا جس پر کچھ لکھنا انہوں نے وقت کا ضیاع سمجھا۔
گزشتہ دنوں جو واقعہ دیامر میں پیش آیا اس کے پیچھے کون ہے اس کا اندازہ لگانے سے پہلے ان سکولوں کے بارے میں معلوم ہونا لازمی ہے۔ جوسکول جلائے گئے ہیں ان میں کچھ وہ سکول ہیں جو بہت پہلے سے اصطبل کے طور پر استعمال ہورہے تھے اور کچھ وہ ہیں جن کی از سرنو تعمیر کی گئی تھی ۔جلانے والا اتنا بے قوف تو نہیں ہوگا کہ رات کو خالی عمارتیں جلاکر یہ سوچے کہ انتظامیہ یہ سکول دوبارہ نہیں بنائے گی اور نہ ہی دوبارہ بچیاں سکول جانے لگ جائیں گی۔ہمارے بہت سارے دوست اس واقعے کو دہشت گردی سے جوڑتے ہوئے نوحہ کناں ہیں کہ دہشت گردوں کو پکڑا جائے تو ان سے میری عرض یہ ہے کہ دہشت گردکیا اتنے بے وقوف ہوتے ہیں کہ خالی عمارتیں جلاخوش ہوجائیں۔ اسلئے یہ واقعے کو ملکی یا بین الاقوامی مسئلہ بنانے سے پہلے غور کیا جائے کہ کہیں یہ علاقائی مسئلہ تو نہیں ؟سوشل میڈیا پر جب اس حوالے سے دھڑادھڑ پوسٹیں آنے لگیں تومجھے یہ دیکھ کر انتہائی حیرانگی ہوئی کہ گلگت بلتستان کے باقی اضلاع کے لوگ دیامر کو کن نظروں سے دیکھتے ہیں ۔
دیامر نام دنیا کیلئے انتہائی ڈراؤنی قسم کی کوئی چیز بن گئی ہے ۔پہلے اتنی بڑی تعداد میں سکولوں کو جلا کرخاکستر کردیئے گئے پھر اس پر شورشراباہونے لگا اور سکیورٹی ادارے حرکت میں آئے تو اسکانتیجہ ایک پولیس اہلکار کے شہیدہونے اور کئی کے زخمی ہونے کی صورت میں نکل آیا ۔حالات دن بدن بہتری کی طرف جانے کے بجائے اگلے ہی روز انصاف فراہم کرنے والے قلم کو توڑنے کی بھرپورکوشش کی گئی مگر انصاف جیت گیا اور وہاں حملہ کرنے والے شرپسنداپنے گھناؤنے منصوبے میں بری طرح ناکام ہوگئے۔اس طرح کے حالات دیامر میں پہلی بار پیش نہیں آئے اس سے پہلے بھی کئی بار ایسے ہی کچھ دردناک کارناموں نے دیامر کی تقدیر پر بدنصیبی کی مہر لگادی مگر ہمیشہ وقتی طور پر سرچ آپریشن کرکے امن بحال کیا جاتاہے جس سے وقتی طور پرفائدہ تو ہوتاہے مگر اسکے دیرپافائدے حاصل نہیں ہوپاتے اسلئے اس بار کوئی نئی تدبیر ڈھونڈی جائے ، کوئی نیا راستہ نکالا جائے جس پر چلتے ہوئے دیرپاامن قائم ہوسکے۔
مقامی افراد کے مطابق دیامر بالخصوص داریل میں جن شرپسندوں نے سکول جلائے ان کی تعداد بمشکل 15 سے 20 ہے ان کی عمریں 18 سے 30 سال ہے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اسکا علم سبھی کو ہے سکیورٹی اداروں کے پاس بھی اس کی مکمل رپورٹ موجود ہے ۔ یہ شرپسند دیامر میں اس سے پہلے بھی بہت سے بڑے واقعات میں ملوث رہے ہیں ۔ کچھ سال پہلے دیامرمیں اسی طرح کا ایک ہواتھا جس پر پورے دیامرمیں سرچ آپریشن کیا گیا جس کے نتیجے میں مقامی جرگہ نے ان شرپسندوں کو پکڑ کرسکیورٹی اداروں کے حوالے کئے تھے ۔اسکے بعد کچھ ماہ تک یہ لوگ غائب ہی رہے مگر پھر اچانک دوبارہ وہی لوگ منظرعام پر آگئے، جو جرگہ کے ہاتھوں سکیورٹی اداروں کو سونپے گئے تھے ۔اب سے اندازہ کیجئے کھچڑی کہا ں اور کیسے پک رہی ہے ۔بہانہ ایسے واقعات ہوتے ہیں دراصل نشانہ مقامی لوگ ہی ہوتے ہیں جن کو ذہنی طور پر مفلوج کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں اس پر دیامرجرگے کو دوٹوک مؤقف اپناتے ہوئے دیرپا حل ڈھونڈنا چاہیے ورنہ دیامرمیں حالات مزیدخرابی کی طرف جائینگے۔
دیامرکے ان حالات پرپڑھالکھا اور ان پڑھ سبھی اپنا دماغ لڑارہے ہیں، ہر فرد اپنی دانشوری کالوہامنوانے کیلئے کوشاں ہے۔حالات کی خرابی کو ایک طرف کرکے دیکھاجائے تو یہاں عوام بڑی بدنصیب ہے کیونکہ وہاں جرم کرنے والے ان میں سے کوئی نہیں ہوتا مگر اس جرم کے نتیجے میں کئی کئی مہینے یہ لوگ اپنے ہی گھروں میں قید وبندکی صعوبتیں جھیلنے پرمجبور ہوتے ہیں۔ان کو کچھ معلوم ہونہ ہو مگر شک تو انہی پرکیا جاتاہے جس کی وجہ سے یہاں کے بچے ، بوڑھے اورخواتین تک کو ذہنی طور پرہراساں ہونا پڑتاہے جس پر یہ لوگ اپنی قسمت کوکتنا کوستے ہونگے۔ اس ساری صورتحال کے بعد گلگت بلتستان کے ہرباسی کو دیامرکی عوام کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکرمٹھی بھرشرپسندوں کے عزائم خاک میں ملانے میں انکی مدد کرنی چاہیے۔یقیناًعام عوام بھی اس مصیبت سے جان چھڑاناچاہتی ہوگی جو باقی اضلاع کے لوگوں کی حوصلہ افزائی کے بغیر انکے لئے ممکن نہیں۔ دوسری بات گلگت بلتستان کے ہرصحافی کو دیامرکے حالات پر سنسنی پھیلانے کے بجائے کسی بھی مثبت اقدام پرلوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جس سے ان کی ہمت بڑھ جائے گی کیونکہ برائی کو جڑ سے نکال پھینکے بغیر دیرپاامن ناممکن ہے اوراس دیرپاامن کے قیام میں جب تک مقامی لوگ کردارنہیں ادا کرینگے امن نہیں ہوپائے گا۔ سرچ آپریشن کے نتیجے میں وقتی امن تو قائم ہوسکتاہے مگر اسکے دور رس نتائج نہیں ہوتے اسلئے اس برائی کے خاتمے کیلئے مقامی لوگوں کو ذہنی طور پرتیارکیاجاناچاہیے۔