سیلاب متاثرین کی مشکلات اور ہمارے حکمران
تحریر : دردانہ شیر
17جولائی غذر کی بالائی تحصیل اشکومن کے علاقے بدصوات کے عوام کے لئے قیامت صغرا کا دن ثابت ہوگیا اس روز بدصوات نالے کا گلیشیر اچانک ٹوٹنا شروع ہوااور دیکھتے ہی دیکھتے سیلابی ریلے نے گاؤں کی طرف اپنا رخ کر دیا اور عوام نے پہاڑوں کی طرف بھاگ اپنی جانیں بچھائی اور گاؤں بدصوات نے چند ہی منٹوں میں جھیل کی شکل اختیار کر لی ایک روز تو گاؤں کے لوگ بے یارو مددگا ر پہاڑوں میں ہی کھلے اسمان تلے رات گزار دی دوسرے روز پاک ارمی کی سب سے پہلے ہیلی کاپٹر متاثرہ علاقے میں پہنچ گئی اور اس کے بعد امدادی کارروائیوں کاآغاز ہوااور پاک ارمی کی طرف سے متاثرین کے لئے سامان کی سپلائی شروع ہوئی غذر کی ضلعی انتظامیہ نے بھی اپنی بساط کے مطابق متاثرین کو خیمے اور اشیاء خوردنی فراہم کی اس کے علاوہ اے کے ڈی این کی طرف سے سے اشیاء خوردنی کی بھاری مقدار کو پاک ارمی کے ہیلی کاپٹر نے بدصوات پہنچا دئیے مشکل کی گھڑی میں حکمرانوں نے تو ان متاثرین کی کوئی خبر نہیں لی البتہ پاک ارمی اے کے ڈی این کے ادارے اور ضلعی انتظامیہ نے متاثرین کی بحالی کے لئے اقدامات شروع کر دئیے سیلابی ریلے سے چار درجن سے زائد رہاشی مکانات مہندم ہوگئے تھے اور ایک درجن ایسے متاثرین ہیں جن کی تمام جائیداد اور زمین سیلاب میں بہہ گئی تھی اور اب ان کے پاس ایک انچ زمین بھی نہیں بچی ہے اور یہ لوگ اب دوسرے لوگوں کی زمینوں میں خیمہ زن ہیں اور جب سیلاب آیا تو متاثرین کو یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ ان کی بحالی کے لئے فوری اقدامات کئے جائینگے تاکہ سردیوں کی آمد سے قبل متاثرین اپنے لئے رہائشی مکانات بنا سکے مگر دو ماہ گزرنے کے باوجود بھی ان متاثرین کو معاوضہ ادا نہیں کیا گیا ہے اب چونکہ اس علاقے میں سردی شروع ہوگئی ہے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اکتوبر میں اس علاقے میں برف باری ہورہی ہے اگر اکتوبر میں برف باری شروع ہوئی تو خیموں میں مقیم متاثرین کا کیا بنے گا کیا یہ لوگ موسم سرما میں خون جمانے والی سردی کا مقابلہ ٹینٹوں میں بیٹھ کر کرسکیں گے اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو حکومت نے دو ماہ تک ان متاثرین سیلاب کو معاوضہ ادا کیوں نہیں کی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ 17جولائی کو آنے والے سیلاب سے روڈ کو بھی بری طرح نقصان پہنچا تھا اور اشکومن کی نصف درجن دیہاتوں کا زمینی رابط دیگر علاقوں سے کٹ گیا تھا اج ٹھیک دو ماہ ہوگئے ہیں ان علاقوں کا زمینی رابط بحال نہ ہوسکا ایک طرف بدصوات کے متاثرین ہیں تو دوسری طرف چھ سو گھرانوں پر مشتمل وہ آبادی ہے جن کا زمینی رابط دو ماہ گزرنے کے باوجود بھی بحال نہ ہوسکا ان علاقوں میں اشیاء خوردنی کی سخت قلت پیدا ہوگئی ہے اور مریضوں کو کئی کلومیٹر دو رسے لوگ اپنے کندھوں پر اٹھاکر روڈ تک لاتے ہیں اور اس وقت ان علاقوں میں قحط کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے اور حکمران ہیں کہ سوائے خاموشی کے اور کچھ اقدامات کرنے کو تیار نہیں حالانکہ وزیر اعلی گلگت بلتستان نے غذر کا دورہ بھی کیا مگر متاثرین بدصوات کی خبرگری کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا اور تو اور کسی صوبائی وزیر کے پاس بھی اتناوقت نہیں کہ وہ کم از کم ان متاثرین کے پاس جاکر اظہار ہمدردی ہی کرتے متاثرین سیلاب کو تو خیر دو روز قبل اشیاء خوردنی کی مدمیں دو ماہ کا راشن تقسیم کیا گیا ہے مگر روڈ بلاک ہونے سے جو چھ سو گھرانوں کا زمینی رابط منقطع ہو اہے اور وہ لوگ فاقوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں مگر حکمران مکمل طور پر خاموش ہیں ان کی خاموشی کی ایک ہی وجہ ہوسکتی ہے کہ اس حلقے سے مسلم لیگ (ن) کو ووٹ کم ملے تھے شاید حکمران اس بدلہ لے رہے ہو ورنہ دو کلومیٹر سڑک کی بحالی دو ماہ گزرنے کے باجود بھی نہ ہونے کی آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
گزشتہ دونوں کمشنر گلگت ڈویثرن عثمان احمد نے بدصوات کا دورہ کیا متاثرین اس امید پر بیٹھے تھے کہ شاید کمشنر ان کے لئے امدادی چیک تقسیم کرنے آئے ہیں مگر ایسا کچھ نہیں تھا البتہ کمشنر نے عوام کویقین دلایا کہ وہ بہت جلد وزیر اعلی یاچیف سیکریٹری کو لیکر متاثرین کے پاس ائینگے اور ان کے ہاتھوں امدادی چیک بھی تقسیم ہونگے کمشنر نے اس موقع پر اے کے ڈی این کی طرف سے دومہینے کی فراہم کردہ راشن بھی متاثرین میں تقسیم کی اور کہا کہ روڈ کی بحالی کے لئے تمام وسائل بروے کار لائے جائینگے اس کے علاوہ انھوں نے روڈ کے کام کا بھی جائزہ لیا اور مزید ایک ڈوزر بدصوات کی طرف روانہ کرنے کی یقین دہانی کروائی تاکہ روڈ کی جلد سے جلد بحالی کو ممکن بنایا جاسکے
قارئین کرام :۔
بدصوات کے متاثرین اس وقت کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور حکومت کی طرف سے بحالی کے کاموں میں سستی کی وجہ سے سخت پریشان ہیں ان علاقوں میں سردیوں کا آغاز ہوگیا ہے مگر تاحال حکومت کی طرف سے جن افراد کے مکانات سیلاب کی نذر ہوگئے تھے ان کو امدادی رقم فراہم نہ کرنے کی وجہ سے تاحال تعمیرات کا کام شروع نہیں کرسکے ہیں اور معاوضہ کی ادائیگی میں اتنی تاخیر کیوں ہورہی ہے اس کا جواب تو متعلقہ محکمہ ہی دے سکتا ہے اور خیموں میں ان متاثرین کو بدصوات جیسے علاقے میں سردیاں گزارنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے اور حکومت کووہ کیا مجبوریاں تھی کہ دو ماہ گزرنے کے باوجود بھی ان متاثرین کو پیمنٹ نہ ہوسکی ایک طرف متاثرین سیلاب پریشان ہیں تو دوسری طرف دو ماہ سے دیگر علاقوں سے کٹے ہوئے وہ چھ دیہات کے مکین ہیں چھ سو گھرانوں پر مشتمل ان علاقوں میں اشیاء خوردنی کی سخت قلت ہے اور ادویات کی عدم فراہمی کے علاوہ مریضوں کو کئی کلومیٹر پیدل سفر کرکے روڈ تک لا رہے ہیں مگر حکمران مکمل طور پر عوام کی بے بسی کا تماشا دیکھ رہے ہیں اگر فوری طور روڈ کی بحالی نہ ہوئی تو چھ سوگھرانوں میں بھوک وافلاس شروع ہوگئی اور یہاں غریبوں کی بددعائیں اور کسی کو نہیں صرف وقت کے حکمرانوں کو لگی گی اب بھی وقت ہے کہ سردیوں کی آمد سے قبل روڈ کی بحالی اور متاثرین کے معاوضہ کا بندوبست کیا جائے ورنہ متاثرین کو ان سرد ترین علاقوں میں زندگی گزارنامشکل ہوجائیگی