کالمز

عمران خان وزیر اعظم بن گئے

تحریر :۔دردانہ شیر

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان نے دنیا میں جہاں کرکٹ سے اپنا نام کمایا وہاں انھوں نے سیاست میں بھی ناممکن کو ممکن بنایا آج سے بائیس سال قبل انھوں نے کرکٹ کے بعد سیاست میں قدم رکھا نہ صرف قدم رکھا بلکہ پاکستان تحریک انصاف کے نام سے پارٹی بھی بنائی اور عمران خان کو بائیس کا ہند سہ بہت ہی فائدہ مند ثابت ہواوہ ملک کے بائیسواں وزیر اعظم بن گئے جب وولڈ کپ جیتا تھا تو اس وقت بھی پاکستان کی ٹیم بائیس ریز سے فاتح یاب ہوئی تھی کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ کرکٹ کا یہ کپتان ایک دن پاکستان کا بھی کپتان بن جائیگا ان کے مخالفین ان کو یہ کہا کرتے تھے کہ عمران خان وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں ان کی قسمت میں وزیر اعظم کی سیٹ نہیں لکھی گئی مگر یہ انسان محنت کرتا رہا ملک کے نوجوانوں کو اکھٹا کرتا گیا اور وہ وقت بھی آگیا کہ انھوں نے ملک کا وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لیا بڑے بڑے وڈیرے جو دس سے بیس سالوں تک اپنے حلقوں سے جتتے آرہے تھے کو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ور اسلام آباد منسٹر انکلیومیں مستقل رہاش اختیار کرنے والے وڈیرے جو ہر حکومت میں وزارت کے مزے لے رہے تھے اور کوئی کشمیر کمیٹی کا چیرمین بننے بیٹھے تھے اخر کار منسٹر انکلیو سے ان کو نکلنا ہی پڑا عمران خان ملک کے وزیر اعظم بن گئے ہیں اور ملک کے نوجوانوں کا ان پر بہت ساری توقعات وابسطہ ہیں اور اس وقت ملک میں لاکھوں کی تعداد میں نوجوان بیروزگار ہیں اور ڈگریاں لئے مختلف دفتروں کا چکر لگاتے ہیں مگر جہاں سفارش اور رشوت نہ ہو وہاں ان نوجوانوں کو نوکری کو ن دیتا ہے اور یہ نوجوان اگر محنت مزدوری کرنے باہر کسی ملک میں جانا چاہے تو وہاں جانے کے لئے بھی پانچ سے دس لاکھ روپے مانگے جاتے ہیں غریب ماں باپ اپنی جمع پونجی خرچ کے اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں اور تعلیم پورے کرتے ہیں تو والدین کو خوشی ہوتی ہے کہ اپ ان کی اولاد کواچھی نوکری مل جائیگی مگر ہوتا یہ ہے کہ تعلیم مکمل کرنے والا نوجوان مختلف دفتروں کا چکر لگاتا ہے مگر سفارش نہ ہونے کی وجہ سے عمر کی اس حد میں پہنچ جاتا کہ وہ اب نوکری کے قابل بھی نہیں رہتا اور والدین اس امید پر اپنی زندگی پوری کرتے ہیں کہ کبھی تو ان کی اولاد کو روزگار مل جائیگی مگر ایسا نہیں ہوتا عمران خان پاکستان کے نوجوانوں کے لئے اخری امید بن کر سامنے آیا ہے اور ملک کے کروڑوں نوجوان اپنے قائد پر بہت ساری امیدیں وابسط کئے ہوئے ہیں اگر وزیر اعظم عمران خان چاہے تو ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے کسی بھی ملک میں لیڈر بار بار پیدا نہیں ہوتے چونکہ پاکستان میں کرپشن کا ناسور کو ختم کیا جائے تو یہ ملک نہ صرف ترقی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے بلکہ پاکستان دنیا کی ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہونے میں دیر نہیں لگتی اس حوالے سے بے رحمانہ احتساب وقت کی ضرورت بن گیا ہے جن لیٹروں نے ملک کی دولت کو لوٹا ہے ان کو نہ صرف بے نقاب کیا جائے بلکہ جتنی رقم قوم کی لوٹی گئی ہے سود سمیت واپس لیا جائے چونکہ ان لیٹروں نے اتنی دولت سمیٹ لی ہے کہ انھیں سود سمیت رقم کی ادائیگی کے بعد بھی کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے وزیر اعظم عمران خان نے پروٹوکول کلچرختم کرکے عوام پر بہت بڑ احسان کیا ہے ملک کا وزیر اعظم تو دور کی بات صوبے کے وزراء اعلی اگر کسی شہر کا دورے پر ہو تو سڑکوں کو کئی گھنٹے تک بند کرکے عوام کو جس اذیت میں مبتلا کیا جاتا تھا اور اس دوران جو ٹریفک جام ہونے سے عوام کو جو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ تا تھا وہ اذیت غریب عوام ہی بہتر جانتے ہیں اور عوام نومنتخب وزیر اعظم سے یہ بھی امید رکھتے ہیں کہ لاکھوں کی گاڑیوں کو پروٹوکول کے طور پر استعمال کرنے والوں سے فوری طور پر گاڑیاں واپس لی جائے تو اس سے ہی ملک کے خزانے کو کروڑوں کا فائدہ پہنچ سکتا ہے اس کے علاوہ تعلیم کے نظام کو بہتر بنانا بھی وقت کی ضرورت ہے سرکاری سکولوں میں تعلیم کا نظام مکمل طور پر تباہ ہوکر رہ گیا ہے اگر ملک میں تعلیم کو برابری کی بنیاد پر لایا جائے تو نظام میں بہتری آسکتی ہے ایک امیر کا بچہ پچاس ہزار ماہانہ فیس ادا کرکے پرائیوٹ سکول میں پڑھے اور غریب کا بچہ سرکاری سکول میں تعلیم حاصل کرئے تو نظام کیسے درست ہوگا اور سرکاری سکول میں پڑھنے والا بچہ پچاس ہزار فیس ادا کرکے پڑھنے والے بچے کا کیسے مقابلہ کرسکتا ہے اس لئے ملک میں تعلیم کو برابری کی سطح پر لانا ضروری ہوگیا ہے ایک ہی تعلیمی نظام کو متعارف کر ایا جائے اور غریب امیر کا بچہ ایک ہی سکول میں تعلیم حاصل کریں تو یہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے ملک کی معشیت کو بہتر بنانے کے لئے اپ کے وزیر خزانہ اسد عمر سے بہتر اور کون جانتا ہے عوام نے بڑی امیدوں کے ساتھ اپ کو پاکستان کا وزیر اعظم بنایا ہے اور امید ہے کہ اپ عوام کی توقعات پر پورا اترینگے اخر میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں گلگت بلتستان کے گورنر میر غظنفر علی خان بھی پہلی نشستوں میں نظر آئے امید تو یہ تھی کہ گورنر گلگت بلتستان بھی ملک کے دیگر صوبوں کے گورنر صاحبان کی طرح اپنے عہدے سے سبکدوش ہوتے مگر وزیر اعظم عمران خان کی حلف برداری کے موقع پر ان کوپہلی نشستوں پر دیکھ کر عجب سا لگا چونکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے جتنا احسان ان کے خاندان پر کیا ہے اس کی مثال گلگت بلتستان کی تاریخ میں نہیں ملتی میر غظنفر علی خان اس وقت گورنر گلگت بلتستان اور ان کی بیوی رانی عتیقہ غظنفر اور ان کے بیٹے میر سیلم خان ممبران صوبائی اسمبلی گلگت بلتستان ہے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اتنا بڑ ااحسان کے باوجود میر صاحب کی بحثیت گورنر اس تقریب میں شرکت سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ میر صاحب اب پاکستان تحریک انصاف سے قربتیں بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے مگر ایک بات طے ہے کہ اگر گورنر جتنا بھی کوشش کر یں اور وہ تحریک انصاف میں شامل بھی ہوجائے وہ گلگت بلتستان کے گورنر نہیں رہ سکتے چونکہ ملک بھر میں تبدیلی آئی ہے اس لئے گلگت بلتستان کے عوام بھی تبدیلی کے خواہشمند ہیں

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button