کالمز

غذر سے چین تک – آٹھویں قسط

نصف گھنٹہ گزرنے کے بعد بھی بابا کا کچھ پتہ نہ چلا۔ بابا کے بغیر ہم تاشقرغن نہیں جاسکتے تھے۔ ہم سے زیادہ پریشانی ڈرائیور کو ہو رہی تھی۔ ابھی ہم پریشانیوں کے اظہار میں مصروف تھے کہ بابا کا چمکتا، گنجا، سر امید کی کرن بنے نظر آگیا۔ ہم نے سکھ کا سانس لیا، لیکن ہمارے قریب بیٹھی مقامی خواتین نے اپنی زبان میں نہ جانے کون کونسی گالیوں سے نوازا۔

پسینے میں شرابور بابا ٹشو سے منہ صاف کرتے ہوئے قریب پہنچا تو ڈرائیور کے پوچھنے پر توجیہہ کچھ یوں پیش کی کہ یاک کا گوشت پسند نہیں ہے، اس لئے دنبے کا گوشت کھانے کسی اور ہوٹل میں گیا تھا۔ وہاں کھانا بنانے میں دیر ہوگئی۔ ابھی بابا اپنا قصہ درد بحالت مجبوری بیان کر رہے تھے کہ ڈرائیور اور خواتین نے مقامی زبان میں درشت لہجے گالیوں کی ایک بار پھر برسات کر دی۔

راستے میں بھی خواتین بابا پر گرم ہوئیں۔ ان کا غصہ ختم ہی نہیں ہورہا تھا۔ بابا نے انہیں انہی کی زبان میں کچھ کہا، اور پھر ہم سے مخاطب ہوا، "آج دنبے کا گوشت مجھے کچھ زیادہ ہی مہنگا پڑگیا”۔

گاڑی ساٹھ کی سپیڈ پر چل رہی تھی جبکہ درجنوں کنٹینر ہم سے آگے نکل رہے تھے یہ وہی کنٹینر تھے جن پر ٹینوں کے حساب سے سامان پاکستان سے دنیا کے مختلف ممالک میں پہنچ جاتا تھامگر پاکستان سے اگر چند کلو بادام اور اخروٹ اگر کوئی شخص اپنے ساتھ لے آتا ہے تو تشقرغان میں کسٹم والے ان پاکستانیوں کو تنگ کرتے ہیں کہ آپ نے یہ ڈرائی فروٹ اپنے ساتھ کیوں لایا ہے چین میں کیا ڈرائی فروٹ کی کوئی کمی ہے ہمیں کاشغر میں ایک پشاور کا کاروباری ملا وہ چین کے اورمچی شہر اور دیگر دیہاتوں میں جاکر اخروٹ خریدتا ہے اور ان کا باقاعدہ سٹاک کرتا ہے بقول اس کے کہ چائینہ کے دیہاتوں میں اخروٹ کے بڑے بڑے درخت ہیں اور اخروٹ کو اتارنے کے موسم میں اس کی قیمت بہت زیادہ سستی ہوتی ہے اور اس تاجر کاکہنا تھا کہ اب تک میں نے اٹھ ٹرک اخروٹ کو چین سے لاہور بیچا ہے اور اس سے مجھے چھ لاکھ کی آمدنی ہوئی اب میرا ویزے کاٹائم ختم ہوگیا ہے اور اس کو رینو کرانا ایک دو دن میں پاکستان جاونگا مجھے اس کی ان باتوں سے بڑی حیرت ہوئی کہ پاکستان سے دو کلو اخروٹ لیکر کوئی بند چائینہ نہیں جاسکتا تو اس شخص نے پورے اٹھ ٹرک اخروٹ چائینہ سے لاہور پہنچا دیا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان سے صرف پیسے لیکر ہی چائینہ جانا ہے اور وہاں سے سامان جتنا بھی لاو اجازت ہے جو سراسر ناانصافی ہے اگر دیکھا جائے تو سی پیک سے جتنا فائدہ چائینہ کو ہے اتنا فائدہ شاید پاکستان کو نہ ہو چونکہ چین شاہراہ قراقرم کے راستے اربوں روپے کا سامان گوادر پہنچتا ہے وہاں سے یہ سارا سامان دنیا کے کونے کونے میں پہنچ جاتا ہے ایسے میں اگر پاکستان سے بھی کوئی پھل فروٹ یا دیگر سامان اگر چائینہ جاتا ہے تو چائنہ کی کسٹم والوں کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہے اگر چین میں ڈرائی فروٹ مل جاتا ہے تو پاکستان میں بھی ڈرائی فروٹ کی کوئی کمی نہیں ہے گلگت بلتستان جو ڈرائی فروٹ کے حوالے سے پورے ملک میں مشہور ہے مگر جب سے چائینہ کے اخروٹ اور بادام گلگت بلتستان اور پاکستان پہنچنا شروع ہوگئے ہیں یہاں کی مارکیٹ ہی ختم ہوگئی ہے اور مقامی کاشتکاروں کا بادام اگر پانچ سو روپے کلو فروخت ہوتا تھا وہ اب تین سے چار سو میں فروخت ہورہا ہے اگر چائینہ کا ڈرائی فروٹ اس طرح پاکستان آتے گئے تو ہمارا ڈرائی فروٹ کو خریدنے کے لئے کوئی گاہک ہی نہیں ملے گاحالانکہ ذائقے کے لحاظ سے ان کے بادام اور اخروٹ ہمارے بادام اور خروٹ میں زمین آسمان کا فرق ہے البتہ ان کی صفائی اس طرح کی گئی ہے کہ کوئی بند ہ ان کے اخروٹ اور بادام خرید لے چونکہ چائینہ میں اس وقت بھی یہاں کے پھل فروٹ کی بہت زیادہ مانگ ہے مگر کسٹم والوں کی طرف سے یہاں سے جانے والے پھل فروٹ کو وہاں لے جانے پر پابندی کی وجہ سے یہاں کے کاروباری افراد کو سخت مشکلات درپیش ہیں اس حوالے سے پاکستانی حکام کو تشقرغان کی کسٹم حکام کی طرف پاکستان سے پھل فروٹ لیکر جانے والے افراد کو تنگ کرنے کاباقاعدہ نوٹس لینے چاہے اگر ڈرائی فروٹ کی پاکستان سے چین لے جانے پر پابندی ہے تو چین سے پاکستان آنے والے ڈرائی فروٹ کی پابندی ہونی چاہے بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہماری گاڑی اب ایک اور چیک پوسٹ پر رک گئی تھی ڈرائیور نے اب ایک بار پھر ہمیں سامان سمیت چیک پوسٹ جانے کی نوید سنائی ہم نے سامان اٹھایا اور چیک پوسٹ میں داخل ہوگئے ہمارے بارڈر پاس کو چیک کیا اورجانے کی اجازت مل گئی باہر آکر ہم نے اپنا سامان گاڑی میں رکھا تو اس دفعہ بابا سب سے پہلے گاڑی میں پہنچ گیا تھا مگر جو تین خواتین ہمارے ساتھ ان میں سے ایک لڑکی غائب تھی ڈرائیور کو ہمارے ساتھ ہم سفر بابا نے کچھ بتایا تو ڈرائیور پھر چیک پوسٹ کی طرف چلا گیا پندرہ منٹ کے بعد واپس آیا اور خواتین کو کچھ بتایا تو خواتین بہت پریشان ہوگئی اور بابا مسکرا رہا تھا ہم بھی پریشان تھے کہ آخر سیکورٹی والوں نے اس لڑکی کو کیوں روکا ہے بابا نے ان خواتین سے کچھ باتیں کی پھر ہمارے طرف مخاطب ہوکر کہا کہ جس لڑکی کو سیکورٹی والوں نے روکا ہے اس نے اپنا شناختی کارڈ گھر بھول آئی اس وجہ سے اس کو روکا گیا ہے اب اس کو واپس کاشغر بیجھا جائیگا ہم حیران ہوگئے کہ اپنے ہی ملک میں ایک شہر سے دوسرے شہر میں بغیر شناختی کارڈ کے داخل ہونے کی اجازت نہ ملنے پر میں اور نیت ولی حیران ہوگئے کہ ہم کئی کئی مہینوں تک شناختی کارڈ جیب میں نہیں رکھتے مگر یہاں کا قانون دیکھو ابھی ہم یہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ ڈرائیور واپس آیا اور خواتین سے آکر کچھ کہا اور واپس چلے گئے بقول بابا کے کہ خواتین گھر بات کی ہے اور گاڑی میں شناختی کارڈ روانہ کر دیا گیا ہے شاید پولیس کو تسلی ہوگی کہ کارڈ روانہ کیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ شناختی کارڈ کو چیک پوسٹ پر انٹری کے بعد شاید لڑکی کو حوالہ کرتے جب کارڈ کی تصدیق ہوگئی تو کوئی ایک گھنٹے کے بعد لڑکی چھوڑ دیا گیا کہ واپسی پر اپنا کارڈ چیک پوسٹ سے لے جائے اس طرح کاشغر سے تشقرغان تک ہمارا سفر دوگھنٹے تاخیر کا شکار تھا البتہ ہمیں پریشانی اس وجہ سے نہیں تھی کہ برادرم عبدالحد نے تشقرغان میں ہوٹل میں کمرہ لینے کی ہمیں نوید سنائی تھی ہمارے گاڑی اس وقت اس جھیل کے سائڈ سے گزر رہی تھی یہ جھیل کوئی پچیس کلومیٹر لمبی ہے اور اس جھیل کے دوسرے سائڈ پر ہمیں ریت کے پہاڑ نظر آئے اس جھیل سے تشقرغان شہر کے لئے بجلی فراہم کی جاتی ہے اور بڑی مقدار میں اس جھیل سے پانی کاسٹاک کیا گیا ہے تاکہ خشک سالی کی صورت میں اس پانی کو کاشت شدہ زمینوں کو سیراب کیا جاسکے دوسری طرف ہم ہیں کہ1970کے بعد کسی بھی حکمران نے پاکستان میں ڈیم بنانے اور پانی کو ذخیرہ کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی آج ہماری یہ حالت ہے کہ اپنا پانی سمندر میں جاگرتا ہے اور ہم اپنے پانی کاسٹاک بھی نہیں کرسکتے اگر یہاں پر خشک سالی ہوئی تو ہمارے پاس چند دنوں کا پانی کا سٹاک ہوتا ہے گلگت بلتستان کے صاف وشفاف پانی کو بھی کسی حکمران نے بچانے کی کوشش نہیں کی اور گرمیوں کے موسم میں کروڑوں لیٹر پانی سمندر میں گرتا ہے موجودہ حکومت نے دیامر بھاشا ڈیم بنانے کا جو دانشمندہ اقدام اٹھایا ہے یہ قدم آج سے پچاس سال پہلے حکمرانوں کو اٹھانا چاہے تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا اگر 2025تک ہم ان اہم ڈموں کو بنانے میں کامیاب نہ ہوئے تو ملک میں شدید خشک سالی کا خدشہ ہے ہماری گاڑی اب اس ڈیم سے نکل کر تشقرغان ٹاپ کی طرف روانہ تھی اور باہر خون جمانے والی سردی تھی اورٹاپ کے آس پاس برف ہی برف نظر آرہی تھی اور باہر بہت کی خوبصورت سما تھا (جاری ہے )

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button