تحریک انصاف گلگت بلتستان میں میرٹ کا بول بالا ہو
تحریر: محمد شریف رحیم آبادی
کٹھن اور دشوار گزار راستوں کا سفر تمام ہوا ،مگر منزل پا لینے کے بعد جو چلنجز درپیش ہیں ان کا احاطہ کرنا مشکل مگر محدود وسائل کے باوجود تحریک انصاف کی لیڈر شپ میں ان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہیں۔عمران خان کا ویژن واضح ہے ،نئے پاکستان میں خواب کی تعبیر نوجوانوں کی امید اور عزم کے عین مطابق دیکھائی دے رہا ہے۔کرپشن کا خاتمہ بیرونی ممالک میں موجود اثاثے اور کرنسی کی واپسی کا مطالبہ ہر محب وطن پاکستانی کا ہے جو کہ ناجائز ذرایعے سے باہر منتقل ہوا۔کئی دہائیوں تک حکومت کرنے والی سٹیٹسکو کی دونوں جماعتوں میں چیک اینڈ بیلنس عنقا،نتیجہ گورننس کی ناکامی کی صورت میں نظر آئی ۔جس نے پاکستان کے شہریوں سے ان کے جینے کا حق چھین لیا ،ہماری بد قسمتی ہمارا شمار ترقی پزیر ممالک کی مہرست سے بھی نکل چکا ہے ،معیشت تباہ ہوچکا ہے دوسری طرف ہم گرے لسٹ میں ہیں۔مگر مشکلوں سے نہ گبھرانے والے اور لفظ شکست کو شکست دینے والے عظیم کھلاڑی کے ہاتھوں عنان حکومت آگئی ہے ۔ملک کی تقدیر بدلنے جارہی ہے مستقبل روشن ہے ۔ملکی سطح پر تبدیلی کے اثرات گلگت بلتستان میں بھی نظر آئیں گے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف گلگت بلتستان اس تمام صورت حال میں اپنے آپ کو کس سٹیج پر پاتی ہے ۔تبدیلی کے ثمرات کو سمیٹنے کیلئے گلگت بلتستان کے قائدین کا ہوم ورک یاتیاری ہے؟لگتا ہے خطہ میں بہت محنت درکار ہے ۔کارکنوں میں جوش و جذبے کی کمی نہیں جو رہنمائی کا تقاضہ کرتی ہے مگر ہمارے رہنماء اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں ،گورنر گلگت بلتستان میر غضنفر کے مستعفی ہونے کی خبر میڈیا نے جب بریک کی لابنگ تب سے شروع ہوئی ۔گورنر اور صدارت کے بہت سے امیدوار سامنے آئے ۔جمہوریت میں ایسا ہی ہوتا ہے لیکن گورنر کی نامزدگی کیلئے فائنل اتھارٹی وزیراعظم پاکستان ہیں جن کا تجویز کردہ نام صدر مملکت کی منظوری کیلئے بھیجا جاتا ہے ۔صدر مملکت تجویز کردہ نام کی منظوری کے بعد نوٹیفیکشن جاری کردیتے ہیں۔اس وقت جو نام زیر غور ہیں ان میں نمبر 1، راجہ جلال مقپون ،2سید جعفر شاہ ،3عزیز احمد ،4ریٹائرڈ جج راجہ جلال اور 5نمبر پہ حشمت اللہ خان ہیں۔ مذکورہ بالا قائدین میں جو بھی گورنر بننے سب کو قبول ہوگا تاہم قارئین کی آگاہی کیلئے ان کا تعارف ضروری ہے ۔
راجہ جلال مقپون جن کا تعلق بلتستان سکردو سے ہے اور تین سالوں سے پاکستان تحریک انصاف کے صدارت کے عہدے پر فائض ہیں ،2015کے عام انتخابات میں قانون ساز اسمبلی کی نشست جیت چکے تھے مگر حکومتی مداخلت کے باعث ایک ووٹ کی شکست سے دوچار کردیا گیا ۔وہ کم گوہیں ،ان کے ہمرا ہ دو مرتبہ سفر کا موقع ملا ،پہلی مرتبہ کریم آباد تک جس میں موجودہ وفاقی وزیرغلام سرور خان بھی ساتھ تھے ۔دوسری دفعہ چھلت چھپروٹ تک کا سفر جس میں جی بی کی تمام قیادت شامل تھی ۔موصوف کا انتہائی ملنسار اور کارکنوں کو عزت دینے والے لیڈر کے طور پر جانا ۔نمبر 2۔سید جعفر شاہ ۔سید جعفر شاہ کا تعلق جلال آباد گلگت سے ہے موجودہ حلقہ 3اور سابقہ حلقہ 2سے متعدد بار قانون اسمبلی کی سیٹ جیتنے والے خوش نصیب ہیں ،پاکستان پیپلزپارٹی گلگت بلتستان کے صدر رہ چکے ہیں اور اعلیٰ عدلیہ کے جج کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ہیں ۔وسیع سیاسی تجربہ رکھتے ہیں ،عمران خان کے ویژن سے متاثر ہوکر PTIمیں شامل ہوئے ہیں ۔ان سے PTDCہنزہ میں ایک مرتبہ ملاقات ہوئی جس میں پاکستان تحریک انصاف سے متعلق گفت و شینید کا مختصر سیشن ہوا ۔وہ سیاسی داو پیج کے ماہر جانے جاتے ہیں ۔
عزیز احمد ۔ان کا تعلق آپر ہنز ہ گوجال سے ہے جو کہ تحریک انصاف کے متحرک ترین قائدین میں سے ہے ۔پاکستان تحریک انصاف گلگت بلتستان کی منشور کی تیاری میں ان کا کلیدی کردار رہا ہے ،سابق کنوینئر تحریک انصاف حشمت اللہ خان اور موجودہ جنرل سیکریٹری جی بی فتح اللہ خان کے دست راست اور مشیر کے طور پر ان کا ایک نام تھا ۔اعلیٰ ڈگری ہولڈر اور سیاست کے شہ سوار ہیں ۔
حشمت اللہ خان ریٹائرڈ اے آئی جی حشمت اللہ خان شریف النفس شخصیت کے حامل ہیں ۔گلگت بلتستان میں پہلے تحریک انصاف سیکریٹریٹ کا قیام ان کے دور میں عمل میں آیا ،علاوہ ازیں جی بی کے سینئر رہنماوں کو تحریک انصاف کی طرف راغب کرنے میں ان کا اہم رول رہا ہے اور ان کا تعلق بونجی سے ہے ۔
راجہ جلال۔سابق جج راجہ جلال قانون سازاسمبلی یاسین سے منتخب ہوئے تھے مگر انہوں نے استعفیٰ دے کر جج کے عہدے پہ براجمان ہوئے ۔سیاسی بیگ گرونڈ کے حامل خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ، ان کا بھائی راجہ جہانزیب قانون ساز اسمبلی کے واحد ممبر ہیں جو عمران خان کے ویژن کے پروموٹ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے ہیں ۔جج صاحب سے کبھی ملنے کا اتعاق نہ ہوا البتہ راجہ جہانزیب سے سکول کے وقتوں میں فٹبال کے گراونڈ میں ملا کرتے تھے ،وہ ایک اچھے فٹ بالر بھی ہیں۔
گورنر جو بھی آئے گا سب کو قبول ہوگا ،لیکن راجہ جلال حسین مقپون کو گورنر بنانے کی صورت میں جو خلا سامنے آئے گا اس کو پر کرنے کیلئے کونسا پیمانہ اور معیار ہونا چاہئے ،لازمی طور پر کنڈیڈیٹ کو جانچنے کے لئے ماضی کو کریدنا پڑے گا ۔چھان پھٹک کرتے وقت احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا اور پارٹی مفادات اولین ترجیح ہونی چاہئے ۔بحیثیت سیکریٹری اطلاعات گلگت ڈویژن کی ذمہ داری میرے پاس ہے ۔حالات اور واقعات کا چشم دید گواہ ہوں ،مالی اور وقت کی قربانی میں پیش پیش کون رہا ہے اس سے تمام عہدیدار اور کارکن بخوبی واقف ہیں ۔کافی غور اور فکر کے بعد دو نام میرے سامنے آئے پہلا نام موجودہ جنرل سیکریٹری فتح اللہ خان اور دوسرا نام عزیز احمد سابق صدر گلگت ڈویژن ۔عزیز احمد سے متعلق اُپر زکر ہوچکا ہے۔
ذیلی سطور میں فتح اللہ خان جنرل سیکریٹر گلگت بلتستان کا ذکر ہوگا ۔ان کا تعلق جگلوٹ گلگت سے ہے ،نوجوانوں میں مقبول لیڈر ہیں ۔2015کے الیکشن سے کچھ دنوں پہلے مسلم لیگ ن کو خیر باد کہہ کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور تحریک انصاف کی ٹکٹ پر حلقہ 2کے امیدوار ٹھیرے اور موجودہ وزیراعلیٰ حفیظ الرحمن کے لئے خطرے کی گھنٹی بجادی ۔شکست کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور پارٹی میں ترقی کرتے ہوئے جنرل سیکریٹری کے عہدے پر فائض ہوئے ۔گلگت بلتستان میں پارٹی کو فعال بنانے میں ان کا رول اہم رہا ہے ۔تنظیمی امور کو چلانے میں جو کردار انہوں نے ادا کیا ہے اس کو زکر نہ کرنا زیادتی ہوگی ۔2015کے دوران یکے بعد دیگرے دوبڑے جلسے جس میں چیئر مین تحریک انصاف عمران خان اور پارٹی کے ہائیراتھارٹیز کی شرکت قابل ذکر ہے ۔ان جلسوں کی کامیابی کی بدولت موصوف مقبول ہوئے اور جنرل سیکریٹری کا عہدا حاصل کرنے میں اسے کوئی دشواری پیش نہ آئی ۔اس وقت ان کی نظر پاکستان تحریک انصاف گلگت بلتستان کی صدارت پر ہے تاہم پارٹی پالیسی کے تحت جو بھی فیصلہ مرکزی قائدین کرینگے اس پر من و عن عمل کرنا پاکستان تحریک انصاف کے ہر ممبر پر فرض ہے ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گلگت بلتستان کے صدر کو نامز کرتے وقت اور گور نر کی نامزدگی میں میرٹ کا خاص خیال رکھا جائے گا۔میرٹ میں ہی تحریک انصاف گلگت بلتستان کی بقاء ہے ۔