عزیزم رحمت کریم کی وساطت سے کمال الدین کمال صاحب کی کتاب ’’سرد موسم میں حرارت تم ہو‘‘ کی سرسری بینائی کا موقع ملا تھا۔ کمال الدین کمال………… یہ نام پہلی بار سننے کو ملا تھا لیکن ان کی کتاب میں شامل شعروں کے مطالعے سے وہ اپنے ہی قبیلے کا فرد لگا۔ پھر کل رحمت کریم کا فون آیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’سر! آپ جس کتاب کو پڑھ کے صاحبِ کتاب کے شعروں کو سراہ رہے تھے وہ میرے ساتھ ہیں آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا ’’خوش آمدید! آپ آفس تشریف لائیں۔‘‘
رحمت کریم کے ساتھ چہرے پر ہلکی داڑھی اور الجھے ہوئے بالوں کے ساتھ جو نوجوان میرے آفس میں داخل ہوا تھا۔ بلکہ یوں سمجھئے کہ کمر تک جھکتے ہوئے اور اپنی بانہیں پھیلائے مجھ سے جو شخصیت ملی تھی۔ یہی اپنے حلیہ سے اپنے ہی اشعار کی تصدیق کر رہی تھی
آسمان تیری وسعتیں کیا ہیں
مجھ میں کیا کیا سما نہیں سکتا
جب میری نظر ان کے الجھے ہوئے بالوں پر گئی۔ تو گویا وہ کہہ رہے تھے
بند آنکھوں سے لیٹ جاتا ہوں
خود کو لیکن سلا نہیں سکتا
اب اس عاشق بے قرار کو کون سمجھائے کہ بند آنکھوں سے لیٹنے کی ایکٹنگ بس ایکٹنگ ہی ہوتی ہے بھلا یادوں کی برات یا داغ ہائے دل کہاں سونے دیتے ہیں۔ دل کے ان داغوں کا تذکرہ ان کے اس شعر میں مزاحیہ ہی سہی لیکن ان کی بے بسی کا پردہ فاش کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں
دل کے داغ بہت ضدی ہیں
سرف ایکسل مٹا نہیں سکتا
اب ذرا بادل چھٹنے لگے۔ دل کے ان ضدی داغوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے وہ ان سے مخاطب ہیں
دل کے جذبے بکھر گئے کیسے
رنگ سارے اتر گئے کیسے
کیسے ہوا یہ، کچھ نہیں معلوم
وہ مجھے چھوڑ کر گئے کیسے
چھوڑ کر جانے والوں کا راز تو ربِ کائنات جانتا ہے۔ لیکن جانے والے کہاں رکتے ہیں بس ان کے لیے بہانہ چاہئے ہوتا ہے یوں وہ ایسے چلے جاتے ہیں کہ ان کے قدموں کے نشان تک نہیں رہ جاتے۔ ہاں! رہ جاتی ہیں تو بس ان کی یادیں۔ اور یہ کم بخت یادیں ایسی بے قرار کر دیتی ہیں کہ زندگی گزرتی نہیں بلکہ زندگی ٹھہر جاتی ہے تو ایسے میں کمال الدین کمال جیسے حساس شاعر کو مجبوراً کہنا پڑتا ہے
زندگی ہے تو مختصر لیکن
مجھ کو دیوارِ چین لگتی ہے
کمال جہاں اپنے محبوب کی تلاش میں اس وسیع و عریض آکاش میں چمکتے چاند تاروں میں کھو جاتے ہیں تو وہاں ایک دفعہ پھر زندگی کے فلسفے پر خامہ فرسائی کچھ اس انداز میں کرتے ہیں
چاند تارے رہے خیالوں میں
تجھ کو ڈھونڈا کئی حوالوں میں
زندگی یوں گزر گئی جیسے
چھاؤں میں دُھوپ، دُھوپ چھاؤں میں
وہ کسی پری وش سے مخاطب ہیں۔ کہتے ہیں
سرد موسم میں حرارت تم ہو
حُسنِ یوسف کی حکایت تم ہو
سلطنت سے مجھے کیا لینا ہے
اصل میں میری بغاوت تم ہو
یہاں اس شعر میں شاعر نے ہمیں مغل تاجداروں اور ان کی زن پرستی و زن مریدی کی یاد دلائی۔ زن مریدی کی بیماری میں بڑے بڑے شہنشاہ بھی تخت و تاج کو لات مار کر دام ہزار رنگ حسن کے اسیر بن گئے، محبوبِ نظر کی نگاہوں کے اُٹھنے اور جھکنے میں حیات و موت کے قصے رقم کئے گئے، اشارۂ ابرو پر دین و مذہب کے اُصول تک بھلا دئیے گئے۔ ایسے حالات کی منظرکشی ساغرؔ صدیقی نے خوب ہی کیا ہے۔ کہتے ہیں
ہائے آدابِ محبت کے تقاضے ساغرؔ
لب ہلے اور شکایات نے دم توڑ دیا
کمال کے شعروں سے ان کی حساسیت کا اندازہ ہوتا ہے وہ بھیڑ میں تنہا اور تنہائیوں میں کہرام مچاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مادیت پرستی کا اظہار کس خوبصورت پیرائے میں کیا ہے۔ کہتے ہیں
ہر کوئی اپنے غم میں تنہا ہے
دوسرے کا پتہ نہیں ہوتا
ایک اچھا شاعر وہ ہوتا ہے جو معاشرے کا بیانیہ اپنے شعروں میں بیان کریں۔ آج کل معاشرے میں خود کو مومن اور باقی دُنیا کو لعنت و ملامت کا جو رواج پنپ رہا ہے۔ میرا خدا تیرا خدا والا معاملہ اور جنت کے پلاٹوں کی تقسیم کا جو سلسلہ نکلا ہے۔ ایسے میں کمال جیسے حساس شاعر کہاں چپ رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اور برملا کہتے ہیں
خدا کے واسطے تو خود کو مسلکوں میں نہ بانٹ
خدا کو پورے جہاں کا خیال رہتا ہے
المختصر کمال الدین کی زیر تبصرہ قلمی کاوش ادبِ شمال میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ ہاں پہلی کاوش ہے اس لیے جوان مشاہدے کی کیفیت و کمیت کے حوالے سے سچی بات کی جائے تو کمال کی شاعری ابتدائی مراحل میں ہے۔ بعض اشعار میں اوزان، قافیہ بندی اور دوسری شعری لوازمات کی کمی محسوس ہوئی۔ یہ عمر کا تقاضا ہے کہ اس عمر میں انسان کے جذبات و احساسات میں ہی توازن کا فقدان ہوتا ہے تو چہ جائیکہ ایسی عمر میں ایک نوجوان شاعر کی شاعری اوزان کا پابند ہو۔ پہلی ملاقات اور ان کا تعارف بزبان شاعر خود کہ وہ ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں اور قراقرم یونیورسٹی میں ایجوکیشن کے لیکچرر ہیں۔ تعلیم اور ہاں اعلیٰ تعلیم سے آپ کی یہ وابستگی اس گمان کو یقین میں بدل دیتی ہے کہ آپ بہت جلد اپنی دُنیا آپ پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔