پھسو کی جانب
ڈاکٹرافضل سراج
پیر و مرشد حضرت علامہ اقبال نے تقریبا ایک صدی قبل ارشاد فرمایا تھا کہ ،،ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت۔؛؛حالانکہ ان کے زمانے میں سائنس نے اتنی ترقی کی تھی نہ مشینیں روز مرہ زندگی میں اتنی لازم و ملزوم تھیں۔آج کا دور تو مشینوں کا ہے۔پوپھٹنے سے شام کے ڈھلنے تک ہر لمحہ ہر لحظہ مشینوں کا محتاج ہے۔اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ آدمی خود بھی ایک مشین کی مانند ہوگیا ہے اورکوہلو کے بیل کی طرح صبح شام غم روزگار میں مگن رہتا ہے۔یہ حالات کی ستم ظریفی ہے کہ اس دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ رہنے کے لیے مشین بن جانا مجبوری ہے ورنہ زندگی کی دوڑ میں آدمی پیچھے رہ جاتا ہے۔ اور وقت کی بے رحم موجیں اسے نگل جاتی ہیں۔اور اس کا وجود صفحہء ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ جاتا ہے۔تقدیر کے اس جبر کے ہاتھوں مجبور انسان کی حسرت ناتمام کو ایک شاعر نے یوں بیان کیا ہے۔
دل ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کیے ہوئے
وائے افسوس کہ دل ناداں کے نالے اب کون گوش گذار کرے۔وہ زمانے گئے کہ صدائے قلب پر لبیک کہتے ہوئے عشق آتش نمرود میں بے خطر کود پڑے اورعقل محوئے حیرت ہوکر دل کی نادانی پرسر دھنے۔اب تو تقاضائے عصر حاضر یہ ہے کہ عقل بات کو مقدم جان کرقلب کو مصلوب کیا جائے یامغلوب رکھا جائے۔اسی کو دانشمندی گردانا جاتا ہے اور یہی زمانے کا چلن ہے۔اسی لیے علامہ اقبال نے بجا طور پر فرمایا تھا کہ احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات۔
ایسے دگرگوں حالات میں جب ہر شخص گردش ایام کا غلام بن کر رہ گیا ہو،فرصت کے چند لمحات کا میسر آنا غنیمت ہے۔بقول شاعر
تیرا خیال بھی غنیمت ہے
تیرا وصال بھی غنیمت ہے
گذشتہ اتوار سٹی ہاسپٹل گلگت کی سرجیکل ٹیم سرجن ڈاکٹرمراد کی دعوت پرسرجن ڈاکٹر عمران اور ڈاکٹرضیاء انیستھیٹسٹ کی سربراہی میں شہر گلگت کی چکاچوند روشنیوں اور ہنگاموں سے کوسوں دور ضلع ہنزہ کی خوبصورت وادی پسو کی جانب روانہ ہوئی۔سرجن ڈاکٹر مسرور صاحب اور ڈاکٹر منیر صاحب اور دیگر آن ڈیوٹی اوٹی سٹاف کے مشکور ہیں جنہوں نے اتوارکے روز آن کال رہ کر کور دیا اور بطریق احسن ایمرجنسی کو ڈیل کیا۔
صبح ساڑھے نو بجے کے قریب تمام احباب نشتر کلینک میں جمع ہوچکے تھے۔چائے نوشی اورسفر کی مختصر سی پلاننگ کے بعدقافلہ تقریبا دس بجے پسو کی جانب روانہ ہوا۔ایونٹ منیجر ساجد میر کی بہترین حکمت عملی اور کوآرڈینیشن نے سفرکو آسان اور پرلطف بنایا۔قافلہ خراماں خراماں ذوالفقارآباد کے عقب سے قراقرم یونیورسٹی کو ملانے والے پل کی طرف سے دنیور کی طرف گامزن ہوا۔دنیور پمپ سے فیول ڈلوانے کے بعد قریب ہی واقع ویلکنائزنگ شاپ سے گاڑیوں کے ٹائر چیک کروائے اوربیکری سے کچھ زاد راہ لے کر ،،نئے عزم سے،، عازم سفر ہوئے۔موسم انتہائی خوشگوار تھا۔چمکتی دھوپ میں درختوں کے جھڑتے ہوئے پتے،خزاں کی آمد کا مژدہ سنا رہے تھے۔ہر موسم کا اپنا ایک الگ رنگ اور حسن ہے۔بہار کی رنگینیاں،پھولوں کی رعنائی اور سرسبز وادیوں کی دلکشی جہاں آنکھوں کو خیرہ کرتی ہیں وہاں جاڑے کی ٹھنڈی یخ بستہ ہوائیں،پہاڑوں کو اپنے دامن میں لپیٹتی برف کی سفید چادریں،درختوں سے جھڑتے پتے اور بے آب و گیاہ میدان بھی فطرت کے شاہکار ہیں۔اور اپنی جاذبیت اور فطری حسن کی بدولت اہل خردکو دعوت نظارہ دیتے ہیں۔
پھر دبے پاؤں کہانی مرے گھر میں اتری
پھر خزاں رت پہ بہاروں کا گماں ہوتا ہے
ضلع ہنزہ اپنی وادیوں کی دلکشی اور اپنے مکینوں کی جفاکشی اور علم و ہنر کے میدانوں میں نمایاں برتری کی وجہ سے ملک بھر میں مشہور ہے۔اور خطہ ارضی کے ماتھے کا جھومر ہے۔ان وادیوں میں سیروسیاحت کے لیے آنے والے سیاح یہاں کے فطری حسن اور مہمان نوازی سے متاثر ہو کر جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہر سال لاکھوں ملکی اور غیر ملکی سیاح ادھر کا رخ کرتے ہیں۔کے کے ایچ کی مرمت،عطا آباد جھیل اور ٹنلز نے یہاں کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیے ہیں۔
دنیور سے کچھ دیرکے فاصلے پرجوتل واقع ہے۔یہ ایک چھوٹا ساگاؤں ہے۔آبادی بھی کم ہے۔جوتل سے ذرا آگے دریا کے اس پاروادی نومل ہے کا خوبصورت منظردل کو موہ لیتا ہے۔یہ ضلع گلگت کا ایک گنجان آباد علاقہ ہے۔گلگت کی مشہور وادی نلتر بھی اسی طرف واقع ہے۔نومل چیری کی پیداوار کے لیے مشہور ہے۔یہ بات حیران کن تھی کہ اتنی ٹھنڈ میں بھی سیاحوں کی ایک کثیر تعداد ہنزہ کی جانب رواں دواں تھی۔ہنزہ کی طرف سیاحوں کے میلان کی ایک بڑی وجہ کے کے ایچ کا آرام دہ سفربھی ہے۔سڑک اتنی عمدہ ہے کہ تھکاوٹ کا احساس بھی نہیں ہوتا۔کچھ ہی دیر میں ہم رحیم آباد کراس کرکے راکا پوشی پوائنٹ پہنچ گئے۔ارادہ تو تھا کہ تھوڑی دیر راکاپوشی کے دامن میں ٹھہر کر چائے نوشی کا لطف اٹھائیں مگرہمارے کچھ ساتھی جو ہم سے آگے جا رہے تھے ،پسو پہنچنے کے لیے بے تاب تھے۔یوں چار و ناچار ہمیں بھی ریس لگانی پڑی۔یہاں سے آگے ضلع نگر کے آس پاس سفر شروع ہوجاتا ہے۔نگر بھی اپنی دلکش وادیوں کی بدولت سیاحوں کے لیے جنت سے کم نہیں۔چھلت کے بعد کریم آباد آتا ہے۔یہ لوئر ہنزہ کا آخری گاؤں ہے۔اس کے بعد گلمت جی حدود شروع ہوتی ہے۔یہ گوجال کا پہلا گاؤں ہے۔گلمت سے آگے چند منٹ کی ڈرائیو پر پسو واقع ہے جو کہ ہمارا آخری پڑاؤ تھا۔یہاں ایک مقامی ہوٹل میں ڈاکٹر مراد صاحب کی طرف سے دعوت کا انتظام تھا۔ہوٹل کی انتظامیہ نے ہمیں خوش آمدید کہا اور ایک کشادہ کمرے میں بٹھایا۔باہر جتنی ٹھنڈ تھی ہوٹل اتنا ہی گرم تھا۔انگیٹھی میں کوئلے دہک رہے تھے۔ہم نے اپنے کوٹ اتارے اور پاؤں سیدھے کیے۔ویٹر نے گرما گرم چکن سوپ سرو کی۔چار گھنٹے کے مسلسل سفر کے باوجود تھکاوٹ کا احسا س تک نہ تھا۔احباب کی تجویز پرفیصلہ ہوا کہ کھانا تیار ہونے تک قریب ہی واقع باتورا جھیل کا نظارہ کیا جائے۔چند ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ پیدل چلا جائے مگر جو احباب علاقے کے جغرافیے سے واقف تھے انہوں نے رائے دی کہ چڑھائی ہے اس لیے پیدل چلنا دشوار ہوگا۔اس لیے گاڑیوں میں ہی جانا مناسب ہوگا۔یوں ہم گاڑیوں میں سوار ہو کر جھیل کی طرف چل دیئے۔باتورا گلیشئر کے دامن میں واقع چھوٹی سی یہ جھیل اپنے نیلگوں پانی کی وجہ سے ہر دیکھنے والی آنکھ کو سحر میں مبتلا کردیتی ہے۔جھیل کنارے کھڑے ہوکر ہم نے بھی احباب کے ساتھ تصویریں بنوائیں اور چند کنکر جھیل کی طرف اچھال دیئے۔اس خیال کے ساتھ کہ۔۔۔
اے خوش جمال شخص ترے انتظار میں
میں تھک گیا ہوں،جھیل میں کنکر گرا گرا کر
جھیل کے صاف شفاف پانی میں تیرتیں وسط ایشیاء کی برفیلی وادیوں سے آئی ہوئی مرغابیاں دیکھ کر طمانیت کا احساس ہواکہ چلو کہیں تو یہ بے زبان پرندے محفوظ ہیں۔وگرنہ گلگت شہر میں مرغابیاں کم اور شکاری زیادہ نظر آتے ہیں۔
ہوا کے تیور بدل رہے تھے۔یخ بستہ ہوائیں بدن میں سوئیوں کی طرح چبھ رہی تھیں۔تند و تیز ہواؤں سے بچنے کے لیے آگ جلانے کی کوشش کی گئی مگر بے سود۔سڑک کے ساتھ ایک نشیبی علاقے میں پناہ لی اورآگ جلانے میں کامیاب ہوئے۔ٹھنڈے موسم میں بون فائر کا پنا ہی مزہ ہے۔اور اس کے ساتھ اگر علاقائی دھنوں پر روایتی رقص بھی ہو تو مزہ دوبالا ہوجاتا ہے۔تھک ہار کر ہوٹل پہنچے ۔کھانا تیار تھا۔بہت بھوک لگی تھی۔خوب سیر ہوکر کھایا اور چائے بھی نوش کی۔شکم سیری کے بعد وسیم اور ان کے ساتھی جرکین اور ڈھول کی تھاپ پر پھر رقصاں ہوگئے۔وسیم کی سریلی آواز نے محفل پھر سے گرم کی اور سب کو نچا کر دم لیا۔وقت کی کمی اور طویل مسافت کے پیش نظرنہ چاہتے ہوئے بھی محفل ختم کرنی پڑی۔اور حسین یادوں کے خزانے سمیٹتے ہوئے ہم سب پسو کو الوداع کہتے ہوئے گلگت کی جانب عازم سفر ہوئے۔
ہم پلٹ آئے مسافت کو مکمل کرکے
اور بھی چلتے ،اگر ساتھ تمہارا ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد