ہندور کا مشاعرہ اور بجایوٹ کی ڈھلتی شام (آخری قسط)
گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔۔۔
اب ہم بشارت شفیع کے مزار پر تھے اور فاتحہ پڑھ رہے تھے۔ بشارت شفیع پچھلے سال کراچی میں ایک کار حادثے میں وفات پائے تھے جو بروشسکی اور اردو کے نوجوان شاعر تھے۔ وہاں سے واپسی پر نسیم صاحب نے کہا کہ حلقہ اربابِ ذوق کو شعرا کے لیے گلگت میں ایک اجتماعی قبرستان کے بارے میں سوچنا چاہئیے۔ تاج صاحب بولے۔ نام ’’جنت الشعرا‘‘ رکھا جائے۔ یقیناً ایسی جگہوں پر آکر زندگی کی ناپائیداری کا احساس ہوتا ہے۔ تاج صاحب نے حسن شاد مرحوم کا یہ شعر سنایا۔
میں تو احساس کی سرحد سے بھی اب پار ہوا
مجھ کو اب خاک ستائے گا ستانے والا
اب ہمارا قافلہ واپس سوئے گلگت رواں دواں تھا۔ گوپس چائنا پل کے قریب آکے کچھ دوستوں نے کہا کہ آئے ہیں تو ذرا خلتی جھیل تک بھی ہو آتے ہیں۔ سب نے تائید کی اور اب ہم خلتی جھیل کے کنارے اپنے اپنے موبائل میں ان خوبصورت مناظر کو قید کر رہے تھے۔ اتنے میں نسیم صاحب کے موبائل میں شاکر صاحب کی کال آئی۔ بقول نسیم صاحب شاکر صاحب کافی تپے ہوئے تھے اور پوچھ رہے تھے کہاں کھو گئے ہیں آپ۔ ہم گاہکوچ میں انتظار کر رہے ہیں۔ ان کی ٹیکسی میں تیل بھی ختم ہوا تھا۔ جبکہ حلقے کا سیکریٹری مالیات یعنی نسیم صاحب ہمارے ساتھ تھے۔ نسیم صاحب نے فون پہ کہا ’’اتنی کیا جلدی تھی۔ ساتھ گلگت جاتے۔ ابھی ہمارے آنے تک آپ لوگ انتظار کریں۔‘‘
اس لیے ہمیں خلتی سے بغیر چائے پئے گاہکوچ کی طرف نکلنا پڑا۔ راستے میں سینئرز اور جونئیرز تمام نے محسوس کی کہ جب ساتھ گلگت سے آئے ہیں تو ساتھ ہی گلگت جانا چاہئیے۔ آخر سفر کے بھی کچھ آداب ہوا کرتے ہیں۔ خیر! پہلے جانے والوں کو مزید تڑپانے کے لیے ہم نے ہوپر میں بھی ایک بریک لگائی وہ اس لیے کہ خلتی میں چائے نہیں پی سکے تھے جوکہ مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ کیونکہ یہ تمام احباب غذر میں ہمارے مہمان تھے اس لیے ان کو راستے میں چائے یا کھانا کھلائے بغیر گلگت لے جانا غذر کی مہمان نوازی کے خلاف تھا۔ ہوپر ایک اچھا پکنک پوائنٹ ہے۔ جہاں میری خواہش تھی کہ احباب کو لنچ کراؤں مگر اس کے لیے وقت کافی درکار تھا جبکہ ہم وقت کی تنگ دامنی کا شکار تھے۔ اس لیے چائے اور آلو کے چپس کے ساتھ میں نے احباب کی خاطر تواضع کرنے کی کوشش کی۔ ہوپر گارڈن میں کچھ وقت بتانے کے بعد ہم ایک دفعہ پھر سوئے گلگت روانہ ہوئے تھے۔ نسیم صاحب کا فون پہ رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ شاکر صاحب گاہکوچ سے گلگت کی طرف نکل گئے ہیں۔ اس لیے اب مزید پریشانی نہیں تھی بس ہلکی میوزک، تاج صاحب کی رندانہ گفتگو اور احباب کے چٹکلوں کے ساتھ سفر جاری تھا۔ بس ہم تھے، ہماری گاڑی تھی، غذر روڈ تھا اور نشیب میں بہتا دریائے غذر۔ یوں ہندور یاسین میں گزاری یادوں کے ساتھ سہ پہر دو بجے کے قریب گلگت آمد کے ساتھ ہمارا یہ سفر انجام کو پہنچا۔ پتہ نہیں غلام مرتضیٰ راہی کا یہ شعر کیوں یاد آرہا تھا۔
چلے تھے جس کی طرف وہ نشان ختم ہوا
سفر ادھورا رہا آسمان ختم ہوا
اس سفرنامے میں ہم نے بہت ساری باتیں نہ چاہتے ہوئے بھی کی۔ کسی دل جلے نے خوب ہی کہا ہے۔
طلسم خواب زلیخا و دام بردہ فروش
ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں
یار زندہ، صحبت باقی!