یکم نومبر: نریندر مودی کی نسل سے چھٹکارے کا دن
گلگت بلتستان کی درودیواراور سنگلاخ چٹانیں اس بات کی دلیل ہیں کہ یہاں کی باسیوں نے روز اول سے اپنی بقا ء اور عظمت کی جنگ لڑی ہے،بیرونی دباو اور اغیار کے قبضے کو قبول تو درکنار اپنے وجود کی موجودگی، سرفروشی کی کہانیاں اور آزادی کے گیت اپنے خون جگر سے لکھتے آئے ہیں ۔1947سے قبل گلگت بلتستان کے علاقے گلگت ، بلتستان اور استور ریاست جموں و کشمیر کا حصہ رہے اور اُس زمانے میں مذکورہ علاقوں پر ڈوگرہ تسلط قائم تھا ۔14اگست 1947کو قیام پاکستان کے بعد حریت کا یہ جذبہ گلگت بلتستان کی عوام کے دلوں میں بھی موجزن ہوا ،گلگت سکاوٹس جو کہ جموں و کشمیر حکومت کی عسکری ونگ تھی نے جذبہ آزادی کے نظریے کو اپناتے ہوئے ڈوگرہ کے خلاف نہ صرف خود میدان میں آیا بلکہ عوام کو بھی اس بات پر قائل کرتے ہوئے نمایاں کردار ادا کیا چونکہ 1947سے پہلے بھی گلگت بلتستان کی جغرافیائی اہمیت ایک حقیقت تھی اس وجہ سے بعض بین الاقوامی طاقتوں کی نظریں اسی خطے پر جمی ہوئی تھیں،روس نے گلگت بلتستان پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کر دیا تھا بعض مورخین کہتے ہیں کہ 1947سے پہلے روس کے کچھ جاسوس گلگت میں برطانوی حکومت کے کارندوں کے ذریعے قتل کئے گئے ہیں ،تاج برطانیہ کو گلگت بلتستان میں روس کا بڑھتا ہوا اثر ہر گز قبول نہ تھا اس لیئے اندرون خانہ میجر براون کو یہ ذمہ داری بھی تفویض کی گئی تھی کہ وہ ڈوگرہ کے خلاف عوامی جدو جہد میں گلگت بلتستان کی عوام اور سکاوٹس کے ساتھ بھرپورتعاون کریں ۔انقلاب گلگت میں گلگت سکاوٹس و مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ میجر براون کے کردار سے نظریں چرانا بھی تاریخ کو مسخ کرنے کی مترادف ہے،جس طرح کرنل حسن خان گروپ کیپٹن شاہ خان ،صوبیدارصفی اللہ بیگ وغیرہ نے نریندر مودی کی نسل کو عبرت ناک شکست دے کر گلگت کو آزاد کرایا اسی طرح میجربراون نے بھی برطانوی شہری ہونے کے باوجود روس کے اثر کے خوف سے انقلاب گلگت میں گلگت بلتستان کے حریت پسندوں کے شانہ بشانہ آزادی کی شمع کو روشن کرنے میں اپنا پورا کردار ادا کیا ۔اکتوبر 1947میں ریاست جموں و کشمیر کی تیسری اکائی گلگت کا گورنرگھنسارا سنگھ تھے یہاں کی عوام نے انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں اپنے سے طاقت ور حکومت کو شکست دے کر گلگت کو عالمی نقشے پر آزاد اور خود مختار مملکت کے طور پر نمایا ں کیا۔آزادی کے بعد راجہ شاہ رائیس خان کو ریاست گلگت کے صدراور برطانوی فوج کی تربیت یافتہ حسن خان کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا گیا ،بعد ازاں بلتستان کے علاقہ روندو کے راجہ نے نریندر مودی کی نسل کوبلتستان سے بھی پاک کرنے کیلئے راجہ شاہ رائیس خان اور کرنل حسن خان سے تعاون طلب کیا جس پر گلگت سے حریت پسندوں کی ایک بڑی تعداد روندو سے ہوتے ہوئے سکردو پہنچ گئی ایک سال بعد 14اگست 1948کو بلتستان بھی ڈوگرہ تسلط سے آزاد ہوا اس سے پہلے گلگت کی آزادی کے بعد میر آف نگر اور میر آف ہنزہ نے قائد اعظم کو ٹیلی گرام بھیجا تھا جس میں یہ موقف اختیار کیا کہ گلگت کی عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت ڈوگرہ کو علاقے سے بھگاکر گلگت کو آزاد کرایا ہے اور اب پاکستان کے ساتھ ملنا چاہتے ہیں جس پر قائد اعظم محمد علی جناح نے خیبر پختونخواہ کے خان عبدالقیوم خان کی ذمہ داری لگا دی کہ وہ گلگت کے معاملے کو دیکھیں ،خان عبدالقیوم خان نے ایک نائب تحصیلدار سردار عالم خان کو گلگت جانے کا حکم دیا ،سردار عالم گھوڑے پر سوار ہوکربابوسر کے رستے کچھ دن بعد گلگت پہنچ گئے ،جہاں پر اُن کا شاندار استقبال کیا گیا اور پھول کی پتیاں نچھاور کی گئی ،ریاست کے صدر نے حکمرانی کی بجائے نوکری کو ترجیح دی اور شاہ رائیس خان نے سردار عالم سے محکمہ سول سپلائی میں نوکری کی خوائش ظاہر کی۔علاقائی حالات اور مزاج کے بعد عوامی پلس کو دیکھتے ہوئے سردار عالم گلگت کے حکمران بن گئے اور خان عبدالقیوم خان کو سب درست کی رپورٹ ارسال کی جس کے فورا بعد 16نومبر1947کو ریاست گلگت کا ریاست پاکستان کے ساتھ باقاعدہ غیر مشروط الحاق ہوا،سردار عالم نے گلگت کو دوبارہ ایجنسی قرار دیتے ہوئے ایف سی آر کا نفاظ کیا۔ملک پاکستان کے ساتھ گلگت بلتستان کی وابستگی انمٹ اور نظریاتی ہے اور نظریہ تمام تر وابستگیوں سے بالا ہوتا ہے ،یکم نومبر کو گلگت بلتستان کی عوام اور حکومت جشن کے طور پر مناتی ہے اس مقصد کیلئے ہر سال صوبہ بھر میں تقریبات منعقد ہوتی ہیں اور جشن کا سماں ہوتا ہے اس دن کو منانے کا مقصد اسلاف کی عظیم قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے نریندر مودی کی نسل کو بھی پیغام دینا ہے کہ یکم نومبراصل میں گلگت بلتستان کی عوام کو اتحاد اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے ۔ڈوگرہ کی پسپائی کا یہ زخم اب بھی نہیں بھرا ہے اور ہندوستان آج بھی گلگت بلتستان کی عوام کو ملک پاکستان سے متنفر کرنے کی پس پردہ کوشیشوں اور سازشوں میں مصروف ہے ۔گزشتہ دنوں ایک بھارتی مصنف نے پاکستان اور گلگت بلتستان کے ساتھ بغض کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک متنازعہ کتاب لکھی جس میں گلگت بلتستان کا پاکستان کے ساتھ قائم نظریاتی رشتے کو مشکوک بناکر پیش کیا گیا جس کی پوری قوم نے بھرپور مذمت کی ۔