دیوانوں کی باتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضور آپ کی ہر بات دل کو لگتی ہے
شمس الحق قمر
بونی
اللہ کی اپنی مرضی لیکن سائنسدان طبقہ کہتا ہے بلکہ وثوق سے کہتا ہے کہ دنیا تباہی کے دھانے پر کھڑی ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ ہمارا کرہٗ ارض مختلف قوتوں کا ایک مجموعہ ہے جنہیں ہم استعمال میں لاتے ہیں جیسے گیس ، بچلی، ہوا ، پانی ، فضا اور سب سے بڑھ کر زمیں کی یہ مٹی کہ جس میں ہماری عیاشی کے لئے ہر شئے موجود ہے ۔ سائندانوں کی نظر میں ہم نے اپنی دھرتی ماں کو انتا کھرج ڈالا ہے کہ اب اس کے اندر ہمیں پالنے کی سکت باقی نہیں رہی ۔ ہماری مثال اپنی ماں کے سامنے اُس معذور بچے کی ہے جو کبھی جوان نہیں ہوتا وہ محتاج ہی رہتا ہے یہاں تک کہ ماں اپنی پوری زنگی اپنے بچے کے نام پر کھو جاتی ہے ۔ ہمارے سائنسدان کہتے ہیں کہ ہم نے زمین کو بہت کھرج ڈالا اور اتنی بے دردی سے نوچا کہ اپ یہ تار تار ہو چکی ہے ۔
سائنسدانوں کی باتیں کہاں تک درست دہیں ، ہم ان کی تحاقیق کو درخور اعتنا سمجتھے ہیں یا ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہیں وہ ایک الگ سوال ہے لیکن بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ایمان ہے کہ الللہ تبارک تعالیٰ کے احکامات میں ہماری دنیاوی اور اخروی بقا کی تعلیمات موجود ہیں ۔ مجھے بڑی حیرت اس بات پر ہے کہ ہم بہت کم امور کو اسلام کے دائرے میں دیکھتے ہیں اور اُنہی مختصر چیزوں پر ایک دوسرے کو تاکید کرتے رہتے ہیں یعنی نماز پڑھنا ، اچھے کام کرنا ، دوسرے کا حق نہیں کھانا ، غیر محرم لوگوں سے محتاط رہنا وغیرہ ۔ اگرچہ یہ سب اسلام کے اصولوں کے عین مطابق ہیں ۔لیکن میں بار بار اس بات پر سوچتا ہوں کہ اللہ تعالی کی طرف سے بے شمار احکامات ایسے بھی ہیں جن پر عمل ہر زی روح کی بقأ کے لئے کلید کا کردار ادا کرتا ہے ۔ آج میں قران مجید کے اندر سورہ نحل کا ترجمہ دیکھ رہا تھا ۔ اس سورہ پاک کے اندر ۱۲۸ آیتیں ہیں ان آیتوں میں حیات انسانی سے متعلق بے شمار احکامات بتائے گئے ہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر ماحولیات سے متعلق ہیں ۔ سورہ مبارکہ میں سب سے پہلے اللہ تعالی نے انسان کی حیثیت واضح کی ہے ، مہفوم : اور انسان کو نطفے سے پیدا کیا ۔ یعنی انسان ایک قطرے سے پیدا ہوا اور پھر اپنے آپ کو طاقت کا سرچسمہ تصور کرنے لگا ۔ اس سورہ مبارکہ کے اندر جا بجا اور زور دیکر اللہ تعالی کی طرف ودیعت کردہ بے شمار نعمتوں کا اور ان کے استعمال کا ذکر ہے۔ خچروں ، گھوڑوں ، بھیڑ بکریوں ، حشرات الارض، ہوا ، بارش، بادل ، سمندر ، کشتی، پہاڑ ، سبزہ ، معدنیات ، راستے ، موصلات ، سورج،چاند ، ستارے ، دن ، رات اور کائینات کے وجود کی توجیہ بیان کرنے کے بعد بار بار یہ کہا گیا ہے کہ ان میں عقل و خرد والوں کے لئے نشانیاں ہیں ۔ لفظ نشانی میں انسانی عقل و خرد کا تصور اجاگر ہوتا ہے ۔
اس سورہ مبارکہ کی چند ایک آیتوں پر غور کرنے کے بعد میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ شاید اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ان نعمتوں کے استعمال کے احکا مات جاری ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالی نے ہر چیز ایک خاص تناسب سے پیدا کیا ہے اور ہر نعمت میں اعتدال اور تناسب موجود ہے لیکن ایک نطفے سے جنم پانے والے انسان نے ان نعمتوں کا اتنا بے جا اور بے تحاشا استعمال شروع کیا بلکہ یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ یہ ناقص انسان فطرت کے اصولوں سے متصادم ہوتا رہا ۔ مثال کے طور پر انسان نے فصل زیادہ لینے لے لئے مصنوعی کھاد کے استعمال کا سلسلہ شروع کیا جس سے فصل تو اُگ آئی مگر اسی کھاد کے زہریلی اثر سے بعض ایسے جانور ، پرندے اور حشرات صفحہ ہستی سے ہمیشہ کے لئے مٹ گئے جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کسی نہ کسی خاص مقصد کے لئے پیدا کیا تھا ۔ یوں ہمارے بے لگام سفر کا آغاز ہوا اور آج ہم ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں سے نہ صرف حسرت انسان بلکہ پورے کُرے کی زندگی خطرے میں ہیں ۔ ہمارے سائنسدان ہمیں اگرچہ آگاہ کرتے رہے اور ہم نے یہ سوچا کہ کچھ نہیں ہوگا اللہ مالک ہے لیکن ہماری بد قسمتی یہ رہی کہ نہ ہم نے خود قران شریف کو درست مفہوم کے ساتھ اچھی طرح سمجھ کے پڑھنے کی کوشش کی اور نہ ہمارے علما نے اللہ تعالی کے احکامات کی روشنی میں ہمیں زندگی گزارنے کی تعلیم دی ۔ ہمیں اگر قران شریف پرھایا بھی گیا تو صرف عربی میں یاد کروایا گیا اور دوسری طرف علمأ کرام اسلام کے جن پہلوں پر زور دیتے رہے وہ محض فروعی اہمیت کے حامل تھے ۔ میں نے کبھی بھی کسی عالم سے یہ نہیں سنا کہ گندگی مت پھیلاؤ ، راستے میں مت تھوکو، باہر رفع حاجت نہ کرو ،اپنے علاقے کو صاف رکھو اور اپنے جسم کو صاف رکھو ۔ یہ وہ باتیں ہیں جن سے انسان انسان بنتا ہے ۔ لیکن ہمارے وہ لوگ جو دین سے خبردار تھے ، نے ان باتوں کی جگہ اسلام کو صرف عورت کے ارد گرد گھماتے رہے ۔ میں بلا مبالغہ یہ کہنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا کہ ہم اسلام کو عورت کی قمیض کی لمبائی ، چوڑائی ، شلوار کے پائنجوں کی وسعت اور تنگی کے علاوہ بالوں پر دوپٹے کے سرکنے تک محدد رکھا اور اسی انداز سے اپنی زندگی کو دیکھتے رہے باقی دنیا مافیہا سے بے خبر رہے ۔ جبکہ دوسری طرف ہمارے اوپر گمبھیر مسائل کے بڑے بڑے پہاڑ گرتے رہے اور ہم لباس اور پہناوے کی جال میں اپنے آپ کو خود پھنساتے رہے ۔ کیا ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اللہ نے جو بھی نعمتیں ہمیں دی ہیں ہمیں ان کا شکر بجا لانا چاہئے اور اس کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کے استعمال میں احتیاظ برتیں نہ کہ اُن کو ضائع کرنے کے بعد نماز پڑھ کے توبہ کریں ۔
میرے دماغ میں یہ تمام باتیں تب آئیں جب میں نے آج عمران خان کومانسہرہ میں شجر کاری مہم سے خطاب کرتے ہوئے سنا۔ ہمارے کسی بھی راہنما نے ( قائد اعظم کو چھوڑ کے ) اس انداز سے ملک کو چلانے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ عمران خان نے قران حفظ کیا ہے یا نہیں میں نہیں جانتا لیکن جس انداز سے ملک کی تربیت کر رہا ہے وہ اسلامی اصولوں کے عین مطابق ہے ۔ شجر کاری یعنی دنیا کو آباد کرنا کتنی اچھی بات ہے اسی لئے ان کی ہر بات دل کو لگتی ہے ۔