میں اور الواعظ ۔۔۔ ایک مکالماتی سلسلہ، قسط ششم
ہر سال بارہ نومبر آتی ہے اور خوشیاں بکھیر کے گزر جاتی ہے۔ کل بھی ایسا ہوا تھا۔ میں آفس سے تھکے ہارے گھر کی طرف نکلا تھا۔ گیٹ پر دستک کے فوراً بعد ہی گیٹ کھلا تھا۔ سوسن بچوں کے ساتھ صحن میں میرا ویٹ کر رہی تھی۔ میرے اندر داخل ہوتے ہی ’’ہیپی برٹھ ڈے پاپا‘‘ کہہ کے جہاں آشا اور آذین ایک ساتھ مجھ سے بغلگیر ہوئے تھے وہاں سوسن مجھے تھامے کمرے میں داخل ہوئی تھی۔
کمرے میں دسترخواں کو برتھ ڈے کیک اور دیواروں کو رنگارنگ غباروں سے سجایا گیا تھا۔ مجھے زبردستی بٹھایا گیا۔ موم بتی کی روشنی اور کیک کاٹنے کے ساتھ ہی ہماری زندگی کا ایک برس بیت چکا تھا۔ اب ماشااللہ! زندگی کی چونتیسویں بہار بھی رخصت ہوچکی تھی۔ میں شاید یادوں کی دُنیا میں پہنچ چکا تھا۔
بارہ نومبر انیس سو چوراسی کو چار بہنوں کے بعد جب میری پیدائش ہوئی تھی تو میرے والدین کی خوشی کتنی دیدنی ہوگی۔ بیٹا بیٹی دونوں اللہ کی نعمت و رحمت کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یکے بعد دیگرے جب چار بیٹیاں ہوئیں تو معاشرے کی ستم ظریفی دیکھیے کہ اس جرم کی پاداش میں ابو امی کو گھر نکالا کا پروانہ ہی مل گیا۔ پھر گاؤں میں جس کے ہاں بھی بیٹا پیدا ہوتا تو امی کے بقول میری بہنیں روتی تھیں کہ اللہ ہمیں بھائی کیوں نہیں دے رہا۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ دعائیں جب سچے دل سے مانگی جائیں تو قبول ہوجاتی ہیں۔ امی ابو کی دعائیں اور بہنوں کی مرادیں غالباً میری پیدائش کی صورت میں پوری ہوچکی تھیں۔ لیکن ان کو ایک اور بیٹے کی شاید ضرورت تھی میرے بعد پھر دو بہنوں کی پیدائش کو اللہ کی رحمت سمجھ کر وہ سجدہ ریز ہوئے کہ چھ بہنوں کا ایک بھائی ہی سہی لیکن اب ان کو کوئی گھر سے نہیں نکال سکتا کہ تمہاری تو بیٹیاں ہی پیدا ہوتی ہیں۔ کیسی جہالت تھی اور کیسا جاہلانہ رویہ۔ ان سب کے بارے میں سوچ کے غالباً میری آنکھیں نم ہوئی تھیں۔ سوسن نے پوچھا ’’خیر تو ہے؟‘‘ میں نے بات بدلنے کی کوشش کی کہ موم بتی کی روشنی اور دھویں کی وجہ سے آنکھوں میں چھبن محسوس ہو رہی ہے۔ سوسن چونکہ انگریزی ادب کی طالبہ رہی ہیں اس لیے بے اختیار کہنے لگیں ’’ویسے یہ موم بتی کا دھواں ہو یا پرانی یادوں کا، آنکھیں برس ہی جاتی ہیں۔‘‘
رات کو سونے سے پہلے زندگی کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی تو میرے اندر کے واعظ ایک دفعہ پھر مجھ سے مخاطب تھے۔ میرے اندر کے واعظ کو ان انتظامات جیسے برتھ ڈے، خوشیاں، کیک، دکھاوا ان سب پر اعتراض تھا۔ کہنے لگے:
’’جیسے جیسے میری عمر میں اضافہ ہوتا گیا، مجھے سمجھ آتی گئی کہ میں برتھ ڈے مناؤں یا نہ مناؤں میری عمر تو گزر رہی ہے۔۔۔۔۔۔ میں کیک کاٹو یا نہیں، میری عمر تو کٹ رہی ہے۔۔۔۔۔۔ میں تین سو روپے کی گھڑی پہنوں یا تین ہزار کی، دونوں وقت ایک جیسا ہی بتائیں گی۔۔۔۔۔۔ میرے پاس تین ہزار کا بیگ ہو یا تیس ہزار کا اس کے اندر کی چیزیں تبدیل نہیں ہوں گی۔۔۔۔۔۔ میں تین سو گز مکان میں رہوں یا تین ہزار گز مکان میں، تنہائی کا احساس ایک جیسا ہی ہوگا۔۔۔۔۔۔ آخر میں بزنس کلاس میں سفر کروں یا اکانومی کلاس میں، میں اپنی منزل پر اسی مقررہ وقت پر پہنچوں گا۔۔۔۔۔۔ اس لیے اپنی اولاد کو دکھاوے کی ترغیب مت دو بلکہ ان کو یہ سکھاؤ کہ وہ خوش کس طرح رہ سکتے ہیں اور جب بڑے ہوں تو چیزوں کی قدر کو دیکھیں قیمت کو نہیں۔‘‘
میرے اندر کے واعظ نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا:
فرانس کا ایک وزیر تجارت کہتا تھا ’’برانڈڈ چیزیں مارکیٹنگ کی دُنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہوتی ہیں جن کا مقصد تو امیروں سے پیسہ نکلوانا ہوتا ہے مگر غریب اس سے بہت متاثر ہو رہے ہوتے ہیں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ میں آئی فون اُٹھا کر پھروں تاکہ لوگ مجھے ذہین اور سمجھدار مانیں؟ کیا یہ ضروری ہے کہ میں روزانہ دوستوں کے ساتھ اٹھک بیٹھک ڈاؤن کیفے پر جاکر کروں تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ میں خاندانی رئیس ہوں۔۔۔۔۔۔ کیا یہ ضروری ہے کہ میں اپنی ہر بات میں انگریزی کے دو چار الفاظ ٹھونسوں تو مہذب کہلاؤں؟ کیا یہ ضروری ہے کہ میں ادیلے یا ریحانہ کو سنوں تو ثابت کرسکوں کہ میں ترقیافتہ ہو چکا ہوں؟۔۔۔۔۔۔ نہیں یار! میرے کپڑے عام دکانوں سے خریدے ہوئے ہوتے ہیں، دوستوں کے ساتھ کسی تھڑے پر بھی بیٹھ جاتا ہوں، بھوک لگے تو کسی ٹھیلے سے لیکر کھانے میں بھی عار نہیں سمجھتا، اپنی سیدھی سادی زبان بولتا ہوں۔ چاہوں تو وہ سب کر سکتا ہوں جو اوپر لکھا ہے لیکن! میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو میری ایڈیڈس خریدی گئی ایک قمیض کی قیمت میں پورے ہفتے کا راشن لے سکتے ہیں۔‘‘
میرے اندر کے واعظ نے ہلکا توقف کے بعد کھنگارا شاید مجھے موقع دینا چاہتا ہو کہ اب تک انہوں نے جو فرمایا ہے وہ میرے پلے بھی پڑ رہا ہے یا نہیں۔ پھر اس وزیر تجارت کی کہانی کو جوڑتے ہوئے کہنے لگے:
’’وزیر موصوف کہتا ہے کہ میں نے ایسے خاندان دیکھے ہیں جو میرے ایک میگ برگر کی قیمیت پر سارے گھر کا کھانا بنا سکتے ہیں۔ بس میں نے یہاں سے راز پایا ہے کہ پیسے سب کچھ نہیں، جو لوگ ظاہری حالت سے کسی کی قیمت لگاتے ہیں وہ فورا اپنا علاج کروائیں۔ انسان کی اصل قیمت اس کا اخلاق، برتاؤ، میل جول کا انداز، صلہ رحمی، ہمدردی اور بھائی چارہ ہے۔ نہ کہ اس کی ظاہری شکل و صورت۔‘‘
میرے اندر کے واعظ نے یہ وقعہ سنا کے میرے جنم دن کو تفکرات میں بدل دیا تھا۔ ان کی آخری بات کہ انسان کی اصل قیمت اس کا اخلاق، برتاؤ، میل جول کا انداز، صلہ رحمی، ہمدردی اور بھائی چارہ ہے، یقیناً پلے باندھنے کا تھا۔ لیکن میں یہاں اپنے اندر کے واعظ سے تھوڑا سا اختاف کرنے کی جسارت کروں گا۔ ان کے آخری جملے اور ان کی نصیحتوں سے کس کو مفر ہوسکتا ہے۔ یہ چیزیں تو آدمی سے انسان بننے کے لیے زادِ سفر کا درجہ رکھتی ہیں۔ میرا کہنا تو یہ ہے کہ ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو سیلیبریٹ کرنے سے جہاں ربِ کائنات کے سامنے سجدۂ تشکر لانے کا موقع ملتا ہے وہاں اس بھاگتی دوڑتی زندگی میں کچھ وقت فیملی کے ساتھ بتانے کا بہانہ ملتا ہے اور بچوں کے چہرے پر مسکان بھی دکھتا ہے۔ کل آشا اور آزین کی خوشیوں کی انتہا نہ تھی وہ اپنے کھلونے والے موبائلز پر اپنے دوستوں کو فون کرکر کے چہک رہے تھے کہ ان کے پاپا کا برتھ ڈے ہے ان کے دوست بھی شرکت کریں۔ بس ہمیں ان لمحات کی قدر کرنی چاہئیے۔
خیر بارہ نومبر کی شام ہلہ غلہ میں گزری۔ اللہ پاک کا شکر کہ ہمیں ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو منانے کا موقع ملتا ہے۔ سوسن کی محبت اور اتنے سارے انتظامات کا شکریہ یہی وہ لمحے ہوتے ہیں جہاں آپ کو اپنوں کی محبت کا یقین ہوجاتا ہے۔