کالمز

محرم الحرام 

الواعظ نزار فرمان علی

وہ (اللہ تعالیٰ ) بڑی برکت والا ہے جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر پوری پوری قدرت رکھنے والا ہے، جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ وہ تمہاری آزمائش( کر کے ظاہر) کر دے کہ تم میں سے کون عمل میں سب سے اچھا ہے اور وہ زبردست بڑا بخشنے والا ہے۔(القرآن)

قارئین کرام محرم ۶۱ ہجری کی دوسری تاریخ کو امامؑ عالی مقام اپنے خاندان اوردوستداروں کے ساتھ کربلا میں خیمہ زن ہوئے اور ۱۰ محرم ۶۱ ہجری کو اپنے اقرباء و جانثاروں کے ساتھ (اس زمین میں ) جام شہادت نوش فرمایا۔ حضرت امام حسین ؑ کا مرتبہ و مقام اور عالم انسانیت اور عالم اسلام کے لئے آپؑ غیر معمولی خدمات و قربانیوں کا احاطہ اس لئے ممکن نہیں ہے کہ خدا نے جس گرامی ہستی کو بلند درجہ عطا فرمایا اسے عقل غریزی رکھنے والا انسان کیسے جان سکتا ہے لہٰذا مقام حسین ؑ کو سمجھنے کے لئے انبیاء ، اوصیاء، اصحاب رسول ؐ اور قرآن کی روشنی میں دیکھنا ہوگا۔

پیغمبرؐ خداکی حسنین کریمین سے والہانہ شفقت مدارج نبوت میں بیان ہوتی ہے کہ ایک دن امام حسنؑ اور امام حسین ؑ اس حال میں مسجد کے اندر آئے کہ رسولؐ سجدے میں تھے دونوں بھائی آپ کی پشت مبارک پر بیٹھ گئے اس لئے حضور ؐ نے دیر تک سر نہیں اٹھایا ۔ صحابہؓ نے سبب دریافت کیا تو ارشاد فرمایا” میرے بیٹے میری پیٹھ پر بیٹھے تھے مجھے گوارا نہیں ہوا کہ جب تک وہ جی بھر کے بیٹھ نہ لیں میں سر اٹھا لوں "سبحان اللہ ،کشف المحجوب میں بیان ہوتا ہے کہ ایک روز حضرت عمر فاروقؓ دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور دیکھا کہ امام حسین ؑ آنحضرت ؐ کی پشت مبارک پر سوار ہیں اور امامؑ ہانکتے ہیں اور آپ ؐ زانوں کے بل چلتے ہیں ، حضرت عمرؓ نے فرمایا واہ کیا اچھی سواری ہے ارشاد مبارک ہوا اور سوار بھی تو خوب ہے، سبحان اللہ۔حضرت الحاج صائم چشتی اہل بیت کی شان میں عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے رقم طراز ہیں

” بحر نبوت کے دو موتی ، باغ رسالت کے دو پھول ، نانا سید الانبیاء ، نانی ہوں خدیجۃ الکبریٰ ؑ ، باپ ہوں سید الاولیا، ماں ہوں سیدۃ النساء، تو بیٹے پیدا ہوتے ہیں سید الشہداء۔نبیؐ کا نور، علیؑ کا خون اور فاطمہ کا دودھ ایک جگہ مل جائے تو بنتے ہیں حسنؑ اور حسین ؑ ، حسین ؑ گلشن اسلام کی بہار ہیں ، مملکت حق و صداقت کا تاجدار ہیں ، صبر و رضا کی سلطنت کا شہریار ہیں ، حسینؑ مہر نبوت کا سوار ہیں ، حسین ؑ روشنی کا مینار ہیں ، عزم و یقین کی تلوار ہے ، خالق و کائنات کا عظیم شاہکار ہے ، حسین ؑ کا چہرہ مطلع انوار ہے ، حسین ؑ کا دیدار محمدؐ عربی کا دیدار ہے۔الحمدُ للہ۔ نبی کریم ؐ کا آپ ؑ کے متعلق فرمانا "حسین ؑ مجھ سے ہے اور میں حسین ؑ سے ہوں”تمام جنتی جوان ہونگے اور نبی کریمؐ کی بشارت کے مطابق حسن ؑ و حسین ؑ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ معزز قارئین !خالق کائنات نے وسیع و عریض دنیا میں انسان کو بلند مرتبہ عطا فرمایا ہے یہ دنیا ہمارے لئے دار العمل اور دار الامتحان ہے اس جہان فانی میں اربوں انسان آئے اور چلے گئے اور قانون خدا وندی کے مطابق بے شمار انسان آئیں گے اور چلے جائیں گے، انگنت لوگوں میں شاید ہی تھوڑے ہی خوش قسمت لوگ ہونگے جنہوں نے مقصد حیات کا فہم و ادراک حاصل کیا ہوگا۔ کہتے ہیں کہ زندگی ایک کتاب کی مانند ہے جس کا پہلا صفحہ پیدائش اور آخری صفحہ موت ہے جس پر انسان کو کوئی اختیار حاصل نہیں ۔درمیانی صفحات جو کورے ہیں انہیں عظیم لوگ اپنے ایمان اور کردار کی نوک سے دوسروں کے لئے منفرد ، مثالی اور یادگار بنا دیتے ہیں۔ابتدائے حیات سے انسانوں کے بیچ علم اور جہل، نیکی اور بدی ، حق اور باطل کی کشمکش میں امام حسین ؑ کی آمد اور ایسے نا مساعد حالات میں آپؑ ایک ایسی بہترین زندگی جی گئے کہ اس سے بہتر زندگی اور کون بسر کر سکتا ہے ، رب کریم کی خوشنودی ، اعلائے کلمۃ الحق کے لئے اپنی زندگی، جانِ عزیز کے حضور نچھاور کر کے آپؑ نے لاکھوں انسانوں کو جینے کا فلسفہ سکھا دیا ۔ مقصداعلیٰ کی شناخت اور اس کے حصول کے لئے تن، من ، خاندان، احباب اور اپنی جان کا عظیم نذرانہ پیش کر کے پوری انسانیت کو امن و آشتی، عدل و انصاف ، علم و عرفان ، حریت فکر و اظہار، احترام انسانیت ، عدم تشدد و رواداری کا لافانی ورثہ چھوڑا۔حضرت امام حسین ؑ نے میدان کربلا میں یزیدی لشکر کی عددی و عسکری پوزیشن کی پرواہ کئے بغیر اسلامی دستور و شعائر اللہ کے تحفظ کے لئے جس جرات، شجاعت، جوانمردی اور قوت ایمانی سے اپنے خاندان و احباب کی قربانی پیش کی وہ قیامت تک اہل اسلام میں باطل کا مقابلہ کرنے کی طاقت پیدا کرتی رہے گی آپ ؑ اگر اپنا ہاتھ دیتے تو دنیاوی لحاظ سے سب کچھ آپؑ کے قدموں میں رکھ دیا جاتا، خاندان و احباب کا تحفظ یقینی بنایا جاتا اور بے تحاشا مادی دولت، عہد ئے مراد وغیر مگر اس صورت میں اہل ایمان کا کیا ہوتا؟ لہٰذا آپؑ نے اپنے مشفق نانانبی کامل حضر ت محمدﷺ کی اشاعت اسلام کے لئے ۲۳ سالہ کاوشوں ، خلفائے راشدین اور اہل بیت اطہار کی قربانیوں اور رہتی دنیا تک اسلام کے حقیقی پیغام کو انسانی دخل اندازی سے مکمل طور پر محفوظ رکھنے کے لئے اپنا سر تو دیدیا مگر اپنا ہاتھ(بیعت) نہ دیا ۔

آپؑ کی اس عظیم قربانی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے فرمایا۔

شاہ است حسینؑ بادشاہ است حسینؑ
دین است حسینؑ دنیا پناہ است حسینؑ
سر داد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنا لا الہ است حسینؑ

آپؑ نے اپنی زندگی کا کل سرمایہ اسلامی اصولوں اور انسانی اقدار کے نفاذ اور قیام حکومت الیہ کے لئے صرف کر دیا، قرآن نے بنی نوع انسان کی فلاح و بقاء کے لئے توحید و نبوت کی روشنی میں تقویٰ و حیات طیبہ کا جو اعلیٰ معیار دیا ہے امام عالی مقام نے اس کی روح کے عین مطابق متوازن زندگی کا ماڈل پیش کیا ۔ آپ ؑ نے دین اسلام کی گلشن کی آبیاری اپنے لہو سے کی اور دعوت الحق کے لئے اپنی جان ، دوستدار اور کنبے کی قربانی دیکر اہل ایمان کو مینارۂ نور عطا کر دیا تاکہ وہ بھی روح الایمان کو گرماتے ہوئے سعی بلیغ کریں ۔

جب حضرت ابراہیم ؑ اپنے پرودگار کی کھلی آزمائش پر سو فیصد پورے اترے تو آپؑ خلیل اللہ بن گئے۔ ظاہر ہے کسی محبوب ترین مقام و مرتبے کو پانے کے لئے انسان کو کئی طرح کے مراحل طے کرنا پڑتے ہیں مثلاً طالبعلم کو علم کے اعلیٰ مرتبے پر پہنچنے کے لئے سخت محنت ، راتیں جاگنا اور کئی امتحانوں سے گزرنا پڑتا ہے ، سونے کی قیمت اس وقت ہوتی ہے جب وہ کئی بار آگ کی کسوٹی سے گزرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی قربت کا مقام بآسانی کیسے مل سکتا ہے ” اور ہم تم کو تھوڑے سے خوف اور کچھ بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے آزمائیں گے اور (اے رسولؐ) ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنائیں”القرآن

چنانچہ بندۂ مومن جب اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے کئی طرح کی قربانی دینی پڑتی ہے، عاشق صادق اپنے معشوق کی رضامندی کے حصول کے لئے جان، مال، اولاد، عزت سب کچھ قربان کر دیتا ہے ایسے عاشق کی وہی خواہش ہوتی ہے ۔ "(اے رسولؐ) کہہ دو کہ میری نماز میری عبادت ااور میرا جینا اور میرا مرنا سب جہانوں کے پرودگار کے لئے ہے”(القرآن)

امام حسین ؑ نے بھی خدا کے برگزیدہ ہستیوں کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے حق کا علم بلند رکھا ، دین اسلام کو باطل قوتوں کے خطرات سے ہمیشہ کے لئے تحفظ دینے کے لئے اپنے اور اپنے پیاروں کی جان کی بازی لگا دی تاکہ آئندہ کوئی اسلام کے قلعے میں داخل ہو کر ہوائے نفس کی پھونکوں سے حق کے چراغ کو بجھانے کی جرات نہ کرے انشاء اللہ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

"اور (اے رسولؐ) کہہ دو کہ حق آ گیا اور باطل نکل بھاگا یقیناًباطل تو نکل بھاگنے والا ہے "(القرآن)

تاریخ عالم دو عظیم قربانیوں سے منور ہے عید الاضحی اور محرم الحرام ، سال کا آخری مہینہ بھی قربانی کا اور پہلا بھی قربانی کا ، وہ بھی دس کو اور یہ بھی دس کو، وہ بھی نبیؐ کا لال اور یہ بھی نبیؐ کا لال، ہم دونوں کی یاد عقیدت و احترام سے مناتے ہیں وہ ذبحِ عظیم اور یہ شہید عظیم، ایک نے نورانی خواب نبھایا اور ایک نے وعدہ حق نبھایایہ صبر و ایثار کی ابتدا وہ اس کی انتہاء، ایک کعبے کو بحکم خدا بنانے والا اور ایک رضائے الٰہی کے لئے کعبہ کو بچانے والاسبحان اللہ۔ قارئین !بلاشبہ سچائی ، علم ، نیکی حسینیت ہے اور جہل ، جھوٹ اور برائی یزیدیت ہے ، یقین محکم، جہد مسلسل اور میرٹ حسینیت ہے ، شک شبہ ، غفلت و اقرباء پروری یزیدیت ہے ، طاقت رکھتے ہوئے بدلہ نہ لینا معاف کر دینا حسینیت ہے ، اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ، اصلاح کی آڑ میں سفاکیت، یزیدیت ہے، حیاء وفا اور تواضع حسینیت، بد نظری، بے مروتی اور ریاکاری یزیدیت ہے،صداقت، امانت ، دیانت حسینیت ہے ، جھوٹ ، ملاوٹ، رشوت اور عہد شکنی یزیدیت ہے، مادہ پرستی، دنیا پرستی ، خود پرستی یزیدیت ہے ، خدا پرستی ، حق پرستی اور خود شناسی کی روشنی میں خدا ترسی حسینیت ہے۔

حسینیت جی ہاں،آج کے ملی ، قومی اور علاقائی مسائل کے تناظر میں ایک اہم سبق بتلاتا ہے کہ وسائل محدود اور افرادی قوت ناکافی اور حالات نا سازگار ہونے کے باوجود مایوس ہونے کے بجائے اگر ہم ایمان کامل ، عمل صالح کی روشنی میں اخوت، بھائی چارہ اور ایثار و قربانی کے جذبے سے سرشار انتھک جدو جہد کریں گے تو یقیناًجیت اور پہچان ہماری ہوگی نہ صرف اس دنیا میں بلکہ دوسری(اخروی) دنیا میں بھی آمین انشاء اللہ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button